۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
سیمینار غفران مآب

حوزہ/ لکھنؤ میں حضرت غفران مآب کے فقہی اور کلامی نظریات کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کا اختتامی جلسہ، بڑی تعداد میں علماء اور مؤمنین کی موجودگی میں کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ/ مکتب امامیہ کے پہلے مجتہد جامع الشرائط آیت اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفران مآبؒ کی حیات طیبہ اور ان کے مکتب فقہی و کلامی پر نور ہدایت فائونڈیشن کی جانب سے دو روزہ سیمینار کا انعقاد عمل میں آیا، سیمینار کے دوسرے دن سہ پہر کو چار بجے مقالہ خوانی کا آغاز ہوا۔

حضرت غفران مآبؒ نے مکتب امامیہ کی ترویج و اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، مولانا کلب جواد نقوی

حوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفران مآب کے طالب علم مولوی محمد عباس نے تلاوت کلام پاک سے جلسے کا آغاز کیا۔

بعد ازاں ڈاکٹر حیدر مہدی کی نظامت میں مقالہ خوانی کا آغاز ہوا اور اس سیشن میں دس افراد نے مکتب حضرت غفرا ن مآب کی عظمت اور آفاقیت پر الگ الگ عناوین کے تحت مقالے پیش کئے۔

مقالہ نگاروں میں مولانا تقی رضا برقعی،مولانا حیدر مہدی کریمی ،مولانا اصطفیٰ رضا،مولانا سعیدالحسن نقوی،مولانا علی ہاشم عابدی،جناب فیضان جعفر،جناب حیدر رضا،مولانا نوید عباس اور ڈاکٹر رضا عباس شامل ہیں ۔اس کے فوراً بعدمولانا اشرف الغروی نے حضرت غفرا نمآب کے علمی آثارکی عظمت اور اہمیت پر پرمغز تقریر کی۔

حضرت غفران مآبؒ نے مکتب امامیہ کی ترویج و اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، مولانا کلب جواد نقوی

جلسے کے آخر میں مولانا رضا حیدر زیدی نے تمام مقالہ نگاروں اور شرکائے جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔

رات میں ۸ بجے اختتامی جلسہ منعقد ہوا ۔مولانا حیدر مہدی کریمی نے تلاوت کلام پاک سے جلسے کا آغاز کیا،اس کے بعدمولانا تقی رضا برقعی نے حضرت غفران مآبؒ کے علمی آثار اور فکری ابعاد وجہات پر کلیدی خطبہ پیش کیا۔ان کے بعدمولانا رضا حیدر زیدی نے مکتب فقہی و کلامیٔ لکھنؤ کی اہمیت اور افادیت پر تقریر کی۔

آخر میں صدر جلسه مولانا سید کلب جواد نقوی نے تقریر کرتے ہوئے کہاکہ حضرت غفران مآبؒ نے انتہائی کم وسائل کے باوجود نجف اشرف اور ایران کا سفر کیاتاکہ علماء اور فقہاء سے کسب فیض کیا جاسکے۔ جب وہ واپس ہندوستان آئے تو اس وقت مکتب امامیہ کے خدو خال واضح نہیں نہیں تھے اور اکثر لوگ یا تو تقیہ میں زندگی بسر کر رہے تھے یا تصوف اور اخباریت کے زیر اثر تھے ۔حضرت غفران مآب نے ہر محاذ پر فکری اور علمی انداز میں مقابلہ آرائی کی اور مکتب امامیہ کی ترویج و اشاعت کے لئے پہلے اسکول کی بنیاد رکھی ۔اس اسکول نے برصغیر میں مکتب امامیہ کے عقائد اور تعلیمات کو عام کیااور مایۂ ناز شاگرد اور علماء تیار کئے، جن کے علمی اور فکری آثار پر گفتگو کے لئے آج ہم سب یہاں جمع ہوئے ہیں۔

حضرت غفران مآبؒ نے مکتب امامیہ کی ترویج و اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، مولانا کلب جواد نقوی

انہوں نے کہاکہ بہت جلد اس نئی عمارت میں ایک تحقیقی مرکز اور کتب خانہ قائم کیاجائے گا،تاکہ محققین اور دانشور افراد اس سے استفادہ کرسکیں۔

آخر میں مولانا کلب جواد نقوی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس قدر خراب موسم کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں علماء اور مومنین کا اس سیمینار میں تشریف لانا اس بات کی دلیل ہے کہ اب لوگ مکتب حضرت غفران مآب کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔

اختتامی جلسے کی نظامت کے فرائض عادل فراز نے انجام دئیے ۔مولانا اسیف جائسی اور احمد عباس نقوی نے میزبان کی حیثیت سے تمام شرکائے جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔

حضرت غفران مآبؒ نے مکتب امامیہ کی ترویج و اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، مولانا کلب جواد نقوی

سیمینار کے اختتامی جلسے میں مولانا شمس الحسن ،مولانا تقی حیدر نقوی،مولانا رضاحیدر زیدی،مولانا غضنفر نواب ،مولانا محمد حسین ،مولانا اشرف الغروی نمائندہ آیت اللہ سید علی سیستانی مدظلہ ،مولانا محمد حسن طہٰ فائونڈیشن،مولانا عقیل عباس ،مولانا ارشد حسین عرشی ،مولانا تہذیب الحسن ،مولانا محمد موسیٰ ،مولانا حیدر مہدی کریمی ،مولانا تفسیر عباس،مولانا ابوالفضل عابدی،مولانا شباہت حسین ،مولانا ڈاکٹر ارشد جعفری،مولانا ڈاکٹر ذیشان حیدر ،مولانا سرتاج حیدر زیدی،مولانا ڈاکٹر ظفر النقی ،مولانا شاہد کمال اور دیگر علمائے کرام نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .