۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
کرم علی حیدری

حوزہ/ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی صرف جسمانی ڈاکٹر نہیں تھے بلکہ درحقیقت روحانی ڈاکٹر بھی تھے بلکہ ایک بہترین مربی تھے۔ اتنا عرصہ گذرنے کے بعد بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ شہید ابھی ابھی ہم سے ظاہری حوالے سے جدا ہوئے ہیں لیکن انکے افکار اور نظریات اور تخیلات ہمارے قلوب و اذہان کو منور کررہی ہیں۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی 26 ویں برسی پر حجۃ الاسلام و المسلمین علامہ ڈاکٹر کرم علی حیدری المشہدی مرکزی جوائنٹ سیکریٹری وفاق المدارس الشیعہ پاکستان،
سرپرست مدرسہ علمیہ حضرت امام العصر عج فاؤنڈیشن حیدرآباد سندھ پاکستان و صوبائی رہنما شیعہ علماء کونسل پاکستان صوبہ سندھ نے کہا کہ اگرچہ میں نے شہید کے ساتھ کوئی وقت گذارا نہیں تھا لیکن 1989 میں،جب میں اندرون سندھ سے کراچی شہر کی دینی درسگاہ مدرسہ جعفریہ میں تحصیل علومِ محمد و آل محمد علیہم السلام کی سعادت حاصل کررہاتھا تو تحصیل کے اوقات سے جب فراغت حاصل ہوتی تو  دفترِ تحریک جعفریہ پاکستان میں ضرور جاتا تھا یا پھر آئی ایس او کے مختلف پروگراموں میں شرکت کرتا تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ شہید سید محمد علی نقوی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکرِ خیر نہ ہوا ہو۔ ہمیشہ ان ذکر ہوتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ شہید سید محمد علی نقوی رحمۃ اللہ علیہ کی علمائے کرام سے عقیدت و وابستگی و محبت اپنی مثال آپ تھی۔ بالاخص جب سرزمین حجاز مقدس پہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے گئے تھے تو وہاں پہ بھی انہوں نے مشرکین و کفار سے بیزاری کو اپنے مناسکِ حج میں اہم ترین سمجھا تھا اسلئے دشمنانِ اسلام کے ناپاک ھاتھوں سے مکہ مکرمہ میں اسیر بھی ہوئے تھے لیکن بتانے والے بتاتے تھے کہ شہید کی پیشانی پہ ذرہ برابر بھی شکن و پریشانی و ندامت کے آثار نظر نہ آئے بلکہ وہ ائمہ اطہار علیہم السلام اور اس دور کے رھبر و رھنما حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح بالکل مطمئن تھے کہ حق و سچ بات کرو اور حق و سچ پہ مشکلات یا موت بھی آئے تو کوئی نقصان نہیں۔
پھر شہید سید محمد علی نقوی نور اللہ مرقدہ الشریف بمع احباب دشمنانِ تشیع کی قید و بند سے رہا ہوکر ملک عزیز پاکستان تشریف لائے۔

حالانکہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ جب کوئی قیدی بنایا جائے اور وہ رہاہو تو اپنی کارکردگیوں کو محدود کردیتاہے لیکن کیا کہنے شہید کے جب وہ مکہ مکرمہ سے واپس وطن پہنچے تو اپنی کارکردگیوں اور توانائیوں کو پہلے سے زیادہ تیز کردیا۔
اور قائد محبوب،قائد ملت جعفریہ پاکستان حضرت آیۃ اللہ الحاج علامہ سید ساجد علی نقوی مدظلہ العالی کے ساتھ ہر وقت ہمدم و ساتھ ساتھ رھنے لگے اور ملک عزیز پاکستان کے جوانوں اور نوجوانوں کی تربیت اور تعلیم کیلئے اپنی کوششیں تیز کردی تھیں۔

مزید کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی صرف جسمانی ڈاکٹر نہیں تھے بلکہ درحقیقت روحانی ڈاکٹر بھی تھے بلکہ ایک بہترین مربی تھے۔ میں شہید کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتاہوں اور ہمیشہ انکی بے نظیر و باکمال خدمات کو یاد رکھتا ہوں۔ اتنا عرصہ گذرنے کے بعد بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ شہید ابھی ابھی ہم سے ظاہری حوالے سے جدا ہوئے ہیں لیکن انکے افکار اور نظریات اور تخیلات ہمارے قلوب و اذہان کو منور کررہی ہیں۔ کاش کہ اس شہید کی طرح دیگر بھی اخلاص و محبت اور عقیدت و احترام و سچائی کے ساتھ انجام وظیفہ دیں۔

آخر میں کہا کہ میں شہید کیلئے اتنا ضرور کہوں گا کہ عاش سعیدا و مات سعیدا۔ خداوند متعال ہمیں اس مرد مجاہد اور مردِ مومن کی مخلصانہ خدمات کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ اُن پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین بحق الشہداء والصالحین۔
 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .