۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا علی ارشاد مبارکپوری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا شیخ علی ارشاد نجفی مبارکپوری بتاریخ ۱۱ ذیقعدہ سن ۱۳۴۵ہجری میں سرزمین مبارکپور ضلع اعظم گڑھ پر پیدا ہوئے۔آپ کے والد "مولانا حکیم علی حماد" بھی ایک با عمل عالم دین تھے۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اس کے بعد اہلسنت کے مدرسہ " احیاء العلوم مبارکپور" میں داخلہ لیا اور مہربان اساتذہ سے کسب فیض کرنے کے بعد ایک سال تک"مدرسہ باب العلم مبارکپور"میں رہ کر عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔

مولانا موصوف نے مدرسہ ناصریہ جونپورسے سنہ۱۹۴۲ عیسوی میں "مولوی" اور سنہ ۱۹۴۳عیسوی میں "عالم" کی سندحاصل کی اس کے بعد جامعہ جوادیہ بنارس کا رخ کیا اور وہاں رہ کر جید اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیے اور جامعہ جوادیہ میں تعلیم کے دوران ہی لکھنؤ یونیورسٹی سے سنہ ۱۹۴۶عیسوی میں دبیر کا مل کی سند حاصل کی،موصوف نے سنہ۱۹۴۸عیسوی میں جامعہ جوادیہ سے "فخرالافاضل" کے بعد سنہ۱۹۴۹عیسوی میں الہ آباد بورڈ سے"فاضل طب " کا امتحان پاس کیا۔آپ کے مشہور اساتذہ میں آیت اللہ سید ظفر الحسن(سابق پرنسپل جامعۂ جوادیہ بنارس)، مولانا سید وصی محمد (سابق پرنسپل جامعۂ وثیقہ عربی کالج فیض آباد) کے نام لئے جا سکتے ہیں۔

مولانا ۱۹ علی ارشاد شعبان سن ۱۳۶۸ہجری میں نجف اشرف کیلئے عازم سفر ہوئے، آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم ،آیت اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم خوئی وغیرہ جیسے زمانہ کے معروف آیات عظام کے دروس میں شرکت کی اور تقریباً پانچ سال بعد بتاریخ 23 ¬رمضان المبارک ۱۳۷۳ہجری میں نجف سےاپنے وطن واپس آگۓ۔

مولانا موصوف نجف اشرف سے واپسی کے بعد مبارکپور اور اس کے اطراف وا کناف میں تبلیغی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے اسی دوران آپ کو" مدرسہ وثیقہ عربی کالج فیض آباد "کے نائب مدیر کی حیثیت سے منتخب کرلیا گیا کچھ عرصہ وہاں خدمت انجام دینے کے بعد "مدرسہ باب العلم مبارکپور" میں مدیر کے عہدہ پر فائز ہوئے آپ نے یہاں بھی اپنےفرض کو بحسن و خوبی انجام دیا ۔آپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جنمیں سے مولانا محمود الحسن خان(سابق پرنسپل جامعۂ ناصریہ جونپور)مولانا سید عابد حسین (بانئ حوزہ علمیہ امام خمینی رہ وٹوا احمدآباد گجرات)، مولانا تقی الحیدری (سابق پرنسپل جامعۂ وثیقہ عربی کالج فیض آباد) وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

مولانا موصوف نے سنہ۱۹۵۴ سے ۱۹۸۷عیسوی تک ہندوستان کے مختلف علاقوں اور متعدد مدارس میں تبلیغی و تدریسی فرائض انجام دیئے جن میں سے مدرسہ جعفریہ رستم پورہ گجرات اور مالیگاؤں مہاراشٹر وغیرہ سر فہرست ہیں۔

آپ سنہ ۱۹۸۶عیسوی میں "اندیشہ اسلامی" نامی ایران کی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے تہران گئے تو سازمان تبلیغات اسلامی کی فرمائش پر "رہبریت در حکومت اسلامی و رابطہ آنان با قوائے سہ گانہ" کے عنوان سے ایک کتابچہ فارسی زبان میں تحریر کیا جس کو سازمان تبلیغات نے طبع کرکے کانفرنس میں تقسیم کیا۔

موصوف غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے،آپ نے درس و تدریس اور تبلیغ کی مصروفیات کے باوجود شہرہ آفاق علماء کی متعدد کتابوں کے ترجمے کئے۔موصوف حق گوئی میں کمال رکھتے تھے اور حق بولنے میں کسی کا خیال نہیں کرتے تھے اسی لیے بعض لوگ حق گوئی کی بنا پر آپ سے ناراض رہتے ، مگر آپ نے لوگوں کی رضا کے لیے خدا کی ناراضگی مول نہیں لی، مولانا نے کبھی مال و دولت کی پرواہ نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی سے زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا شکوہ کیا بلکہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔

اللہ نے آپ کو چار نعمتوں سے نوازا جو مولانا فيروز عباس ، مولانااحسان عباس، مولانا عرفان عباس اور مولانا محمد عباس کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

مولانا علی ارشاد نجفی نے اپنے وطن "مبارکپور" میں مستقل قیام کا ارادہ کیا تو شیعہ جامع مسجد مبارکپور کی امامت جمعہ و جماعت اپنے ذمہ لے لی اور اسی دوران مسجد کی تولیت جو ہمیشہ آپ ہی کے خانوادہ سے وابستہ رہی آپ کے ذمہ آگئی۔ اس مسجد کی پرشکوہ عمارت آپ کی سعی بلیغ اور مؤمنین مبارکپور کے تعاون کی شاہکار ہے۔ موصوف آخری سانسوں تک شیعہ جامع مسجد مبارکپور کے امام جمعہ اورمتولی رہے۔

آخرکار یہ علم و عمل کا چمکتا آفتاب۱۳محرم سن ۱۴۰۸ہجری دو بجے دو پہر میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملا اور دوسرے دن صبح 10 بجے مجمع کی ہزار آہ وبکا کے ہمراہ "شیعہ عیدگاہ مبارکپور "میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص 147دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2023

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .