۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
طلبه شهید اسدی

 حوزہ/ محمد تقی پڑھائی اور مطالعہ میں اتنی دلچسپی رکھتا تھا کہ اس کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ اس نے "اپنی سائیکل بیچ کر ان پیسوں سے کئی جلد کتابیں خریدیں"۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، قزوین شہر علم و ادب کا گہوارہ ہے اور ابتدائے اسلام سے لے کر اب تک کئی شہداء کی قربانیاں دے چکا ہے۔ 8 سالہ نازک اور تاریخی دفاع مقدس کے دور میں حوزہ علمیہ قزوین نے ملک بھر کے دیگر حوزاتِ علمیہ کی طرح بہت سے علماء اور جہادی مبلغین کو میدانِ جنگ میں بھیجا تاکہ اسلام کی خاطر جہاد کے عظیم راستے کو جاری و ساری رکھا جا سکے۔

اس حصے میں ہم ایک طالب علم بنامِ محمد تقی اسدی کی سوانح حیات سے آشنا ہوتے ہیں

شہید محمد تقی اسدی 1346 شمسی (1967ء) میں قزوین کے گاؤں "باورس" میں پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر سے ہی حاصل کی اور پھر مزید تعلیم جاری رکھنے کے لیےنزدیکی گاؤں "شترک" چلے گئے اور وہاں اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔

شہید اسدی نے ہائی اسکول کا عرصہ قزوین میں گزارا اور ان کے دوستوں اور اہل خانہ کے مطابق وہ اپنے ہائی اسکول کے دورانیہ میں بھی نمازِ شب ترک نہیں کیا کرتے تھے۔

محمد تقی پڑھائی اور مطالعہ میں اتنی دلچسپی رکھتا تھا کہ اس کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ اس نے "اپنی سائیکل بیچ کر ان پیسوں سے کئی جلد کتابیں خریدیں"۔

نماز، تہجد اور شب بیداری کو اہمیت دینا، صبر، خدا پر توکل، اطاعت اور دینی احکام کی پابندی شہید محمد تقی کی خصوصیات میں سے تھیں۔

وہ امام راحل رحمۃ اللہ علیہ کی اطاعت کو اپنے اوپر فرض سمجھتے، فوجی وردی پہن کر جنگی علاقوں میں گئے اور اپنی تابناک زندگی کے تقریباً 9 مہینے محاذوں پر گزارے۔

طالب علم شہید اسدی نے تین مرحلوں میں جنگی آپریشنز میں حصہ لیا اور ایک بار ان کی ٹانگ زخمی ہوئی اور جزوی صحت یابی کے بعد وہ واپس محاذ پر آگئے۔

ان کی والدہ کہتی ہیں: "ایک بار میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنی پڑھائی کرو، تم ابھی تو محاذ سے ہو کر آئے ہو، تو مسکراتے ہوئے جواب دیا: "امی جان!خدا نے ہی مجھے آپ کو عطا کیا ہے اور وہ جب چاہے گا واپس لے لے گا"۔

محمد تقی ہمیشہ بسیجی وردی پہنتے تھے اور اسے شہادت کی وردی سمجھتے تھے اور اسی یقین اور ارادے کے ساتھ اس نے ملک کے مغربی علاقوں میں قدم رکھا اور اپنے آپ کو "بیت المقدس 6" کے آپریشن میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کیا۔

محمد تقی نے 14 مئی 1986ء کو "شیخ محمد نامی پہاڑی سلسلہ" پر دشمن کے ساتھ جھڑپ کے دوران سر میں گولی لگنے سے جام شہادت نوش کیا۔

اس شہید کی پاک و پاکیزہ لاش کئی سالوں تک سرحدی علاقوں کی مہمان رہی یہاں تک کہ 8 جنوری 1993ء کو تحقیقاتی ٹیم کو "ماہوت" کے علاقے سے مل گئی اور تدفین کے بعد انہیں "شہداء باورس" کے مزار میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

شہید محمد تقی اسدی کا وصیت نامہ

"اے شہداء کو پرورش دینے والی قوم اور شہداء کے اہل خانہ! میں آپ سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات اور ان کی ہدایات پر عمل کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ ایران کی مسلمان قوم! امام حسین علیہ السلام دنیا میں ایک بار پھر ظاہر ہوئے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے یار و انصار بھی گویا دنیا میں ایک بار پھر ظاہر ہوئے ہیں۔ حقیقت میں یہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) آج کے زمانے کے امام حسین علیہ السلام ہیں"۔

طالب علم شہید محمد تقی اسدی اسلامی علوم میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور وہ ہمیشہ آیت اللہ جوادی آملی اور علامہ محمد تقی جعفری کی طرح بننا چاہتے تھےتاکہ اس طرح اسلام اور قرآن کی خدمت کر سکے تو آئیے سب مل کر امام حسین علیہ السلام کے لیے کوشش کریں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .