۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سید منظور علی نقوی

حوزہ/ سنت الہیہ ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ جو چیز مضاف ہوتی ہے، کسی محترم و معظم کی جانب تو اس کی تعظیم کرنا واجب ہے۔ اس لئے کہ مضاف الیہ قابل تعظیم ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید منظور علی نقوی آمروہہ وی نے کہا کہ سنت الہیہ ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ جو چیز مضاف ہوتی ہے، کسی محترم و معظم کی جانب تو اس کی تعظیم کرنا واجب ہے۔ اس لئے کہ مضاف الیہ قابل تعظیم ہے۔

مثلاً رسول اللہ کا اسم مبارک محمد زبان پر جاری کیا جائے تو صلی اللہ علیہ والہ و سلم کہا جائے گا۔ اگر یہی نام کسی دوسرے شخص کا سمجھ کر لیا جائے تو صلوات ہرگز نہیں پڑھیں گے۔ ایسے ہی انبیاء اللہ اور اہل بیت کا نام لیا جائے تو علیہ السلام کہا جائے گا اور اگر وہی نام کسی شخص کا سمجھ کر لیا جائے تو کوئی ایسا نہیں کرتا. اگر مقتدر صحابہ کا نام لیا جائے تو رضی اللہ عنہ کہا جاتا ہے اگر مجتہدیں و علماء کا نام لیا جائے تو رحمت اللہ علیہ کہا جاتا ہے۔ اگر یہی نام لوگوں میں کسی کا ہو تو رحمت کی دعا کوئی نہیں کرتا۔اگر کسی کے پاس اس کے باپ دادا کا دوست آئے تو اس کی تعظیم کی جاتی ہے عام لوگوں کو وہ تعظیم نہیں دی جاتی۔

 سی طرح چونکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عظمت و حرمت مؤمنین کے دلوں میں جاگزیں ہے کہ اس لئے کہ وہاں کعبہ شریف اور روزہ خاتم انبیاء ہے غلاف خانہ خدا کی ہر کوئی تعظیم کرتا ہے اس لیے کہ ایک معظم و مکرمہ چیز سے نسبت ہے۔ عام شہروں اور عام لباس کی کوئی تعظیم نہیں۔ یہ تعظیم اس چیز کی نہیں ہے بلکہ خانہ کعبہ و روضہ منورہ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے ہے اسی طرح تعزیہ روضہ امام حسین علیہ السلام کی طرف لائق تعظیم و تکریم ہے محبت کا اقتضا یہ ہے کہ جو شئے محبوب کی طرف مضاف ہوتی ہے تو اضطرارا محبت کرنے والوں کا دل اسی شے منسوب کی تعظیم و تکریم کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔
چونکہ وہابی عالموں نے توحید و شرک کے مفہوم کو قرآن اور احادیث سے نہیں سمجھا. اس لئے وہ گمراہ ہو گئے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .