۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا فرزند علی بڑھانوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | قطب¬الواعظین مولانا فرزندعلی بڑھانوی ، مظفرنگر کے مشہور علاقہ "بڑھانہ" میں پیدا ہوئے، آپ کے والد "جناب خورشید علی" بستی کے محترم و معزز فرد تھے۔

مولانا موصوف نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنی بستی میں رہ کر ہی حاصل کی اس کے بعد ایران کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر جیّد علماءو مراجع کی خدمتِ بابرکت میں رہتے ہوئے اپنی معلومات کو چار چاند لگائے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن "بڑھانہ" واپس آئے اور تبلیغ دین میں مصروف ہوگئے۔

مولانا فرزند علی بڑھانوی نہایت متواضع شخصیت کے حامل، شریف النفس، مبلّغ، معلّم اور عارف انسان تھے۔ مولانا نے ایک روز بڑھانہ کے لوگوں کو جمع کرکے کہا کہ مجھے حکم ہوا کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے عراق کا سفر کروں لہٰذا اب میں عراق جا رہا ہوں، اس کے بعد مومنین کو الوداع کہا اور وہاں سے نکل گئے۔

بڑھانہ کے مؤمنین ان کی واپسی کے منتظر تھے ۔آخر وہ وقت آگیا کہ آپ زیارت کے سفر سے واپس اپنے وطن تشریف لائے، لوگوں نے موصوف کو حلقہ میں لے لیا، آپ نے ایک رومال کھولا، لوگوں نے دیکھا کہ اس رومال میں قبر امام حسین علیہ السلام کی مبارک مٹی ہے جس نے پوری فضا کو مہکا دیا، علامہ نے مومنین سے کہا: کل نماز فجر کے بعد اس مبارک مٹی کو شیعہ قبرستان میں دفن کروں گا۔

لوگ نماز فجر کے بعد قبرستان میں جمع ہوگئے، مولانا نے اپنے ہاتھوں سے اس مٹی کو وہاں دفن کیا جہاں روز عاشور تعزیہ دفن کیا جاتا تھا۔ تربت امام حسین علیہ السلام کی تدفین کے بعد مولانا نے خطبہ دیا، خطبہ کے درمیان آپ نے کہا: میں امام حسینؑ کے حکم سے امام حسینؑ کے روضہ پر حاضر ہوا تھا، ایک روز نماز شب کے بعد تسبیح جناب فاطمہ سلام اللہ میں مشغول تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کچھ تبرکات مجھے دیکر کہاکہ ان تبرکات کو اپنی بستی میں موجود شیعہ قبرستان میں دفن کردینا، اس کو دفن کرنے کے بعد اس کے اوپر امام حسینؑ کے روضہ کی شبیہ بنادینا تاکہ جو لوگ کربلا نہیں آسکتے وہ وہاں زیارت کریں اور کربلا کی زیارت کا ثواب حاصل کریں!۔ میں یہ سننے کے بعد کربلا سے اپنے وطن واپس آگیا، تبرکات کو دفن کردیا اور تعمیل حکم میں روضہ امام حسینؑ کی شبیہ بھی تیار کرادی۔ یہ شبیہ سن 1927عیسوی میں آمادہ ہوئی اور آج تک اسی حالت پر باقی ہے۔

جب روضہ کی شبیہ آمادہ ہوگئی تو آپ نے وہاں عزاداری قائم کی جس میں خود مجلس پڑھتے تھے، ایک روز مجلس پڑھتے پڑھتے وسط میں کہا: ؎

ادب سے آؤ جھک جھک کر عجب درگاہِ عالی ہے - نبی کے لاڈلوں نے اس جگہ بستی بسالی ہے

مولانا موصوف نےاپنا گھر منہدم کرایا اور اس جگہ مسجد تعمیر کرائی، وہ باغ جو آپ کو وراثت میں ملا تھا اسے مسجد کے لئے وقف کردیا؛ آپ کی بنوائی مسجد آج بھی بڑھانہ میں موجود ہے۔

مذکورہ نیک کام انجام دینے کے بعد مولانا نے تبلیغ دین کی غرض سے اپنے وطن سے دہلی کا رخ کیا اور پنجہ شریف میں قیام پذیر ہوئے۔ پنجہ شریف میں قیام کے دوران آپ نے امام حسین علیہ السلام کی ضریح کی نہایت خوبصورت نقاشی کی جو آج بھی موجود ہے اور ہزاروں لوگ زیارت سے مشرف ہوتے ہیں۔

مولانا فرزند علی ایک عرصہ تک دہلی میں مقیم رہے، اس کے بعد دہلی سے ممبئی کی طرف گامزن ہوئے، مسجد ایرانیان میں قیام کیا اور قرآن کریم و نہج البلاغہ کا درس دینا شروع کیا۔ بڑھانہ کے مومنین مولانا کے دلدادہ ہیں۔ آج بھی ان کی تصویر مؤمنین کے گھروں میں موجود ہے۔ بڑھانہ کے مومنین آپ کو اپنے جد کے مانند یاد کرتے ہیں۔ وہ لوگ جب کبھی تلاوت کرتے ہیں تو موصوف کی روح کو بھی ہدیہ کرتے ہیں۔

مولانا فرزند علی تعلیم کے دلدادہ اور زیارت امام زمانہ عج کے مشتاق تھے، اسی شوق کے پیش نظر بغیر زاد راہ پیدل جنگلوں میں نکل پڑے اور اتنا سفر کیا کہ ملک ایران میں داخل ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر علماء و فضلاء سے کسب فیض کیا اس کے بعد عراق کا رخ کیا اور وہاں بھی بزرگ مراجع کی خدمت میں رہ کر تعلیم حاصل کی۔

آپ تعلیم مکمل کرنے کے بعدقرآن‎مجید، احکام، تاریخ و عقائد کی تدریس میں مشغول ہوگئے اور بہت سے شاگردوں کو زیور علم و عمل سے آراستہ کیا۔

مولانا کو خداوند عالم کی جانب سے صرف ایک نعمت عطا ہوئی تھی جو بچپن ہی میں خدا کو پیاری ہوگئی، ابھی بچہ کو گزرے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا ، مولانا کی اہلیہ بھی آپ کو داغِ مفارقت دے گئیں۔ مولانا نے زوجہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی نہیں کی اور اپنی بقیہ زندگی عبادت الٰہی میں گزار دی۔

آخرکار یہ علم و عمل کا ماہتاب سن 1359ہجری بمطابق سن 1940عیسوی شہر ممبئی میں غروب ہوگیا اورمجمع کی ہزار آہ و بکا کے ساتھ ممبئی میں موجود قبرستانِ ایرانیان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند-دایرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج8، ص175، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2022ء۔

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/54JDZMifrdE?si=P5O9gwIJXshgr8wR

تبصرہ ارسال

You are replying to: .