۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
علامہ ڈاکٹر شبیر میثمی

حوزہ/ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنما نے خطبہ جمعہ میں کہا کہ اگر ہم امام علیہ السلام کے سچے منتظر ہیں تو ہمیں اپنی ڈیوٹی پوری کرنی ہوگی اور اپنی نسل کو تیار کرنا ہوگا تاکہ جب بھی امام علیہ السلام کا ظہور ہو تو کہا جائے کہ تمہارے فلاں جد کے اچھے کاموں کی وجہ سے تمہیں بھی امام زمانہ علیہ السلام کی فوج میں داخل کیا جا رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی رہنما اور امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی علامہ شبیر میثمی نے کہا کہ ایام مبارک شعبان ہیں اور ہم پندرہ شعبان کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی ولادت باسعادت کا دن ہے۔ البتہ ولادت سے کئی سال پہلے خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے اس دن کی اہمیت کو بیان فرما دیا تھا۔ اس شب کے اعمال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سجدہ میں ایک دعا بھی ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بقیع میں تلاوت فرمائی تھی۔ اہل سنت حضرات اس شب کو ”شب برائت“ یعنی گناہوں سے آزادی یا مردوں کی عید کے عنوان سے مناتے ہیں۔ معصومین علیہم السلام کی تعلیم کے مطابق شب جمعہ، روزِ جمعہ ، رجب اور شعبان کے مہینوں میں عبادت و مناجات اور توبہ و استغفار کا مقصد یہ قرار دیا گیا ہے کہ ہم ماہِ رمضان المبارک میں قلب کی پاکیزگی کے ساتھ داخل ہوسکیں اور اپنے سفر کو توبہ و استغفار سے آگے بڑھائیں اور قلب کی نورانیت میں اضافہ کرتے جائیں۔ امید ہے مومنین اس بات کی طرف متوجہ رہیں گے۔ پندرہ شعبان کی طلوع فجر کے موقعہ پر امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت ہوئی جن کی برکتوں سے ہم پر بارش نازل ہوتی ہے، روزی ملتی ہے، ہدایت ملتی ہے، دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ غیبت میں امام سے استفادہ ایسا ہی ہے جیسے بادلوں کی اوٹ سے سورج روشنی کا فائدہ پہنچاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو اللہ نے آسمانوں پر اٹھا لیا لیکن حضرت امام زمانہ علیہ السلام زمین پر ہی موجود ہیں اور ہماری رہنمائی فرماتے ہیں اور ہماری مدد کرتے ہیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ جب بھی کوئی مدد مانگے گا اس کی مدد کی جائے گی۔ امام علیہ السلام کی موجودگی کا احساس ہمیں اپنے مذہب کی روز بروز مضبوطی سے ہوتا ہے۔

ایک بحث یہ کی جاتی ہے کہ آیا امام علیہ السلام کی ولادت ہوچکی ہے یا ابھی ہوگی۔ اہل سنت کے بعض مکاتب میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی ولادت ابھی نہیں ہوئی ہے۔ جبکہ اہل سنت کی ایک بڑی تعداد اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کی ولادت ہوچکی ہے۔ لیکن یہ عقیدہ سب کے ہاں مشترک ہے کہ امام علیہ السلام دنیا میں تشریف لائیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ آپ کے تشریف لانے سے پہلے زمین ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ایک بحث یہ بھی ہے کہ کیا کسی امام کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ اور پھر غائب امام کا کیا فائدہ! کیا ضروری ہے کہ زمین سے ظلم و جور کا خاتمہ ہو، عدل و انصاف کا بول بولا ہو اور اسلام پوری دنیا پر رائج ہوجائے۔ ہمارے شیعوں میں بعض ایسے افراد ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ امام زمانہ علیہ السلام کا عقیدہ چھٹے امام علیہ السلام کے دور میں پھیلا دیا گیا ، اور شیعوں نے بھی اس بات کو ا ٹھا لیا۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: و لقد کتبنا فی الزبور ان الارض یرثہا عبادی الصالحون۔ ہم نے آسمانی کتابوں میں بیان کردیا کہ زمین پر ہمارے صالح بندے وارث بنیں گے۔ یعنی پوری دنیا پر ان کا کنٹرول ہوگا۔ دوسرا یہ کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وہ اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ تمام ادیان اور ادوار پر دین اسلام غالب آجائے۔ 1442 سال سے اسلام پوری طرح دنیا میں نافذ نہیں ہوا۔ اسلام شمشیر کے زور پر نہیں بلکہ اپنی حقانیت کے زور پر پھیلے گا۔ اسلام دلیل کی بنیاد پر پھیلے گا۔ سمجھدار انسان خود اسلام کو قبول کرے گا۔ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا جب وہ تشیع میں داخل ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ لگتا ہے اب کہیں پہنچے ہیں۔جو پہنچتے ہیں انہیں قدر زیادہ ہوتی ہے اور جو پہلے سے ہیں انہیں تھوڑی کم قدر ہوتی ہے۔ قرآن کی بعض آیتیں اب تک پوری طرح نافذ نہیں ہوئیں۔ مستشرقین اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اسلام ایک کامل دین ہے تو ابھی تک یہ زمین پر کامل طور پر نافذ کیوں نہیں ہوا۔ ایک مثال موبائل فون کی ہے کہ آج دس میں سے نو انسانوں کے پاس موبائل ہے۔ آخر دس میں سے نو انسان مکتب تشیع میں داخل کیوں نہیں ہوئے؟جب امام زمانہ علیہ السلام تشریف لائیں گے اور دین کو باقاعدہ طور پر پیش کریں گے، اس وقت لوگ دین کو بہتر انداز میں قبول کریں گے اور دنیا عدل و انصاف سے بھر جائے گئی جس طرح آج ظلم و جور سے بھرتی جا رہی ہے۔ اگر ہم اسلام کو ایک کامل مذہب مانتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ یہ دین ایک وقت بغیر طاقت کے زمین پر پھیلے اور انسان اسے بہتر انداز میں قبول کرے۔ سوال یہ ہے کہ آج تک انسانوں نے اسے بہتر انداز میں قبول کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ لوگوں کی عقل ابھی کامل نہیں ہوئی ہے۔ آج انسان مریخ پر سیارہ بھیج کر اسے زمین سے کنٹرول کرتا ہے جس سے اس کی عقل کی ترقی ظاہر ہوتی ہے لیکن جب ظہور کا وقت قریب آئے گا تو اللہ تعالیٰ انسانی عقل پر ہاتھ پھیرے گا اور انسانی عقل کمال تک پہنچ جائے گی۔ لوگ مشکل سے مشکل سوال لے کر امام علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور امام علیہ السلام کے مختصر ترین جواب پر قانع ہو کر اسے قبول کرلیں گے۔ آج آپ تحقیق کرلیں کہ دنیا کا کون سا مذہب عقل اور تحقیق پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے؟ قرآن ایسا معجزہ ہے جو ایک کتاب ہے اور علم کی بات کرتا ہے۔ علم کائنات کی حقیقتوں کو تسخیر کرنے کا نام ہے۔ قدیم لوگوں کے پاس ڈگریاں نہیں ہوتی تھیں لیکن زمانہ ترقی کر رہا تھا۔ آج ڈگری کے نام پر ہمارے ذہنوں کو محدود کردیا گیا ہے۔ مائیکروسافٹ، آئی فون وغیرہ کے اکثر لوگ وہ ہیں جنہیں سکول کالج سے نکال دیا تھا کہ تم اس قابل نہیں ہو۔ انسان بہت قابل ہے لیکن انسانوں نے انسانوں کی عقلوں پر قبضہ کرلیا ہے اور انہیں ایک حد تک ہی تعلیم کی اجازت دی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہم بہت سے مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ آیرلینڈ میں اسکولوں میں بچوں کے ذہنوں کو کھولا جاتا ہے، انہیں آفاقی ذہن بناتے ہیں، کائنات کی حقیقتوں کا سراغ لگانے والا بناتے ہیں۔ ظہور کے بعد انسان کی عقل کامل ہوجائے گی۔ کامل عقل کے ساتھ امام زمانہ علیہ السلام ظہور فرمائیں گے۔ مولائے کائنات کے دعویٔ سلونی کو امام زمانہ علیہ السلام پورا کریں گے۔دنیا ظلم و جور سے اس طرح بھری ہوگی کہ مومن ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا جو کہ ظہور کی علامات میں سے ہے۔ آج بعض لوگ ظہور کے حوالے سے ایسی باتیں کر رہی ہیں جن سے عقیدے کے کمزور ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ قرآن و حدیث کی بنیاد پر دین مضبوط ہوتا ہے۔ انسانی عقل کو کمال تک پہنچنے میں مدد کیجئے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سب گناہ چھوڑ دیں گے تو امام علیہ السلام کا ظہور ہوجائے گا۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت کیا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ ہم امام زمانہ علیہ السلام کے تصور کو صحیح طرح سے آگے بڑھا رہے ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو منبر سے صحیح تبلیغ ہونا ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ ماہِ شعبان میں امام زمانہ علیہ السلام کے عنوان سے خمسہ یا عشرہ منعقد کیا جائے تاکہ لوگوں کو امام زمانہ علیہ السلام کے بارےمیں زیادہ سے زیادہ صحیح معلومات حاصل ہوسکیں۔ اگر ہم امام علیہ السلام کے سچے منتظر ہیں تو ہمیں اپنی ڈیوٹی پوری کرنی ہوگی اور اپنی نسل کو تیار کرنا ہوگا تاکہ جب بھی امام علیہ السلام کا ظہور ہو تو کہا جائے کہ تمہارے فلاں جد کے اچھے کاموں کی وجہ سے تمہیں بھی امام زمانہ علیہ السلام کی فوج میں داخل کیا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ امام زمانہ علیہ السلام کے لشکر میں ہمارا حصہ بھی شامل ہوجائے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ پندرہ شعبان کی شب اعمال ہوں گے ان میں شرکت کریں۔ اپنے لئے دعائیں کریں، خاص کر بیماروں اور اسیروں کے لئے دعا کریں۔ اپنی عاقبت بخیر، اپنی نسلوں، اپنے رشتہ داروں کے لئے اپنے مرحومین کے لئے دعا کریں۔ اگر مستحب روزہ رکھیں اور دن میں کوئی مومن کچھ کھانے کو پیش کرے تو بہتر ہے روزہ کھول دیں۔ مومن کو خوش کرنا بہت ثواب ہے۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کی آسانی کو انجام دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ مثلاً سفر میں یا بیماری کی حالت میں اللہ کی خاطر روزہ نہیں رکھتے تو اس کا بھی ثواب ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ جو اسٹیٹ بینک کی آٹونومی کا بل پاس ہونے جا رہا ہے، یہ بہت خطرناک ہے۔ حکومت کو بھی پتا ہے کہ یہ خطرناک ہے۔ لیکن چونکہ ہم نے آئی ا یم ایف کے سامنے گردن جھکائی ہوئی ہے اس لئے ہم سب کچھ کرنے پرتیار ہوجاتے ہیں۔ جب سلطنت عثمانیہ پر پابندیاں لگیں تو انہوں نے یہی کیا تھا کہ اسٹیٹ بینک حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہے گا بلکہ ان کے کنٹرول میں رہے گا جو آپ کو قرض دیتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے بہت بڑا عذاب ہوگا۔ میں شدت سے اس کی مخالفت کرتا ہوں۔ میں اسٹیٹ بینک کا شرعی ایڈوائزر ہوں، وہاں پر بھی میں آواز اٹھا رہا ہوں۔ یہاں پر بھی آپ سے کہہ رہا ہوں۔ اگر کوئی کچھ کرسکتا ہے تو کرے ورنہ یہ ملک کی اکانومی کو تباہ و برباد کردے گا۔ اسے کسی طرح روکا جانا چاہئے۔ اس پر اعتراض کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں دی جا رہی ہے۔ یہ حکومت کے لئے موت کا پھندا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ حکومت اپنے فیصلہ سے پلٹ جائے۔ خلیج میں آئل ٹینکروں کی ہلکی ہلکی جنگ شروع ہوئی ہے۔ ایک ٹریلر شروع ہوا ہے۔ دعا کریں کہ یہ آگے نہ بڑھے ورنہ یہ بہت ہی خطرناک جنگ کی طرف جا سکتا ہے۔

علامہ شبیر میثمی نے کہا کہ آخری چیز یہ کہ میں تعجب کرتا ہوں عدالتوں سے بھی اور نیب سے بھی۔ اگر کوئی پتھر لے کر یا لاٹھی لے کر نیب جانے کے لئے تیار ہوجائے تو کیا نیب پیچھے ہٹ جائے؟ بہت بڑی بے شرمی کی بات ہے۔ حکومت کی رِٹ اگر نہیں ہے، اگر چار پتھروں سے آپ ڈر جاتے ہو تو انڈیا بولے گا کہ چلو ان پر حملہ کرڈالو۔ میں حکومت کی اس حرکت کو تعجب سے دیکھتا ہوں۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ نیب ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے لیکن یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ آخر نیب والوں کو سمجھایا تو جا سکتا ہے۔ ایک خاتون ضمانت کے لئے عدالت جاتی ہے اور فوراً سے اس کی ضمانت منظور کرلی جاتے جس پر طنز کرتے ہوئے ظاہراً اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ اگر اس طرح تیزی سے عدالتی نظام فیصلے کرنے لگے تو ہم کامیاب ہوجائیں گے۔ ہفتہ کے دن شام کو کورٹ کھول کر کسی کو ضمانت دے دی جاتی ہے۔ یہ ڈرامے پاکستان کے لئے نقصان دہ ہیں۔ میرے مولا کا فرمان ہے کہ کفر کے ساتھ تو نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نظام نہیں چل سکتا ہے۔ کمزور کو بیس بیس سال جیل میں قید رکھو اور طاقتور اگر کچھ لوگوں کو لے کر آجائے تو تم پیچھے ہٹ جاؤ۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ شوگر مافیا پر ہاتھ تو ڈالا ہے لیکن ہمیں امیدیں نہیں نظر آتی ہیں۔ اس لئے کہ حکومت بہت سی جگہوں پر کمزوری دکھا رہی ہے۔ عمران خان صاحب! جو بھی غلطی کرے اسے پکڑیں اس پر کیس چلائیں، فیصلہ کریں اور سزا دلوائیں۔ صرف باتیں کرنے سے کوئی کام نہیں ہوگا۔ پندرہ شعبان کو اپنے بچوں کو خوش کرنے میں کمی مت کرئیے گا تاکہ بچوں پر اس کا اچھا اثر ہو۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .