حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ ہندوستان میں مکتب امامیہ کے پہلے مرجع تقلید ،مجتہد جامع الشرائط اور مروج تشیع آیت اللہ العظمیٰ سیددلدار علی غفران مآبؒ کی یاد میں ’دفتر مکتب فقہی وکلامی حضرت غفران مآبؒ‘ کی جانب سے نوتعمیر شدہ دفتر نزد گھنٹہ گھر میں ’یاد حضرت غفران مآبؒ ‘کے عنوان سے علمی نشست کا انعقاد ہوا۔جس میں علماء اور دانشوروں نے شرکت کی۔اس نشست میں نمائندہ ولی فقیہ ہندوستان حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ مہدی مہدوی پور، مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے اور پروگرام کی صدارت فرمائی ۔پروگرام کا آغاز مولوی امیر حمزہ نے قرآن مجید کی تلاوت سے کیا۔ محمد اعد ل وصیفؔ جائسی نے حمد ونعت پیش کی ۔پھر گل پیشی کی رسم اداکی گئی۔
افتتاحی تقریر میں نورہدایت فائونڈیشن کے سکریٹری مولانا مصطفیٰ حسین نقوی اسیف ؔ جائسی نے اس نشست کے انعقاد کا مقصد اور برصغیر میں مکتب حضرت غفران مآبؒ کی اہمیت کو بیان کیا۔انہوں نے کہاکہ غیر منقسم ہندوستان میں شیعوں کو بحیثت قوم کے اگر کسی نے متعارف کروایا تو وہ حضرت غفران مآبؒ کی ذات بابرکت تھی ۔انہوں نے امامیہ تعلیمات کے فروغ کے لئے جدوجہد کی ۔ان کی اولاد واحفاد اور شاگردوں نے علمی اور فکری انقلاب برپا کیا جس کے اثرات آج تک دیکھے جاسکتے ہیں۔
کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے حجۃ الاسلام مولانا تقی رضا برقعی نے حضرت غفران مآبؒ کے علمی آثار کا جائزہ پیش کیا۔انہوں نے علم کلام جدید کا بانی حضرت غفران مآبؒ کو قرار دیا اور کہا کہ اس مکتب کے اہم شاگرد علامہ غلام حسنین کنتوری کے خدمات اور علم کلام میں جدید میں ان کے نظریات کا تحقیقی جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ ہندوستان میں علم کلام جدید نےانہی حضرات کے ذریعہ فروغ پایا۔
صدارتی تقریر کرتے ہوئے نمائندۂ مقام معظم رہبری حجۃ الاسلام شیخ مہدی مہدوی پور نے مکتب حضرت غفران مآبؒ کی اہمیت و افادیت اور لکھنؤ کے تمام علمی خانوادوں کی عظمت پر سیر حاصل گفتگو کی ۔انہوں نے کہاکہ ایران میں مکتب لکھنؤ پر مسلسل تحقیقی کام ہو رہا ہے ۔ مختلف علمی اور تحقیقی ادارے علماء کے خدمات اور علمی آثار کے احیا کے لئے کوشاں ہیں۔انہوں نےخاص طور پر ’عماد الاسلام ‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بیس جلدیں زیر طبع ہیں ،جو بہت جلد منصہ شہود پر ہوں گی ۔
آقای مہدوی پورنے مزید کہا کہ گزشتہ چھ سالوں میں حضرت غفران مآبؒ ،علامہ میر حامد حسین موسوی اور دیگر علمائے لکھنؤ کی حیات و خدمات پر ایران میں متعدد علمی نشستیں منعقد ہوچکی ہیں اور آئندہ ہوتی رہیں گی ۔ہم کوشش کررہے ہیں کہ لکھنؤ کے علماء ایران کے جن علاقوں سے ہجرت کرکے ہندوستان تشریف لائے تھے وہاں بھی ان کے خدمات پر علمی نشستوں کا اہتمام کیا جائے۔
مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید کلب جواد نقوی نے اختتامی تقریر میں تمام مہمانوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے مکتب حضرت غفران مآب کی اہمیت اور عظمت پر روشنی ڈالی ۔انہوں نے کہاکہ ہم حضرت غفران مآبؒ کے علمی آثار کے احیا کے لئے سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں اور اس راہ میں نور ہدایت فائونڈیشن کے خدمات لائق ستائش ہیں ۔انہوں نے کلام جدیدکی اصطلاح پر بھی روشنی ڈالی اور کہاکہ علم کلام نہ جدید ہوتاہے اور نہ قدیم ۔اس کے موضوعات بدلتے رہتے ہیں جن کی بنیاد پر ہم جدید اور قدیم کا معیار طے کرتے ہیں ۔ہندوستان میں ان جدید موضوعات پر پہلی بار حضرت غفران مآب اور ان کے مکتب کے علماء نے کام کیا جس کا طائرانہ مطالعہ کیا جانا چاہیے۔
اس نشست میں متعدد کتابوں کی رونمائی بھی عمل میں آئی ۔سب سے پہلے حضرت غفران مآبؒ اور ان کے فرزندوں کی زندگی پر مشتمل ایک رسالے کی رونمائی کی رسم ادا کی گئی جس کے مصنف مولانا اسیفؔ جائسی ہیں ۔اس کے بعد عادل فراز کی تصنیف ’سرگذشت سلطان العلماء‘ کا رسم اجرا ہوا۔یہ کتاب سلطان العلماء سید محمد رضوان مآبؒ کی حیات وخدمات پر مشتمل ہے ۔پھر آیت اللہ سید کلب باقر جائسی الحائری کی کتاب ’دلائل الخیرات‘ کا اجراء ہوا۔معروف ادیب چودھری سبط محمد نقوی کی مشہور کتاب’امجد علی شاہ ‘ کی رسم رونمائی بھی ہوئی جس پر عادل فراز نے مقدمہ تحریر کیا ہے ۔آخر میں ’اسلام شناسی‘ کا اجراء ہوا جس میں مختلف علماء کے علمی اور تحقیقی مقالات کو مولانا اسیفؔ جائسی نے جمع کیا ہے ۔
پروگرام میں مولانا نثار احمد زین پوری،مولانا منظر صادق ،ڈاکٹر کلب سبطین نوری،مولانا نظر عباس،مولانا عقیل عباس،مولانا عباس اصغر شبریز،مولانا تسنیم مہدی ،ڈاکٹر سبط حسن ،جناب رومی نواب،مولانا مکاتیب علی خاں ،مولانا منظفر شفیعی،مولانا اصطفیٰ رضا،مولانا ثقلین باقری،مولانا ارشد حسین عرشی ،مولانا ڈاکٹر علی سلمان رضوی ،مولانا علی حیدر ،مولانا صغیر حسین ،چودھری سبط محمد نقوی کے فرزندان، شیعہ وقف بورڈ کے چئیرمین علی زیدی،عنبر فائونڈیشن کے چئیرمین وفا عباس،جناب نجم الحسن رضوی،مولانا شباہت حسین،شمیل شمسی،مولانا وصی عابد،حوزہ علمیہ غفران مآبؒ اور مدرسہ عقیلہ بنی ہاشم کے طلاب اور دیگر علماء و افاضل شامل تھے ۔اس پروگرام کا اہتمام احمد عباس نقوی نے کیا تھا۔نظامت کےفرائض عادل فراز نقوی نے انجام دئیے ۔
آپ کا تبصرہ