۲۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۹ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 17, 2024
مولانا منظور حسین رجیٹوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا منظور حسین بتاریخ 24 رجب سن 1349ہجری بمطابق 15 دسمبر سن 1930 عیسوی میں سرزمینِ شیعہ نگر (رجیٹی) ضلع غازی آباد صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے، یہ علاقہ دور حاضر (یعنی1445ہجری/2024عیسوی) میں ضلع ہاپوڑ میں شمار ہوتا ہے۔موصوف کے والد "مولوی سعید احمد" بھی اپنے زمانہ کے مبلغین میں شمار ہوتے تھے ۔

مولانا منظور حسین نے نماز اور دینیات اپنی والدہ سے سیکھی اور قرآن کریم کی تعلیم اپنے والد نیز مولانا ناصر علی زیدی عبداللہ پوری سے حاصل کی یعنی آپ کی ابتدائی تعلیم وطن میں ہی انجام پائی۔ اس کے بعد سیدالمدارس امروہہ کا رخ کیا ،پھر سن 1941عیسوی میں جامعہ ناظمیہ لکھنؤ پہنچے اور سن 1950عیسوی میں ممتاز الافاضل کی سند حاصل کی۔

موصوف کے مشہور اساتذہ میں سے: آیت اللہ مفتی احمد علی، آیت اللہ سید علی نقی نقوی، حجت الاسلام سید کاظم حسین، اسلامی فلاسفر علامہ سید عدیل اختر، بابائے فلسفہ علامہ ایوب حسین سرسوی اور حجت الاسلام سید رسول احمد گوپالپوی وغیرہ کے اسمائے گرامی سرِ فہرست ہیں۔

فارغ التحصیل ہونے کے بعد ناظمیہ میں چھ سال تک استاد کی حیثیت سے پہچانے گئے۔ مولانا موصوف کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اپنے اپنے وقت میں نامور شخصیتوں کے عنوان سے معروف ہوئے۔ مولانا موصوف کے مشہور شاگردوں میں سے: نجم الواعظین مولانا ابن علی رجیٹوی، مولانا ڈاکٹر کلب صادق، علامہ ذیشان حیدر جوادی، مولانا عباس علی نجفی، مولانا شیخ محسن علی نجفی اور مولانا محمد صادق بلتستانی نجفی کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

مولانا منظور حسین رفاہی امور میں پیش پیش نظر آتے تھے، آپ نے سن 1947عیسوی میں اپنے وطن "رجیٹی" میں ایک کتب خانہ کی بنیاد رکھی جس کو اپنے والد کے نام "سعید احمد" سے موسوم کرتے ہوئے "کتب خانہ سعیدیہ" کے نام سے پہنچنوایا۔

جب مولانا منظور نے سن 1950 عیسوی میں ہندوستان سے پاکستان کی جانب ہجرت اختیار کی تو مذکورہ کتب خانہ موصوف کے بھائی "نجم الواعظین مولانا ابن علی" کی زیرِ سرپرستی قرار پایا۔ انہوں نے سن 1978عیسوی میں اس کتب خانہ کی تجدید کرائی اور اس کو "کتب خانہ سعیدیہ زینبیہ" کے نام سے موسوم کیا۔

مولانا منظور پاکستان پہنچے تو حیدرآباد میں موجود "لطیف آباد" نامی علاقہ میں قیام پذیر ہوئے، موصوف کے عالمِ حیات میں آپ کے بھائی "مولانا ابن علی " نے آپ کے لئے ایک ذومعنی قطعہ تحریر کیا جو اس طرح ہے: ؎

کب تلک آپ کے روضہ سے رہوں دور حسین - بزمِ دل اب تو مسرت سے ہے معمور حسین

کب سے آنکھوں میں لئے بیٹھا ہوں امید کا نور -ٍ اب تو کر لیجئے عرضی مری منظورؔ حسین

اس قطعہ میں مولانا ابن علی اپنے بھائی کا نام "منظور حسین" لائے ہیں جو یہاں ذومعنی ہے۔

مولانا منظور نے سن1952عیسوی میں مولانا سید ثمرحسن زیدی کی ہمراہی میں "مشارع العلوم" کے نام سے ایک مدرسہ تعمیر کرایا۔ اس مدرسہ میں چند سال تک تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد لطیف آباد میں موجود مسجد حسینی میں مشغول تبلیغ ہوئے۔ موصوف نے بہت سے علماء، افاضل، وزراء، مدیروں اور پروفیسروں کی تربیت فرمائی۔

موصوف کی زندگی نہایت سادہ تھی، حق گوئی کو پسند کرتے تھے اور سادات کی بابت خاص احترام کے قائل تھے۔ جوانوں کی اچھی تربیت کے پیش نظر ان کے مسائل کو حل کرتے تھے۔ مولانا غلام مہدی نجفی اور مولانا علی عباس نجفی کے اصرار پر "مہدی آباد - سندھ" میں موجود "جعفریہ یونیورسٹی" میں استاد کے عنوان سے پہچانے گئے اور وہاں رہ کر بارہ سال تک یونیورسٹی کی مدیریت کے فرائض انجام دیئے۔

مولانا منظور حسین کو خداوند عالم نے چار نعمتوں سے نوازا جن کو رضوان عباس، عرفان عباس، ریحان عباس اور عمران عباس کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔

آخرکار مولانا موصوف بتاریخ 18 ماہ رمضان المبارک سن 1420 ہجری بمطابق 27 دسمبرسن 1999عیسوی شب دوشنبہ تقریباً ڈھائی بجے رات میں جہانِ فانی سے جہانِ باقی کی جانب کوچ کرگئے اور نماز جنازہ کے بعد قبرستان میر فضل ٹاؤن لطیف آباد حیدرآباد میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ موصوف کی تاریخ وفات کو ایک شعر میں اس طرح منظوم کیا گیا: ؎

مغفور ہوا مولوی منظور حسین آج - فخرالعلماء مولوی منظور حسین آج

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند – سایز دائرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص370، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/erL9tLtMyWQ?si=zggZe2n13mdaqJAs

تبصرہ ارسال

You are replying to: .