۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
News ID: 388793
25 فروری 2024 - 12:03
مولانا مصطفیٰ علی خان

حوزہ/ امام وقت اور حجت خدا کی معرفت کے بغیر انسان دین پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا بلکہ گماراہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم شہادت رسولؐ کے بعد انکار غدیر کے نتیجہ میں گمراہیوں کے نہ رکنے والے سلسلہ کو آج تک دیکھ رہے ہیں اور یہی امام وقت سے دوری اور گمراہی ہی سبب ہے ایک باعزت امت  دنیوی ذلت کی نذر ہو گئی اور جس کا ماضی اصلاح سے روشن تھا وہ اس کا حال دہشت گردی کے الزام سے تاریک نظر آنے لگا۔

تحریر: مولانا مصطفیٰ علی خان، ادیب الہندی،صدر ادیب الہندی سوسائٹی لکھنؤ

حوزہ نیوز ایجنسی | خاتم الائمہ ؑ و الاوصیاءؑ حضرت ولی عصر امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف ہمارے امام زمانہ اور ولی و وارث ہیں ۔ لیکن یہ بھی ہمارے لئے انتہائی افسوسناک مقام ہے کہ ہم اپنے مولا و آقاؑ کی زیارت سے محروم ہیں۔ آپؑ اپنے والد ماجد یعنی ہمارے گیارہویں امام حضرت ابومحمد امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد سے منصب امامت پر فائز ہوئے لیکن دور امامت کے آغاز سے ہی آپؑ نے حکم خدا سے غیبت اختیار کر لی ۔ تقریباً ۶۹ سال غیبت صغریٰ کا زمانہ تھا جس میں یکے بعد دیگر چار خاص نائب ہوئے ۔ ۱۵ ؍ شعبان المعظم ۳۲۹ ہجری کو جب آپؑ کے چوتھے نائب خاص جناب علی بن محمد سمری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی وفات ہوئی تو نیابت خاصہ کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور حکم خدا سے طولانی غیبت یعنی غیبت کبریٰ کا آغاز ہو گیا جس کا سلسلہ آج بھی قائم ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کی حدیث شریف کی روشنی میں عصر غیبت کبریٰ میں امت کی ہدایت کی ذمہ داری ان فقہاء پر ہے جو اپنے نفس کے محافظ ، دین کے نگہبان ، خواہشات کے مخالف اور مولا کے اطاعت گذار ہیں۔ ظاہر ہے قرآن و حدیث کا سمجھنا ہر ایک کے لئے ممکن نہیں ہے لہذا پابندی دین میں مذکورہ صفات و خصوصیات کے حامل فقہاء سے کسب فیض ہی واحد راہ حل ہے۔

لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس دور غیبت میں ہم منتظرین امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ یہ سوال اس وقت اور شدید ہو جاتا ہے اور الجھن کا سبب بن جاتا ہے ، جب ایک جانب سےیہ متواتر روایت‘‘ جب امام عالی مقام ظہور فرمائیں گے تو دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح پُر کر دیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔’’ پیش کر کے لوگوں کو گناہ و فساد کی دعوت دی جانے لگے کہ جب ظلم و جور سےدنیا پُر ہو گی تب ہی امام علیہ السلام ظہور فرمائیں گے لہذا جتنا ممکن ہو گناہ انجام دو۔ اس گمراہ اور مفسد گروہ کی دعوت فساد ہی سے واضح ہے کہ یہ اصلاح کے منکر اور فساد کے خواہاں ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ مذکورہ روایت تواتر سے نقل ہوئی ہے لیکن اسی کے ساتھ معصومین علیہم السلام سے دیگر بہت سی روایتیں بھی منقول ہوئی ہیں جنمیں عصر غیبت میں منتظرین کے صفات اور وظائف بیان ہوئے ہیں جو کہ اس دعوت فساد کے سو فیصد مخالف ہیں۔ ظاہر ہے جب امام ؑ ظہور فرمائیں گے تو وہ دنیا میں نظام عدل کو قائم کریں گے لہذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے کو اس لائق بنائیں اور اس کی تیاری کریں کہ جب حکم خدا سے آپؑ ظہور فرمائیں تو ہم آپؑ کے لشکر میں شامل ہو سکیں ۔ اور اس سلسلہ میں ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل شہدائے کربلا علیہم السلام یعنی امام حسین علیہ السلام کے اصحاب ہیں کیوں کہ ان کے جیسےوفادار اور کہیں نہیں ملیں گے جیسا کہ خود امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:‘‘جیسے اصحاب مجھے ملے ویسے نہ میرے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ملے ، نہ میرے بابا امیرالمومنین علیہ السلام کو ملے اور نہ ہی میرے بھائی امام حسن علیہ السلام کو ملے۔’’

جب امام علیہ السلام ظہور کریں گے تو ان کے لشکر میں ایسے لوگ شامل نہیں ہو سکتے جو میدان سے فرار کر جائیں، مال غنیمت کی لالچ میں محاذ چھوڑ دیں، معصوم کی آواز کو بھول کر شیطان کی آواز پر دوڑ پڑیں، دشمن سے خوف کھا جائیں، جہاد میں سستی سے کام لیں، مال دنیا کی لالچ میں بک جائیں ۔ بلکہ ایسے با وفا شامل ہوں گے جو نہ اپنی پرواہ کریں نہ اپنے گھر اور گھروالوں کی پرواہ کریں، مال دنیا کی لالچ اور دشمن کا امان نامہ ان کی ثابت قدی کو متاثر نہ کر سکے۔ لہذا اس لائق بننے کے لئے کچھ چیزیں ضروری ہیں ۔ جنمیں سب پہلے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی معرفت ہے۔

جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے ، حمد الہی اور نبی مکرمؐ پر درود سلام کے بعد فرمایا: ‘‘ائے لوگو! اللہ نے بندوں کو پیدا نہیں کیا مگر یہ کہ اسے پہچانیں ، کیوں کہ جب وہ خد اکو پہچان لیں گے تو اسکی عبادت کریں گے اور جب اس کی عبادت کریں گے تو دوسروں کی غیر خدا کی بندگی سے بے نیاز ہو جائیں گے۔ ’’ ایک شخص نے سوال پوچھا فرزند رسول ؐ ! ہم آپؑ پر قربان ، معرفت خد ا کیا ہے؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘معرفة اهل کل زمان امامهم الذی یجب علیهم طاعته’’ یعنی ہر دور کے لوگوں ی اپنے زمانے کے امام ؑ کی معرفت حاصل کرنا جنکی اطاعت واجب ہے۔ (بحارالانوار، جلد۵، صفحہ ۳۱۲)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ‘‘من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة الجاهلیة’’ جو مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے اسکی موت جاہلیت کی موت ہے۔ (بحارالانوار، جلد ۸، صفحہ ۳۶۸)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے صحابی جناب زرارہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو اسی مضمون کی دعا تعلیم فرمائی کہ عصر غیبت میں جو منتظرین کا ورد زبان ہو۔
اَللّهُمَّ عَرِّفْنى نَفْسَكَ، فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى نَفْسَكَ، لَمْ اَعْرِف نَبِيَّكَ؛ اَللّهُمَّ عَرِّفْنى رَسُولَكَ، فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى رَسُولَكَ، لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَكَ؛ اَللّهُمَّ عَرِّفْنى حُجَّتَكَ، فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى حُجَّتَكَ، ضَلَلْتُ عَنْ دينى (کمال الدین، جلد ۲، صفحہ ۵۱۲)

خدایا! مجھے اپنی معرفت عطا فرما! کیوں کہ اگر تو مجھے اپنی معرفت عطا نہیں کی تو میں تیرے نبیؐ کو نہیں پہچان پاؤں گا، خدایا! مجھے اپنے رسولؐ کی معرفت عطا فرما! اگر تونے اپنے رسول ؐ کی معرفت عطا نہیں کی تو میں تیری حجت کو نہیں پہچان سکتا۔ خدایا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کر ! اگر تو نے اپنی حجت کی معرفت عطا نہیں کی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاؤں گا۔

ملاحظہ فرمائیں کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی معرفت کتنی ضروری ہے کہ اگر کسی کو اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہیں ہو گی تو اپنے مقصد خلقت تک نہیں پہنچ سکتا ۔ یعنی وہ نہ یہ جان سکتا ہے کہ اسے کس نے پیدا کیا ہے اور کیوں پیدا کیا ہے اور اس کی ذمہ داری کیا ہے؟ اسے کیا کرنا چاہئیے اور کیا نہیں کرنا کرنا چاہئیے؟ کیوں کہ امام وقت کی معرفت کے بغیر نہ خدا کی معرفت ممکن ہے اور نہ ہی اسکی عبادت ممکن ہے ۔

حدیث رسول میں ایسے بے معرفت شخص کی موت جاہلیت کی موت ہے ، یعنی وہ اسلام پر اس کی موت نہیں ہو گی ۔ ممکن ہے یہودی مرے، نصرانی مرے، کافر دنیا جائے، مشرک دنیا سے جائے۔

امام وقت اور حجت خدا کی معرفت کے بغیر انسان دین پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا بلکہ گماراہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم شہادت رسولؐ کے بعد انکار غدیر کے نتیجہ میں گمراہیوں کے نہ رکنے والے سلسلہ کو آج تک دیکھ رہے ہیں اور یہی امام وقت سے دوری اور گمراہی ہی سبب ہے ایک باعزت امت دنیوی ذلت کی نذر ہو گئی اور جس کا ماضی اصلاح سے روشن تھا وہ اس کا حال دہشت گردی کے الزام سے تاریک نظر آنے لگا۔

لہذا ہماری پہلی ذمہ داری ہے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے امام کی معرفت حاصل کریں تا کہ دو جہاں کی خوشبختی اور سعادت ہمارا نصیب ہو۔

بارگاه الہی میں دست بہ دعا ہیں کہ وہ ہمیں امام کی معرفت عطا فرمائے اور ان کے ناصروں میں شامل فرمائے
آمین یا رب العالمین۔اپ سب کو ولادت باسعادت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف بہت مبارک ہو۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .