۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
مولانا اختر حسین طاب ثراہ مبارکپوری

حوزہ/عالیجناب، عزت مآب، مولانا اختر حسین طاب ثراہ مبارکپوری کی ولادت 12؍مارچ 1925 کو محلہ شاہ محمد پور، قصبہ مبارکپور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا کے ایک معزز خانوادے میں ہوئی۔ آپ نے ناظرہ قرآن اپنی والدہ سے مکمل کیا اور ابتدائی تعلیم مبارکپور، اعظم گڑھ کا سب سے پہلا اور نایاب ونادر مدرسہ’’ باب العلم‘‘ مبارکپور، اعظم گڑھ، یو پی، انڈیا سے حاصل کی۔

تحریر: مولانا محمد رضا ایلیاؔ مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی | عالیجناب، عزت مآب، مولانا اختر حسین طاب ثراہ مبارکپوری کی ولادت 12؍مارچ 1925 کو محلہ شاہ محمد پور، قصبہ مبارکپور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا کے ایک معزز خانوادے میں ہوئی۔ آپ نے ناظرہ قرآن اپنی والدہ سے مکمل کیا اور ابتدائی تعلیم مبارکپور، اعظم گڑھ کا سب سے پہلا اور نایاب ونادر مدرسہ’’ باب العلم‘‘ مبارکپور، اعظم گڑھ، یو پی، انڈیا سے حاصل کی۔

آپ کے والد محترم الحاج صفدر علی کربلائی مرحوم نفاست پسند ، صداقت اور نیک نیتی اور مہمان نوازی میں مشہور تھے۔اتنے اصول پسند تھے کہ گھر کی ہر چیز اس کے مقام رکھنے کے عادی تھے اور نہایت پر سکون اور اطمینان نیز بڑے آہستہ آہستہ شہنشاہوں کی طرح گفتگو فرماتے تھے ۔ آپ کا انتقال ملال 1958ءمیں ہوا( اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)۔ آپ کے والد محترم مدرسہ ’’ باب العلم ‘‘ مبارکپور کے بانیوں میں ایک تھے ۔جن بارے میں شاعر اہل بیتؑ جناب علی مختار مبارکپوری مرحوم اپنی کتاب’’ جلوۂ طور‘‘ کے صفحہ نمبر 92 پر اس طرح رقمطراز ہیں:

’’ جناب الحاج صفدر علی صاحب کربلائی مدرسہ (باب العلم )مبارکپور کو مالی تعاون دینے میں ہمیشہ آگے آگے رہے ۔آپ عرصہ تک مجلس منتظمہ کے معزز رکن بھی رہے ۔ ‘‘

مولانا جواد حسین طاب ثراہ، مولانا سبط حسین طاب ثراہ کے زمانہ میں تھے ۔مولانا اختر حسین طاب ثراہ مبارکپوری بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ آپ کے چھوٹے بھائیوں میں الحاج علی رضا مرحوم گرہست(شاہ محمد پور) جناب اقبال حسین مرحوم گرہست( پورہ خضر) الحاج حسن عسکری مرحوم گرہست(شاہ محمد پور ) تھے اور الحاج علی امام صاحب( سابق سکریٹری مدرسہ باب العلم،مبارکپور )کے بڑے ابو تھے ۔اسی طرز شہنشاہی میں جناب اقبال حسین مرحوم گرہست ( پورہ خضر) گفتگو فرماتے تھے۔

ایک مرتبہ آپکی انکے استاد محترم مولانا مرغوب عالم عسکری صاحب قبلہ سمند پوری سے راستہ میں ملاقات ہوگئی تو انہوں نے سلام کے بعد شاہانہ اور نہایت پر سکون انداز میں کہا: ’’مولانا آپ سے ملاقات ہوگئی سر راہ چلتے چلتے !‘‘

آپ نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر 1936ء میں سلطان المدارس، لکھنؤ تشریف لے گئے جہاں آپ کا شمار ذہین طلبہ میں ہوتا تھا ۔ آپ نے اپنی لیاقت علمی اور اعلیٰ ذہانت کیوجہ سے1943میں ’’ صدر الافاضل ‘‘ کی سند امتیازی نمبروں سے حاصل کی ۔آپ نے اپنے علم کو مزید مستحکم اور بہتر بنانے کی غرض سے ’’مدرسۃ الوعظین‘‘ پہنچ گئے جہاں پر آپ نے تین برس کا نصابی کورس 1948 میں پائے تکمیل کو پہنچایا۔ آپ سلطان الواعظین مولانا حضرت مولانا سید ابن حسن نو نوراہوی طاب ثراہ ،مولانا حضرت عبد الحسین طاب ثراہ،مولانا حضرت سید حسین طاب ثراہ، مولانا حضرت سید محمد طاب ثراہ، مولانا حضرت سید عدیل اختر طاب ثراہ جیسے جید اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔اس کے علاوہ آپ پنجاب یونیورسٹی سے منشی ،مولوی، عالم اور فاضل امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔

آپ مارچ 1949 میں دینی تبلیغ کے لیے سرزمین پاکستان تشریف لے گئے جہاں پر آپ نے کئی کامیاب تبلیغی اور اصلاحی کام بحسن و خوبی انجام دیا۔

1955 میں ’’گورنمنٹ ہائی اسکول، جھنگ سٹی ‘‘ آپ کی تقرری سرکاری ٹیچر کے عہدے پر ہوئی۔آپ جس ’’ گورنمنٹ ہائی اسکول، جھنگ سٹی‘‘ میں درس و تدریس کو انجام دیے رہے تھے اس زمانہ میں یہ واحد اسکول تھا اس کے علاوہ کوئی اور اسکول نہیں تھا ۔جہاں پر آپ نے ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ طلبہ و طالب کو اردو اور دیگر اعلیٰ درجات کو عربی کی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کیا ۔آپ کی والہانہ، مخلصانہ، التماسانہ تدریس کااثر طلبہ پر اس قدر ہوا کہ آپ کے شاگرآج بڑے بڑے محکموں کے شعبوں میں جیسے صحت ، تعلیم، علم الارضیات ،علم فلکیات ، انجینئر نگ،لسانیات وغیرہ میں برسر کار ہیں اور آپ کو ہمیشہ اپنا حقیقی استاد تسلیم کرتے ہیں اور آج بھی آپ کو یاد کر کے ان کی آنکھیں نم ہو جا تی ہیں۔ آپ نے یہیں سے اورنٹین ٹیچنگ کی سند حاصل کی۔

ریٹائرمنٹ کے بعد’’گورنمنٹ گرلس انٹرمیڈیٹ کالج، جھنگ جب کوئی اردو اور عربی کا استاد نہیں تھا تو وہاں کے پرنسپل نے آپ سے گزارش کی کہ آپ ہمارے کالج میں تعلیم دیں ۔ آپ نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اسی کالج میں تین برس تک طلبہ و طالبات کو زیور علم سے آراستہ کیا ۔ تعلیم و تعلم کا انداز نہایت نرم و ملائم ، شرینی زبان اور ہلکی سی مسکان تھی جس کیوجہ طلبہ و طالبات کی نظر التفات دوسری طرف مبذول نہیں ہوتی تھی ۔آپ نے 1970یں ’’امام بارگاہ مہاجرین ‘‘جھنگ سٹی میں ’’جامعہ بتول‘‘ قائم کیا ۔ جہاں پر آپ شام کے وقت طلبہ و طالبات کو درس دیا کرتے تھے ۔ تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ 1989ء تک جاری رہا ۔ اعلیٰ تعلیم کے طلبہ و طالبات کی گزارش پر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کلاسز اپنے حبیب کدہ پر جاری رکھا اور ان کی امتحان کی تیاریوں سے لیکر مقابلہ جاتی امتحانات کے سوالات کو حل کرانے میں دلچسپی کے ساتھ منہمک رہتے تھے۔’’گورنمنٹ ہائی اسکول، جھنگ سٹی ‘‘ کے دور سے ہی اپنے تبلیغی مشن کا آغاز کیا، جہاں سے آپ نے کافی کامیاب و کامران تبلیغی دورے کئے اور یہ سلسلہ1954ء تک جاری رہا اور پھر زیارات مقامات مقدسہ کے لئے تشریف لے گئے ۔

آپ نے موسم گرما میں جب اسکول کی تعطیل ہو جاتی تو گھر پر آرام کرنے کے بجائے الٰہی مشن اور اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کی خاطر ، علم کی دولت لاعلم لوگوں تک پہنچانے کے لیے تبلیغی دورے پر چلے جاتے تھے۔یہ مخلص اور سچے دین پرست، عالم ربانی ، عالم دین اور حجۃ الاسلام کی پہنچان ہے ۔خود غرضی، خود پسندی سے کو سوں دور اور الٰہی مشن اور آل محمد(ص) کی تعلیمات سے لو گوں کو روشناس کرانے کے لئے آپ نے ’’پاراچنار، جھنگ، سوات، احمد آباد، ہری پور وغیرہ مقامات کا دورہ کیا۔

اس کے علاؤہ آپ نے امام جمعہ و جماعت جیسے نورانی و روحانی فرائض کو انجام دیا ۔ آپ جمعہ کے خطبہ لاثانی ہوتے تھے ۔ وہ اپنے خطبہ میں ہمیشہ تعلیمی نظام اور جدید دور کی عصری تعلیم کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے جس کی بنا پر آپ کے خطبے لوگوں میں بہت مشہور ہوئے، کچھ بزرگوں کو آج بھی آپ کے خطبے لفظ بلفظ یاد ہیں اسی بنا پر آپ تمام مومنین کی آنکھوں کا سرمہ اور دلوں کی دھڑکن بن کر آج بھی قلب مومن میں دھڑک رہے ہیں ۔ مسجد کے انتظام و انصرام میں کا فی جدو جہد کی ۔ آپ نے ہر مو قع پر خاص طور سے رمضان المبارک کے موقع مصلیان مسجد کی خاطر اوقات نماز و سحر و افطاری کے کلینڈر شائع کرتے تھے اور لوگوں میں تقسیم کراتے تھے۔

مولانا اختر حسین طاب ثراہ مبارک پوری کا گھر والوں کے ساتھ اسلوب نہایت مشفقانہ تھا ۔ فرداً فرداً ہر ایک کو اہمیت دیتے تھے اور باقاعدہ مشورے میں سب کو شریک کرتے اور جو بہتر فیصلہ ہوتا اس پر عمل درآمد کیا جاتا ۔ شب جمعہ کو خا ص طور پر اجتماعی حدیث کسا اور دیگر دعاؤں کی تلاوت کا اہتمام کیا جاتا اور نذر نیاز منظم طریقہ منعقد کیا جاتا ۔ آپ ظاہری اور روحانی عالم دین کے نام سے مشہور تھے ۔ اسلامی مہینہ کی کیلنڈر کی نشرو اشاعت اور رمضان المبارک ، عید الفطر کے چاند کی تصدیق کے سلسلہ میں علاقہ کے مومنین ہمیشہ آپ کے رابطہ میں رہتے تھے ۔ آپ ایک صحیح العقیدہ عالم با عمل تھے ۔ اس کا ذکر جید علمائے کرام نے ان کے ایصال ثواب کی مجالس میں بالخصوص ذکر کیا ۔

آپ کی مجالس ہمیشہ قرآن آیتوں اور احادیث کی روشنی میں ہوا کرتی تھی۔ آپ کی مجالس چیخ پکار، اٹھا پٹک والے انداز میں نہیں ہوتی تھی، بلکہ اس کے بر عکس نہایت سنجیدگی سے ہوتی تھی ۔ پہلے قرآن کی آیت، پھر اس کی تفسیر اس کے بعد اسی موضوع سے متعلق احادیث بیان فرماتے تھے۔ انداز نہایت مخلصانہ ہوا کر تا تھا ۔ اپنے کردار سے حسن اخلاق سے نرم لہجے میں پیغام آل محمد(ص) اس طرح بیان کرتے تھے کہ سامعین نظرین جمائے ،دل لگائے ، ہمہ تن گوش آپ کے نورانی بیان کو سماعت فرماتے تھے ۔ لہجہ ایسا کہ آپ کے بیان میں سامعین اتنا منہمک رہتے تھے کہ مجلس کب ختم ہوئی معلوم نہیں ہو پا تا تھا۔

سارا مجمع ہمہ تن گوش جہاں ہوتا ہے

ایسا انداز خطابت اب کہاں ہوتا ہے

آپ کی مجلس میں شیعہ و سنی کے علاوہ بلاتفریق مذہب و ملت کے افراد شرکت کرتے تھے ۔ آپ کے بیان سماعت کرنے کے بعد ہر ایک تعریف کیے بغیر نہیں رہ پا تا تھا اسی مدلل گفتگو کے پیش نظر اہل سنت حضرات عید میلاد النبیؐ کے موقع پر آپ کو خصوصی طور پر بلاتے تھے اور آپ ان جلسوں میں تقریر کرتے تھے ۔ آپ کی تقاریر عوام کو محسور کر دیتی تھی۔

’’وطن کی محبت ایمان کا جز ہے‘‘ اس قول پیغمبر ﷺ کو کبھی فراموش نہیں کیا اور آپ مبارکپور متعدد بار تشریف لائے۔سال میں ایک بار ضرور اپنے وطن مالوف ’’مبارکپور‘‘ تشریف لاتے تھے۔ مگر جب 1965 فساد ہوا اس کے بعد ہر پانچ برس میں ایک بار یا اگر کبھی موقع ملتا تو ضرور مبارکپور تشریف لاتے تھے ۔

آخر بار 1979 میں اپنے سبھی کنبے کے ساتھ پہلے ہندوستان کے لکھنؤ شہر تشریف لائے ۔ آپ کا قیام اپنے استاد حضرت مولانا سید ابن حسن نو نوراہوی طاب ثراہ کے گھر پر ہوا اپنے سبھی اساتذہ و ہم عصروں سے ملاقات کے بعد مبارکپور تشریف لائے۔

جب آپ نے آخر بار اپنی فیملی کے ساتھ 1979 ہندوستان تشریف لائے تھے تب اپنے استاد حضرت مولانا سید ابن حسن نوراہوی طاب ثراہ کی اس ملاقات کو آپ نے اپنے ایک مضمون کی شکل میں تحریر کیا جو ہفتہ روزہ اخبار ’’رضا کار‘‘میں شائع ہوا۔جسے لوگوں نے بہت پسند کیا اور اس مضمون کی کافی پذیرائی ہوئی۔

آپ ہندوستان میں آخر بار بذات خود دسمبر 1985سے مبارک پور میں تشریف لائے تھے ۔

عالیجناب مولانا سید علی نقی نقوی نجفی نقن طاب ثراہ صاحب جب پاکستان مجلس خطاب کرنے تشریف لے گئے تو آپ ان سے خصوصی ملاقات کرنے گئے تو آپ سے علامہ نقن طاب ثراہ نے نہایت گرم جوشی اور پرتپاک انداز میں ملاقات کی۔آپ کی ملاقات سے علامہ صاحب بہت خوش ہوئے اسی ملاقات میں آپ دونوں آپس میں کئی علمی مسائل پر گفتگو بھی کی ۔ آپ کے ساتھیوں میں مولانا مفتی جعفر حسین طاب ثراہ ،مولانا صفدر حسین طاب ثراہ ، مولانا محمد حسین نجفی طاب ثراہ علامہ وغیرہ جدید عالم دین تھے جن میں صرف مولانا ریاض حسین نجفی صاحب قبلہ باحیات ہیں ۔ ان تمام عالم دین سے مسلسل علمی مباحثہ ہوا کرتے تھے یہ تمام علما حضرات آپس میں دینی اور علوم آل محمد(ص) کی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں ہمیشہ کو شاں رہے ۔

آپ نے متعدد مضامین لکھے۔ آپ کی تحریر نہایت خوش خط اور بالکل صاف ستھری ہوا کرتی تھی ۔ مضامین حالات حاضرہ کے پیش نظر تحریر فرماتے تھے ۔

آپ کے اکثر مضامین قومی رسائل ہفتہ وار رسالہ ’’رضاکار‘‘اور ’’ ذوالفقار ‘‘ ،ماہانہ جنتری اور بالخصوص رمضان المبارک کے مہینہ میں ’’نماز اور روزہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہو تے تھے۔ آپ نے تعلیم کے دوران’’جمع بین الصلوتین ‘‘کے موضوع پر تحقیقی کام کیا تھا ۔آپ کے انتقال کے بعد جھنگ حالات کافی زیا دہ خراب ہوگئے تھے، جس کی بنا آپ کے خاندان کے سبھی افراد سارے علمی اثاثے چھوڑ کر لاہور ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور آپ کے سارے مسودات خرد برد ہوگئے۔قابل افسوس ہے کہ آپ کے تمام علمی اثاثے فساد کی نذر ہوگئے۔

آپ نے ضرورت مندوں کی ہمیشہ حاجت روائی کو اولین ترجیحات کے بنیاد پر کیا۔ غربا، مساکین، بیوہ، بے سہارا کے لئے غذائی اشیا فراہم کئے۔ اس کے علاؤہ بہت سے لو گوں کو سرکاری اور غیر سرکاری نو کریاں اپنے ذاتی ذرائع اور وثوق کی بنا پر دلوائی ۔ ہر انسان اپنے مذہب کے لوگوں کو نوکری دلواتا ہے مگر آپ نے مذہب کی قید و بند سے آزاد ہو کر مستحقین اوراہل افراد کو نو کریاں دلوائیں ۔ گھریلوں زندگیاں اکثر تلخ ہو تی ہیں مگر آپ ہمیشہ افراد خانوادے کے ساتھ مخلصانہ ، دوستانہ طور پر ہر ایک کے ساتھ نہایت انکساری سے ملتے تھے ۔ کبھی اکیلے کھانا تناول نہیں فرمایا۔ کنبہ کے افراد کے ساتھ کھانا کھاتے تھے ۔ کھانے کے بعد چائے نوشی کے وقت پر ایک دوسرے سے گفتگو فرماتے تھے ۔ گھر کے افراد سے محبت و الفت کا عالم یہ تھا کہ جب آپ تبلیغی دورے پر جایا کرتے تھے تو وہاں سے گھر والوں کو خطوط کے ذریعہ اپنے تمام معاملات تفصیل سے آگاہ کیا کرتے تھے اور گھر والوں کی خیر و خیریت دریافت کیے بغیر آپ کو سکون حاصل نہیں ہوتا تھا۔

آخرکار یہ وارث انبیا کا روشن و منور آفتاب 14؍فروری 1989 کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ کی تدفین :محلہ حیدری، قبرستان، جھنگ شہر میں ہوئی۔آپ کی مجالس ترحیم ، مرکزی امام بارگاہ اسلام آباد، جامعہ منتظر لاہور اور مبارکپور، اعظم گڑھ میں ہوئی اور دیگر مقامات پر بھی منعقد ہوئیں ۔ آپ کے صرف ایک فرزند جناب ہاشم عباس صاحب ہیں ۔اس کے علاوہ تین صابزادیاں ہیں جو سب کی سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .