۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
علامہ علی ارشاد اعلیٰ اللّٰہ مقامہ

حوزہ/ مبارکپور، اعظم گڑھ کا مشہور و معروف علمی خانوادہ "خانوادہ جلیلۂ واحدی" کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اس خانوادے نے تقریباً ٢٢٥ سال سے جو علمی، دینی، مذہبی اور قومی و ملی خدمات انجام دی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

تحریر: مولانا احسان عباس قمی مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی| مبارکپور، اعظم گڑھ کا مشہور و معروف علمی خانوادہ "خانوادہ جلیلۂ واحدی" کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اس خانوادے نے تقریباً ٢٢٥ سال سے جو علمی، دینی، مذہبی اور قومی و ملی خدمات انجام دی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہیکہ اس خانوادہ کے علماء "علم الادیان اور علم الابدان" دونوں میں اعلٰی صلاحیتوں کے مالک تھے۔

وہ اک طرف علم الادیان کے ذریعے قوم وملت کے تزکیۂ نفس کے ساتھ انکی علمی پیاس بجھاتے تھے تو دوسری طرف علم الابدان کے ذریعے بیمار جسموں کا علاج کرتے تھے۔

عالیجناب مولانا میانصاحب جان محمد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ سے جو علمی سلسلہ چلا تو الحمدللہ آجتک بلا فاصلہ جاری ہے۔

اسی علمی سلسلہ کی اہم کڑی حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج علی ارشاد صاحب قبلہ نجفی مجتہدالعصر اعلی اللہ مقامہ (سابق امام جمعہ و متولی شیعہ جامع مسجد مبارکپور) ہیں۔

مبارکپور اعظمگڈھ کا یہ درخشندہ ستارہ ۱۱ ذیقعدہ ۱۳۴۵ھجری مطابق ٢١/مارچ ۱۹۲۶عیسوی کو افق مبارکپور پہ طلوع ہوا

آپکے والد ماجد عالیجناب مولانا حکیم علی حماد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ مبارکپور کے جید علماء اور مشہور اطباء میں تھے اور والدہ ماجدہ صغری مرحومہ، جناب امان اللہ مرحوم ساکن املو کی بیٹی تھیں۔

آپکی شادی میں آپکے والد ماجد کا عظیم کارنامہ:

آپکے عظیم المرتبت والد کے عظیم کارناموں میں ایک عظیم اور منفرد کارنامہ یہ ہے کہ مبارکپور اعظمگڈھ کی شادیوں میں جو گانے باجے کا رواج تھا اسے سرے سے ختم کرکے سہرہ خوانی شروع کرائی اور سب سے پہلے اپنے فرزند اکبر علی ارشاد النجفی اعلی اللہ مقامہ کی شادی میں سہرہ پڑھوا کر اس کی بنیادی رکھدی اسکے بعد سہرہ خوانی کا یہ رواج شیعوں سے ہوتے ہوۓ دوسرے مسلمانوں کے درمیان رائج ہوگیا اور اب مسلمانوں کے تقریباً ہر فرقے کی شادی میں سہرہ خوانی ہوتی ہے۔

تعلیم:

آپنے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے عظیم المرتبت والد سے پھر مدرسہ احیاء العلوم مبارکپورمیں پھر ایک سال مدرسہ باب العلم میں حاصل کی اسکے بعد مدرسہ ناصریہ جونپور تشریف لے گئے جہاں ۱۹۴۲ء میں "مولوی" اور ۱۹۴۳ء میں "عالم" کی سند لیکر جامعہ جوادیہ بنارس چلے گئے وہاں سے ۱۹۴۸ء میں "فخرالافاضل" کرکے ۱۹۴۹ء میں "فاضل طب الہ آباد بورڈ" کا امتحان پاس کیا اور جامعہ جوادیہ میں تعلیم کے دوران ھی لکھنو یونیورسٹی سے ۱۹۴۶ء میں "دبیر کا مل کا امتحان دیکر سند حاصل کی۔

ہندوستان کی تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۹ شعبان ۱۳۶۸ ھ مطابق جون ۱۹۴۹ء بغرض تعلیم اجتہاد آپ نجف اشرف عراق تشریف لے گئے اور وہاں سے اجازات حاصل کرکے ۲۳رمضان المبارک ۱۳۷۳ھ مطابق ۱۹۵۴ء وطن عزیز واپس لوٹے۔

اجازات:

آپکو جن مراجع عظام نے اجازات عطا فرماۓ انکے اسماء گرامی یہ ہیں۔

١- مرجع جہان تشیع حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقائے السید محسن الحکیم طباطبائی طاب ثراہ

٢- مرجع جہان تشیع حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقائے السید ابوالقاسم الخوئ طاب ثراہ

٣- مرجع جہان تشیع حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقائے السید عبداللہ الموسوی الشیرازی طاب ثراہ

٤- حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقائے حسینی الموسوی الحمامی طاب ثراہ

٥- حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقائے محمد جواد طباطبائی التبریزی طاب ثراہ

٦- حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقائے بزرگ تہرانی طاب ثراہ

٧- حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقائے محمد باقر الزنجانی طاب ثراہ

(مبارکپور کے پہلے اور آخری نجفی اور مجتہد)

مبارکپور کے یوبندی مسلک کے عظیم محقق جناب مولانا قاضی اطہر صاحب مبارکپوری اپنی کتاب "تذکرۂ علماء مبارکپور" کے صفحہ ٥١ پر تحریر فرماتے ہیں کہ "۔۔۔۔بعد میں یہاں کے شیعی علماء نے ناظمیہ کالج لکھنؤ، مدرسۃ الواعظین لکھنؤ، جوادیہ کالج بنارس، جامعۂ سلطانیہ لکھنؤ وغیرہ کے اساتذہ سے پڑھا اور"بعضوں" نے نجف اشرف عراق کے شیوخ سے تحصیل و تکمیل کی" (کتاب مطبوعہ جمادی الاول ١٣٩٤ھ مطابق جون ١٩٧٤ء)

لیکن شاید قاضی صاحب کو غلط معلومات دی گئی کیونکہ ١٩٨٧ء مطابق ١٤٠٨ھ والد مرحوم مولانا علی ارشاد صاحب قبلہ نجفی اعلی اللہ مقامہ کی وفات تک آپ کے علاوہ مبارکپور کے کسی بھی عالم نے نجف اشرف عراق میں تعلیم حاصل نہیں کی، مولانا مرحوم مبارکپور کے پہلے اور آخری نجفی مجتہد تھے۔ (احسان عباس قمی مبارکپوری)

تبلیغات و خدمات:

۱۹۵۴ء سے ۱۹۸۷ء تک آپنے ھندوستان کے مختلف مقامات اور متعدد مدارس و جامعات میں تبلیغ و تدریس کے فرائض انجام دیۓ

نجف اشرف سے واپس آکر سب سے پہلے آپنے دینی خدمات کا آغاز قصبہ اور قرب وجوار میں تبلیغات کے ذریعے کیا۔

اسکے بعد ٨ جنوری ١٩٥٦ء مطابق ٢٤ جمادی الاول ١٣٧٥ھ کو وثیقہ عربی کالج فیض آباد میں بحیثیت مدرس عارضی تقرر ہوا پھر ٩ جولائی ١٩٥٦ء کو کمیٹی کے ذریعے آپکا مستقل تقرر بحیثیت وائس پرنسپل ہوگیا، اگست ١٩٥٨ء میں آپنے وثیقہ عربی کالج سے استعفیٰ دیدیا۔

١٣ اگست ١٩٥٨ء مطابق ٢٦ محرم ١٣٧٨ھ کو مدرسہ باب العلم مبارکپور میں بحیثیت مدرس اعلیٰ (پرنسپل) آپکا تقرر ہوا، آپنے مسلسل سات سال مدرسہ باب العلم مبارکپور میں مدرس اعلیٰ (پرنسپل) کے فرائض انجام دیۓ، آپنے اپنی پرنسپلی کے دوران تعلیمی معیار کو کافی بلند کیا اور کارہائے نمایاں انجام دیۓ بالآخر بعض ناگوار حالات کی بنا پر ٢ اکتوبر ١٩٦٥ء کو مدرس اعلیٰ کے عہدے سے استعفٰی دیکر ممبئی چلے گۓ وہاں سے شاہ خراسان ع نے زیارت کے لئے بلالیا اور آپ امام رضا علیہ السّلام کی زیارت سے مشرف ہوۓ۔

فروری ١٩٦٦ء میں گھر واپس آۓ اور ١٣ اپریل ١٩٦٦ء مطابق ٢٢ ذی الحجہ ١٣٨٦ھ سے رستم پورہ گجرات میں بحیثیت امام جمعہ فرائض انجام دینا شروع کیا، سات سال تک وہاں دینی خدمات انجام دیۓ.

رستم پورہ میں آپکا عظیم کارنامہ:

اسی دوران علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا کیمپ لگواکر وہاں کے طلبہ و طالبات کو ادیب، ادیب ماہر، ادیب کامل وغیرہ کا امتحان دلوایا اور ماشاءاللہ سبھی کامیاب ہوۓ۔ وہاں کے مومنین اک عرصے تک تقیہ میں رہکر مذہب تشیع سے نا آشنا ہوگئے تھے آپ نے انپہ بہت کام کیا اور انہیں مذہب تشیع سے مکمل طور پر آشنا کرایا، وہاں اسوقت جعفری سادات کی کافی تعداد موجود ہے اور وہاں کے مومنین آجتک آپ کو یاد کرتے ہیں اور آپ ہی کی وجہ سے آپکی فیملی سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ اک عرصے تک وہاں جو بھی شادی ہوتی تھی آپکو نکاح کے لۓ بلایا جاتا تھا۔

آپ رستم پورہ کے اہلسنت بھائیوں کے ساتھ ہی ساتھ ہندو بھائیوں سے بھی بڑی انکساری سے پیش آتے تھے وہ لوگ بھی آپکی بڑی عزت کرتے تھے۔

سات سال وہاں خدمات انجام دینےکے بعد آپ ٢٠ اپریل ١٩٧٣ء کو وہاں سے وطن واپس آگئے، ڈیڑھ مہینہ گھر پر رہنے کے بعد جولائی ١٩٧٣ء کے آخری ہفتے میں مالیگاؤں مہاراشٹر کے لئے روانہ ہوۓ ٣١ جولائی ١٩٧٣ء کو مالیگاؤں مہاراشٹر پہونچے اور یکم اگست ١٩٧٣ء مطابق یکم رجب ١٣٩٣ھ سے حسینی مسجد میں بحیثیت امام جمعہ خدمات انجام دینے لگے، ١١ جون ١٩٧٥ء کو وہاں سے وطن واپس آئے اور مستقل طور پر وطن ہی میں رہنے کا ارادہ کرلیا۔

مبارکپور میں جمعہ وجماعت کی امامت اور شیعہ جامع مسجد کی تولیت کی زمہ داری:

بیرون وطن خدمات انجام دینے کے دوران آپ جب بھی مبارکپور تشریف لاتے شیعہ جامع مسجد مبارکپور میں امام جمعہ وجماعت کے فرائض انجام دیتے رہتے (کیونکہ آپکے آباء واجداد بھی ٦/ پشتوں سے اس مسجد کے امام جمعہ وجماعت رہے ہیں) اور جب ١٩٧٥ء میں مستقل طور سے آپنے وطن ہی میں رہنے کا ارادہ کرلیا تو باقاعدہ طور پر یہ ذمہ داری آپنے اپنے ذمہ لے لی اور آخر دم تک اس عظیم خدمت کو انجام دیتے رہے۔ آپکا خطبہ قومی و ملی حالات اور وعظ ونصیحت پر مشتمل ہوتا تھا آپکے خطبوں کی گونج آج بھی مبارکپور کی فضاؤں میں محسوس کیجاتی ہے۔

اسی دوران شیعہ جامع مسجد مبارکپور کے انتظام اور تولیت کی ذمہ داری جو گزشتہ ادوار میں بھی اس خوانوادہ کے علماء سے متعلق تھی آپکے ذمہ آگئ جسے آپنے آخر دم تک بحسن وخوبی انجام دیا اور اب یہ ذمہ داری آپکے فرزند اکبر حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج مولانا فیروز عباس صاحب قبلہ حفظہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

شیعہ جامع مسجد مبارکپور:

شیعہ جامع مسجد مبارکپور کی خوبصورت اور پر شکوہ عمارت آپ کی اور آپکے بعد آپکے فرزند حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب الحاج مولانا فیروز عباس صاحب قبلہ اور حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج مولانا عرفان عباس صاحب سلمہ کی سعی بلیغ اور مومنین مبارکپور کے وسیع مالی تعاون کا نتیجہ ہے۔

مدرسہ باب العلم مبارکپور میں دوبارہ خدمات:

جب آپ مستقل طور سے وطن میں رہکر امام جمعہ وجماعت کے فرائض انجام دینے لگے تو اسی دوران مدرسہ باب العلم مبارکپور کی انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے مدرسہ میں تعلیم کے لئے سلسلہ جنبانی شروع ہوئ مگر آپنے ہر بار انکار کردیا پھر ایکبار جب اصرار بڑھا تو استخارہ پر بنا رکھی گئ استخارہ بہتر آیا مگر صرف تعلیم کے لئے چنانچہ آپ نے ٤ اکتوبر ١٩٧٧ء سے مدرسہ باب العلم مبارکپور میں بحیثیت گسٹ لکچرر کام کرنا شروع کیا، اسوقت عم محترم عالیجناب الحاج مولانا حکیم سلمان احمد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ مدرس اعلیٰ تھے، غالباً عم محترم کے استعفے کے بعد ١٩٧٩ء میں پھر سے دوبارہ مدرس اعلیٰ (پرنسپل) کا عہدہ سنبھالا۔

٣/٢/ اپریل ١٩٨٠ء جب مدرسہ باب العلم مبارکپور کا پچاس سالہ جشن زریں منایا گیا اسوقت بھی مدرس اعلیٰ (پرنسپل) کی ذمہ داری آپ ہی کے کاندھے پر تھی اور جشن زریں کی جو استقبالیہ کمیٹی بنائی گئی تھی آپ اس استقبالیہ کمیٹی کے سکریٹری تھے، یہ پہلا موقع تھا جب اتنی بڑی تعداد میں ملک اور بیرون ملک دنیا بھر سے علماء ، مبارکپور کی سرزمین پر تشریف لائے، جشن زریں کے بعد آپنے کچھ ناگوار حالات کی بنیاد پر استعفیٰ دیدیا۔

تصنیف و تالیف و تراجم:

١٩٨٠ء سے ١٩٨٧ء کے درمیان آپ کتابوں کی تصنیف و تالیف و ترجمے میں مشغول ہوگۓ

آپ جہاں ایک قابل قدر مصنف تھے وہیں ایران کے کئ شہرہ آفاق اور جید علماء کی تصانیف کے مترجم بھی تھے۔

آپکی ترجمہ شدہ کتابوں میں "معاد" شہید دستغیب علیہ الرحمہ اور وصیت نامہ مولاۓ کائنات حضرت علی علیہ السّلام بنام حضرت امام حسن علیہ السّلام بڑی مشہور ہیں۔

اگرچہ آپ نے بڑی ہی گوشہ نشینی کی زندگی گذاری اور اتنی عظیم شخصیت ہونے کے باجود زندگی بھر کھپڑیل کے ایک معمولی اور خستہ مکان میں رہے اور کبھی اپنی شہرت کے طالب نہیں رہے پھر بھی آپکی علمی صلاحیتوں کا شہرہ نہ صرف ہندستان بلکہ بیرون ممالک تک پہونچ گیا چنانچہ جنوری ١٩٨٦ء میں جمہوریۂ اسلامی ایران کی خصوصی دعوت پر آل ورڈ کانفرنس اندیشۂ اسلامی میں شرکت کے لئے ایران تشریف لےگۓ اور سازمان تبلیغات اسلامی تہران کی فرمائش پر "رھبریت در حکومت اسلامی ورابطہ آنان با قوای سہگانہ" کے عنوان سے ایک کتاب فارسی میں تحریر فرمائ جو فارسی ہی میں سازمان تبلیغات سے طبع ھوکر ہزاروں کی تعداد میں کانفرنس میں تقسیم کی گئی۔

اسی سال آپ حج بیت اللہ و دیگر عتبات عالیات کی زیارت سے بھی مشرف ہوۓ۔

آپنے چہاردہ معصومین علیہم السلام میں سے ١٣ معصومین علیہم السلام کے مزارات کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔

آپ شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے چنانچہ آپنے معصومین علیہم السلام کی شان میں کئ قصیدے لکھے اور اپنی والدۂ ماجدہ مرحومہ اور اپنے عم محترم مرحوم کی وفات پر فارسی میں نظم بھی تحریر فرمائی۔

آپکی عربی میں بھی کئ تحریریں موجود ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ اردو زبان کے ساتھ ہی عربی و فارسی زبانوں پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے بلکہ آقائے السید محمد الموسوی حفظہ اللہ سے جب بھی گفتگو فرماتے عربی میں فرماتے اور جب انقلاب اسلامی کے زمانے میں آقائے رفسنجانی طاب ثراہ پہلی بار لکھنؤ تشریف لاۓ اور جامعہ سلطانیہ سلطان المدارس میں ایک جلسہ رکھا گیا اور اسمیں علامہ علی ارشاد النجفی اعلی اللہ مقامہ نے فارسی میں جو تقریر کی برجستہ آقائے رفسنجانی طاب ثراہ نے فرمایا:

" شیخ ارشاد کا ارشاد بہت مفید ہے"

آپکی تدریس کا معیار بہت بلند تھا جسنے بھی آپ سے پڑھا وہ آپکی اعلیٰ علمی استعداد و قابلیت اور تدریس کے دلنشین اسلوب کا قائل ہوگیا۔ آپ جب بھی ممبئی تشریف لیجاتے جامعۂ امیرالمومنین ع نجفی ہاؤس کے پرانے بزرگ طلبہ مغل مسجد ممبئی کے پارک میں بیٹھکر آپ سے کسب فیض کرتے۔

آج بھی چاہے آپکے شاگرد ہوں یا غیر شاگرد سب آپکی قابلیت کی داد دیتے ہیں۔ آپکے ہزاروں شاگرد اسوقت دنیا بھر کے مختلف مقامات پر تدریس و تبلیغ دین میں مصروف ہیں۔

غریبوں اور ضرورتمندوں کی امداد:

آپ نے ممبئی میں آیۃ اللہ العظمیٰ آقائے السید ابوالقاسم الخوئ طاب ثراہ کے وکیل مطلق حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج آقائے السید محمد الموسوی حفظہ اللہ کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے مبارکپور اور اطراف مبارکپور میں لا تعداد غریبوں، مسکینوں، محتاجوں اور ضرورتمندوں کی امداد فرمائی۔

آپ آقائے السید محمد الموسوی حفظہ اللہ کے خاص دوستوں میں تھے آپکو مسافری کے دوران نجفی ہاؤس کے بیت الصلوٰۃ میں قیام کرنے کی خصوصی اجازت حاصل تھی۔

یہی وجہ تھی کہ آپکے چہلم کے موقع پر آقائے السید محمد الموسوی حفظہ اللہ خصوصی طور پر مبارکپور تشریف لائے اور آپ کی مجلسِ چہلم کو خطاب فرمایا۔

آپ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے مگر لوگوں نے آپکو پہچانا نہیں

"قدر گوھر شاہ داند یا بداند جوھری"

آپ کا تبلیغی جہاد:

میں نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ جب بھی مبارکپور کے اطراف مثلاً خطیب پور، پتار وغیرہ میں آپ کا مجلس پڑھنے کا وعدہ ہوتا تھا تو مجھ سے کہتے کہ فلاں صاحب کے یہاں سے سائیکل لیکر شیعہ عیدگاہ کے سامنے مین روڈ پر میرا انتظار کرو چنانچہ میں سائیکل لیکر وہاں کھڑا ہوجاتا تھا، آپ آتے اور اپنے چوڑے پاجامہ کو نیچے سے لپیٹکر اسٹیل کی چوڑی لگادیتے تاکہ پائنچا سائیکل کے چین میں نہ پھنس جاۓ پھر اتنی عظیم شخصیت ہونے کے باجود سائیکل پر سوار ہوکر مجلس کیلئے نکل پڑتے۔ جبکہ آج چھوٹے چھوٹے ذاکر اے سی اور جہاز کے ٹکٹ کا تقاضا کرتے ہیں۔

املو جو مبارکپور سے تقریباًً دو کیلو میٹر دور ہے وہاں نکاح یا نمازِ جنازہ پڑھانا ہوتا تو روز و شب کے فرق کے بغیر مجھے لیکر نکل پڑتے۔

سید الشہداء علیہ السّلام سے آپ کا ربط:

آپ، سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السّلام سے اک خاص لگاؤ رکھتے تھے اس لیۓ یہ سوچے بغیر کہ میں اک بہت بڑا عالم ہوں عشرۂ محرم کی ہر مجلس میں شرکت فرماتے تھے جبکہ صاحب منبر کتاب سے مجلس پڑھ رہا ہوتا تھا پھر بھی آپ غور سے اسکی مجلس سنتے تھے اور مصائب میں کھلکر گریہ فرماتے تھے۔

محرم کی ٩ تاریخ کو شب عاشور اور روز عاشور کے احترام میں اپنی چارپائی پلٹ دیتے تھے اور عاشور کے دن ننگے سر اور ننگے پیر رہتے تھے۔

تقویٰ و پرہیز گاری:

تقویٰ و پرہیزگاری میں آپ کمال رکھتے تھے حساب کتاب میں ایک پیسہ کم اور ایک پیسہ زیادہ کیوں ہے اسپہ کڑی نگاہ رکھتے تھے، خطبۂ جمعہ میں جب بھی آخرت کا ذکر آتا گریہ فرماتے اور روزانہ بلا ناغہ مسجد سے نماز مغربین کے بعد گھر تشریف لاتے اور جانماز پچھاکر دیر تک تعقیبات و دعا میں مشغول رہتے۔

بیماری کے طویل ترین ایام میں فرماتے " خدایا! یا تو مجھے محمد وآل محمد علیھم السّلام کے صدقے میں شفاء دے یا پھر مجھے دنیا سے اٹھالے، مجھے خوف ہے کہیں یہ زبان شکوہ سے آشنا نہ ہوجاۓ۔

آپ حق گوئی میں کمال رکھتے تھے اور حق بولنے میں کسی کا خیال نہیں رکھتے تھے اسی لیے بعض لوگ آپکی حق گوئی کی بنا پر آپ سے ناراض رہتے تھے مگر آپ نے لوگوں کی رضا کے لیے خدا کی ناراضگی مول نہیں لی۔اسکے باوجود آپ صرف بزرگوں ہی سے نہیں بلکہ بچوں کے ساتھ بھی نہایت اخلاق سے پیش آتے تھے اور چھوٹوں کو ہمیشہ آپ کہکر مخاطب ہوتے تھے۔بعد نمازِ صبح مسجد سے گھر آتے ہی سبھی بیٹوں، بیٹیوں کو نمازِ صبح کے لۓ بیدار کرتے اور تلاوتِ قرآن کی تلقین فرماتے۔

آپکی زندگی میں دنیاوی سکون میسر نہ تھا مگر کبھی کسی سے تقدیر کا شکوہ نہیں کیا

صبرو شکر کی کٹھن منزلوں کو طے کرتے ہوئے آپنے ۱۳محرم ۱۴۰۸ھ مطابق ۸ ستمبر ۱۹۸۷ء سہ پہر ۲ بجے داعی اجل کو لبیک کہا اور ھمیں ھمیشہ کے لیے اپنے عظیم سایہ سے محروم کر دیا۔

انا للہ و انا الیہ راجعون

ھزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ھو تا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

آپکو ہزاروں سوگواروں کے درمیان شیعہ عیدگاہ قبرستان مبارکپور میں دفن کیاگیا۔

آپ نے چار فرزند چھوڑے:جنمیں ایک مولانا فيروز عباس صاحب قبله دوسرے حقير سراپا تقصير احسان عباس قیمتی تیسرے مولانا عرفان عباس صاحب سلمه اور چوتھے مولانا محمد عباس صاحب سلمہ ہیں اور چاروں اسوقت خدمت دین میں مصروف ہیں۔ اللہ ہماری خدمات کو قبول کرے اور توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ آپ کے عظیم المرتبت اساتذہ میں سر فہرست ہندوستان میں آیۃ اللہ فی العالمین الحاج مولانا سید ظفر الحسن الرضوی صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ(سابق پرنسپل جامعۂ جوادیہ بنارس) فخر الاتقیا الحاج مولانا وصی محمد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ(سابق پرنسپل وثیقہ عربی کالج فیض آباد) اور عراق میں مرجع جہان تشیع حضرت آیۃ اللہ العظمٰی السید محسن الحکیم اعلی اللہ مقامہ، مرجع جہان تشیع حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ السید ابو القاسم الموسوی الخوئ اعلی اللہ مقامہ وغیرھم کا شمار ہوتا ہےاور آپ کے شاگردوں کی اک طویل فہرست ہے جنمیں مشہور زمانہ شخصیتیں یہ ہیں: حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب الحاج مولانا محمود الحسن خانصاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ(سابق پرنسپل جامعۂ ناصریہ جونپور)حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب الحاج مولانا سید عابد حسین صاحب قبلہ کراروی اعلی اللہ مقامہ(بانئ حوزہ علمیہ امام خمینی رہ وٹوا احمدآباد گجرات)حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا تقی الحیدری صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ(سابق پرنسپل جامعۂ وثیقہ عربی کالج فیض آباد)حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب الحاج مولانا مسرور حسن صاحب قبلہ مجیدی اعلی اللہ مقامہ ( صدرالعلماء مبارکپوری)حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا شمیم عالم صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ(سابق امام جماعت امامیہ مسجد ممبئی) وغیرھم

شجرۂ مبارکہ علماء خانوادۂ واحدی:

مولانا فیروز عباس،احسان عباس, مولانا عرفان عباس, مولانا محمد عباس

ابناء الحاج مولانا علی ارشاد النجفی اعلی اللہ مقامہ

ابن حکیم مولانا علی حماد صاحب اعلی اللہ مقامہ

حکیم الحاج مولانا سلمان احمد صاحب اعلی اللہ مقامہ

ابن حکیم مولانا علی حماد صاحب اعلی اللہ مقامہ

ابن الحاج حکیم مولانا علی سجاد صاحب اعلی اللہ مقامہ

ابن حکیم مولانا میانصاحب یار علی اعلی اللہ مقامہ

ابن حکیم مولانا میانصاحب عبد الواحد اعلی اللہ مقامہ

مولانا محمد ابراہیم صاحب اعلی اللہ مقامہ

ابن حکیم مولانا میانصاحب عبدالواحد اعلی اللہ مقامہ

ابن مولانا میانصاحب جان محمد (بڑے میانصاحب) اعلی اللہ مقامہ

ابن شیخ خوانوادہ و رئیس قوم میانصاحب دوست محمد اعلی اللہ مقامہ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .