حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،شب عاشور اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ شہر ممبئی عزاداران سید الشہدا کے سامنے چھوٹا نظر آ رہا تھا مرکزی ممبئی کے ہر علاقے میں سیاہ پرچم لئے سوگوار اپنے مولا کا ماتم کر رہے تھے۔زینبیہ، حضرت عباس ع اسٹریٹ، حضرت فاطمہ زہرا ع مارگ،خوجہ مسجد، اور مسجد ایرانیان( مغل مسجد) و امامیہ مسجد کی طرف جانے والے تمام راستے عزاداران سید الشہداء سے چھلک رہے تھے۔
شہر کی سڑک کے کناروں پر لگی سبیلیں سید الشہدا کی پیاس کی یاد دلا رہی تھی ان سبیلوں پر بوڑھوں بچوں اور نوجوانوں کا ہجوم بتا رہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مراسم عزا میں مزید رونق انکے سید الشہدا سے عشق کی دلیل ہے ۔
شب عاشور مسجد ایرانیان ( مغل مسجد ) کے مرکزی عشرہ کی آخری مجلس کو حجتہ الاسلام والمسلمین مولانا سید نجیب الحسن زیدی صاحب نے خطاب کیا جس میں کثیر تعداد میں مومنین نے شرکت کی۔
مولانا نے عزاداروں سے چھلکتی مجلس میں اپنے خطاب کے آغاز میں سلطنت عمان میں شہر مسقط کی امامبارگاہ علی ابن ابی طالب ع میں عزاداروں کو نشانہ بنائے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے شہدا کی مغفرت اور مجروحین کی مغفرت کی دعاء کرتے ہوئے کہا : یہ عزاداری وہ ہے جو دین کے پیغام کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے وہ پیغام جس کے جاری رہنے کی ضمانت حضرت زینب ع نے یزید کے دربار میں لی تھی کہ "یزید جو کچھ کر لے ہماری وحی نہیں مٹا سکتا نہ ہمارے ذکر کو ختم کر سکتا ہے" آج یزید کے چیلے اور یزیدی جان لیں وہ عزاداروں پر حملے کر کے اس ذکر کو نہیں کم کر سکتے وہ جتنا ہم پر حملہ کریں گے عزاداری کو اتنا ہی فروغ ہوگا۔ جو کام متوکل و دیگر بنی امیہ کے کارندے نہیں کر سکے ہمارے دور کے ظالم کیا کر پائیں گے ۔
مولانا نے اپنے خطاب کے دوران امام موسی صدر کے ایک فقرے کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ کربلا نشان حق ہے اگر عزاداری میں سب کچھ ہو مزاج حق نہ ہو تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہم کیا کر رہے ہیں ۔عزاداری ہمیں جادہ حق پر گامزن رہنے کا ہنر سکھاتی ہے۔ محبت اہلبیت ع اور لبیک یا حسین ع" کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے آخری مجلس میں مولانا نے کہا کربلا ہمیں درس شعور آگاہی دیتی ہے ہمارے اندر ارادے کی پختگی کربلا سے پیدا ہوتی ہے ۔
شہید خامس محمد باقر الصدر کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا نے بیان کیا کہ شہید خامس فرماتے تھے۔ امت مسلمہ جس مرض کا 61 ہجری میں شکار تھی وہ ارادے کا فقدان تھا ۔ جہاں ارادہ نہ ہو وہاں انسان سب کچھ ہوتے ہوئے مردہ لاش بن جاتا ہے، ایسی ہی صورت امام حسین علیہ السلام کے دور میں اس وقت تھی جب یزید نے مطالبہ بیعت کیا تھا۔ نمازیں اپنی جگہ تھیں روزے اپنی جگہ حج اپنی جگہ لیکر امت کا ارادہ مرچکا تھا لہذا یزید جیسا ظالم حاکم تھا ۔سید الشہدا الہی ارادے کو لیکر نکلے تو ظلم سےٹکرا گئے یزیدیت سے ٹکرا گئے ظلم سے مقابلہ کے لئے ارادہ ضروری ہے اگر ارادہ نہ ہو تو امت بے جان ہے ۔امت کی جان کو ارادہ کہتے ہیں ۔
مولانا نے لبیک یا حسین علیہ السلام کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے کہا لبیک یا حسین یعنی ہم مظلوموں کے ساتھ ہیں ظالم کے خلاف ہیں اور ہمارا مزاج حسینی و فکر حسینی ہے ہم ہر اس جگہ کھڑے نظر آئیں گے جہاں حق ہوگا ۔
آخر میں مولانا نے امام حسین علیہ السلام کی رخصتی کے مصائب پڑھے جس سے پورے مجمع پر عجیب رقت طاری ہوئی نوجوان دہاڑیں مار کر رو رہے تھے اور ہر طرف گریہ زاری کے درمیان واحسینا کی صدائیں تھیں ۔
مجلس کے بعد ماتمی دستوں نے مسجد کے صحن میں پرسوز نوحے پڑھے سابق وزیر عارف نسیم خان،جمعیہ العلماء ہند ممبئی کے سکریٹری مولانا سراج خان، ایرانی کلچرل ڈائریکٹر جناب فاضل و دیگر عمائدین شہر اس پروگرام کا حصہ تھے جو عزاداروں کے خاص نظم و ضبط کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ۔