۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
مراسم رونمایی کتاب عندلیبان علم و ادب

حوزہ/بہار انتہائی اہم اور نامور سرزمین ہے، اس نے اپنی عمر رواں میں بہت سے بیش قیمت جواہرات کو اپنی محبت بھری گود میں سمیٹا اور بہت سے نگینوں کو قیمتی بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بنیاد اختر تابان قم میں بہار کے شیعہ علماء و افاضل کی زندگی اور خدمات پر مشتمل دو جلدی کتاب "عندلیبان علم و ادب" کی رونمائی اور رسم اجراء کی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ کتاب حجۃ الاسلام مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپالپوری نے تحقیقی محنت سے تحریر کی ہے اور اس میں بہار کے 227 علماء کی سوانح حیات، خدمات اور تالیفات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کی طباعت میں بنیاد اختر تابان قم اور شعور ولایت فاؤنڈیشن لکھنو نے تعاون کیا ہے۔ مولانا سید شاہد جمال رضوی نے بہار کی اہمیت اور علماء کی علمی و ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ سرزمین ہمیشہ سے جید علماء کی آماجگاہ رہی ہے۔

ریاست بہار کے جید علماء کی سوانح حیات پر دو جلدی کتاب کی رسم اجراء

بنیاد اختر تابان شعبہ قم میں، شیعه علماء و افاضل بہار کی حیات و خدمات کے تفصیلی جائزے پر مشتمل دو جلدی کتاب"عندلیبان علم و ادب" کی رونمائی اور رسم اجراء کا اہتمام کیا گیا ہے۔

مذکورہ کتاب صوبہ بہار سے تعلق رکھنے والے جیّد علماء و افاضل کی حیات طیبہ اور ان کی دینی و سماجی خدمات پر مشتمل ہے جس کو حجۃ الاسلام مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپالپوری نے بڑی محنت و تحقیقات کے بعد تحریر فرمایا ہے، اس کتاب کو بنیاد اختر تابان- قم کے بانی و مدیر اعلیٰ حجۃ الاسلام سید مولانا سید کاظم رضوی حفید علامہ سعید اختر رضوی مرحوم اور شعور ولایت فاونڈیشن لکھنو کے تعاون سے منزل طباعت تک پہنچایا گیا ہے جس کی رونمائی اور رسم اجراء، بنیاد اختر تابان قم کے دفتر میں انجام پائی ہے۔

ریاست بہار کے جید علماء کی سوانح حیات پر دو جلدی کتاب کی رسم اجراء

کتاب عندلیبان علم و ادب، دو جلدوں پر مشتمل ہے اور دونوں جلدوں میں ۲۲۷ علماء و افاضل بہار کی سوانح حیات، ان حضرات کی خدمات، تالیفات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مختصر تعارف کے عنوان سے مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپالپوری اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ:

" بہار انتہائی اہم اور نامور سرزمین ہے، اس نے اپنی عمر رواں میں بہت سے بیش قیمت جواہرات کو اپنی محبت بھری گود میں سمیٹا اور بہت سے نگینوں کو قیمتی بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، یہ سرزمین ہمیشہ سے جید اور قابل علماء کی آماجگاہ رہی ہے ، یہاں ایک سے ایک شخصیتوں نے کسب علم و فیض کرکے اپنی جلوہ سامانیاں بکھیری ہیں ۔ ان کی زندگی میں دانش و تحقیق کا عمیق سمندر موجزن ہے اور شعر و ادب کا آبشار حقیقت جاری و ساری ہے ، یہ ہستیاں ایسے آفتاب کے مانند ہیں جس نے ڈوب کر بھی اپنے آثار و افکار اور کارناموں کی روشنی دنیا میں پھیلائی ہے۔

سورج ہوں روشنی کی رمق چھوڑ جاؤں گام

میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

تبصرہ ارسال

You are replying to: .