حوزہ نیوز ایجنسی | فخر حکماء علامہ حکیم سید علی اظہر کھجوی سن 1277ہجری بمطابق سن 1860عیسوی میں سرزمین "کھجوہ ضلع سیوان صوبہ بہار" پر پیدا ہوئے ، مولانا موصوف کے والدمولانا سید حسن(باخدا) کھجوی بھی اپنے زمانہ کے جید علماء میں شمار کئے جاتے تھے۔
علامہ علی اظہر کے والد نے ایک شب خواب میں دیکھا کہ مولوی سیدعابد حسین نے انہیں ایک مروارید عطا کیا، اتفاق سے اسی شب میں علامہ علی اظہر کی ولادت ہوئی اور آپ کے والد نے آپ کا اصلی نام "مظہرالاسلام" رکھا۔ علامہ سید احمدعلی محمدآبادی نے ان کا نام "سیدحسین" تجویز کیا تھا لیکن "علی اظہر" نام سے زیادہ مشہور ہوئے۔
سن 1284ہجری میں علامہ علی اظہر اپنی والدہ کے سایہ عطوفت سے محروم ہوگئے اور والدہ کی وفات کے دس سال بعد لکھنؤ کا رخ کیا۔ علامہ غلام حسنین کنتوری نے مدرسہ ایمانیہ کی بنیاد رکھی تو علامہ کو مدرسہ کے پہلے گروہ میں قرار دیا، علامہ بچپن سے ہی ذہین تھے چنانچہ امتحان میں ایسی کامیابی ملی کہ "ہدایۃ الاطفال" نام کی کتاب بھی انعام میں حاصل کی۔
موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کی خدمت میں رہ کر حاصل کی اور علم طب لکھنؤ سے حاصل کیا، آپ کے اساتذہ میں سے: مولانا غلام صادق، مولانا ضامن علی، مولانا محمد امین گوپالپوری، عمادالعلماء مولانا سید مصطفی ، مفتی محمد عباس شوشتری، تاج العلماء علی محمد، مولانا سید حسن (والد ماجد)، مولانا حامد حسین، مولانا احمد علی محمدآبادی، حکیم حیدر حسین،حکیم باقرحسین اور میر آغا قابل ذکر ہیں۔
علامہ علی اظہر سن 1322ہجری اپنے اہل خانہ کے ساتھ عتبات عالیات کی غرض سے عراق پہنچے، وہاں مراجع عظام سے ملاقاتیں رہیں اور آپ کو آیت اللہ شیخ حسین مازندرانی، آیت اللہ شیخ محمد طٰہٰ عرب، آقائے شریعت اصفہانی، آیت اللہ کاظم طباطبائی اور آیت اللہ صدر نے اجازات اجتہاد سے نوازا۔
سن 1293ہجری میں علامہ علی اظہر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ سن 1295ہجری میں آپ کے والد "سید حسن باخدا" حج بیت اللہ کے ارادہ سے سفر پر نکلے تو آپ کو مجبوراً ان کی جگہ پُر کرنے کے لئے وطن پہنچنا پڑا تاکہ نماز جماعت ادا ہوتی رہے۔ علامہ علی اظہر سن 1297ہجری میں خود عراق و خراسان کی زیارات کی غرض سے سفر پر نکلے۔ موصوف نے سن 1324ہجری میں زیارت بیت اللہ الحرام کا شرف حاصل کیا۔
علامہ موصوف نے سن 1301ہجری میں علم طب کی تعلیم مکمل کی اور"بہار" میں موجود " آرہ" نامی علاقہ میں مقیم ہوکر اپنی طبابت کا آغاز کیا۔سن 1314ہجری میں شہر پٹنہ میں مطب کھولا اور ساتھ میں وعظ و نصیحت کا سلسلہ بھی جاری کیا۔ سن 1315ہجری میں "اصلاح" نامی پرچہ کا رسم اجراء کیا، اس کام میں آپ کے خلوص کی دلیل یہ ہے کہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
علامہ علی اظہر اردو، فارسی اور عربی زبان پر مکمل تسلّط رکھتے تھے۔آپ نے تقریری میدان کے علاوہ نظم و نثر میں بھی بہت زیادہ شہرت حاصل کی۔ آپ نے ادارہ اصلاح قائم کرکے دار المصنفین اعظم گڑھ کی بہت زیادہ خدمات انجام دیں۔ موصوف طہارت و عبادت پر بہت زیادہ دھیان دیتے تھے اور بچپن سے ہی فضائلِ اہلبیت اور تبلیغِ مذہب کے شوقین تھے۔
علامہ علی اظہر نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں سے: ناظرہ¬ امجدیہ (دو جلد)، ذوالفقار حیدری (دس جلد)، تنقید بخاری (پانچ جلد)، کشف الظلمات بجواب بحث فدک، کنز مکتوم فی حلّ عقد اُمّ کلثوم، تشفی اہل السنۃ و الخوارج، تبصرة الوسائل، دفع الوثوق عن نکاح الفاروق، الآل و الاصحاب، رسالہ¬ وضو، تاریخ الاذان، تصحیح تاریخ، نافع القرآء، المرافعات ردّ رسالہ شاہ عبد العزیز دہلوی، ، نخبۃالبیان (شرح¬معانی و بیان)، نضیعہ¬رابعہ، آیات بینات (چارجلد)، حاشیہ شرح تہذیب، حاشیہ¬قطبی، حاشیہ¬ شرح ملّا مبین، حاشیہ ملّا محسن، حاشیہ¬ حمداللہ اور الجمرۃوغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔
علامہ علی اظہر کو خداوند سبحان نے چار بیٹے عنایت فرمائے، آپ نے انہیں علوم دینی و دنیاوی کی طرف مائل کیا اور ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا؛ موصوف کے بیٹے علامہ علی¬حیدر، مولانا محمد حیدر، مولانا اختر حسین و موسیٰ کاظم کے ناموں سے پہچانے گئے۔
آخر کار یہ فخرحکماء سن 1352ہجری بمطابق سن 1933عیسوی اپنے وطن میں ظہر کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا، مؤمنین کی کثیر تعداد نے نماز جنازہ پڑھی، اس کے بعد آبائی قبرستان میں سپردِ لحد کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند-دایرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج4، ص111، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020 ء۔
ویڈیو دیکھیں: