۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
شیخ محمد مرزا کربلائی

حوزہ / شیخ محمد مرزا کربلائی نے گمنامی میں شمع کا کردار ادا کیا اور سختیوں میں اپنے فرائض کو پورا کیا۔

تحریر: غلام محمد شاکری

حوزہ نیوز ایجنسی | شیخ محمد مرزا کربلائی کے سوانح حیات پر غلام محمد شاکری نے ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

اشارہ:

اسلام کے نگاہ میں سب سے زیادہ مقام شہداء کا مقام ہے اور شہداء کے لیے جو مرتبہ اور مقام ہے کسی اور کے لئے حاصل نہیں ہے جیساکہ پیغمبرِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں:

" فَوْقَ كُلِّ ذِي بِرٍّ بَرٌّ حَتَّى يُقْتَلَ اَلرَّجُلُ فِي سَبِيلِ اَللَّهِ فَإِذَا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اَللَّهِ فَلَيْسَ فَوْقَهُ بِرٌّ" یعنی "ہر نیکی کے اوپر ایک نیکی ہے یہاں تک کہ کوئی شخص راہ خدا میں مارا جائے اور جب وہ راہ خدا میں مارا جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی نیکی (اور اس سے بہتر کوئی عمل) نہیں ہے"۔ لیکن ان پاک ہستیوں سے ہی نقل ہوا ہے کہ "علماء کے قلم کے سیاہی شہداء کے خون سے افضل ہے"۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علماء کی ذمہ داری شہداء سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ اس لیے کہ شہداء اسلام کے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں لیکن علماء اسلامی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ یقینی بات ہے شہداء میدانوں میں جرأت مندانہ طور پر لڑتے ہیں اور جام شہادت نوش کرتے ہیں لیکن علماء جن سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے روز شہید ہوتے ہیں اور روز زندہ ہوتے ہیں منجملہ تہمت، الزامات، بہتان اور کیا کیا الزامات کی زد میں نہیں ہوتے ہیں پھر جاکے ایک سماج میں انقلاب برپا ہوتا ہے اور اسلامی اقدار کا بول بالا ہوتا ہے۔

شیخ محمد مرزا کربلائی نے گمنامی میں شمع کا کردار ادا کیا۔ اس مختصر تحریر میں ان کی سوانح حیات کا ایک مختصر جائزہ لیں گے:

پیدائش:

ضلع شگر کے خوبصورت وادی باشہ کے دیدہ زیب گاؤں سیسکو کے پر سکون بستی سجاد آباد (شونل) میں 1944ء کو پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم چھوترون کے دینی درسگاہ میں اخوند غلام محمد کے پاس تین سال تک پڑھنے کے بعد اپنے گاؤں شونل میں 6 سال تک دینی اور سماجی خدمات انجام دیتے رہے۔

سفر دانش:

6 سال گاؤں میں قیام کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آپ نے رخت سفر باندھا اور بارگاہ باب العلم کے قصد سے اپنی آبائی گاؤں کو چھوڑا۔ نجف اشرف میں مدرسہ مجاہدیان میں وقت کے نامور اساتذہ جیسے حجت الاسلام شیخ حبیب اللہ اور شیخ عبد الحسن بیضائی سے تین سال تک اپنی علمی تشنگی کو بجھاتے رہے۔ جب مدارج علمی میں کچھ ترقی ہوئی تو آپ مدرسہ فیضیہ منتقل ہوئے۔ وہاں پر وقت کے مشہور استاد مدرس افغانی سے کسب فیض کیا۔ پھر مختصر مدت کے لیے آپ کربلا چلے گئے۔ وہاں پر آپ نے اپنی تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا لیکن صدام حسین کے مظالم کی وجہ سے نہ صرف آپ بلکہ بہت سارے علماء عراق چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

آپ نے اپنے محلے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی اور مقام پر قیام کرنے کے بجائے سیدھا اپنے آبائی گاؤں کا رخ کیا۔ گاؤں میں پہنچنے کے بعد آپ نے چند اہم کام انجام دئیے۔ جس کا اجمالی ذکر پیش خدمت ہے:

آپ کی خدمات :

1: نجف اشرف سے تشریف لائے ہوئے سیسکو کے دیگر علماء کے تعاون سے تمام مذہبی پروگراموں کو نئی جہت دے دی خصوصاً ائمہ چھاردہ معصومین علیہم السلام کی ولادت اور وفات منانے کی سعادت کو سیسکو اور سیسکو کے مضافات کے گاؤں پر تقسم کیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان پروگراموں کے رونق دوبالا ہوگیا ان پروگراموں میں تبلیغ کے علاوہ علاقے کی مسائل کے حل و فصل کے لیے عملی اقدامات انجام دینے تھے اس تقسیم بندی کے تحت محلہ شونل کے مقدر میں امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم ولادت اور شہادت منانا ٹھہر ے اور ایک جلسہ عام میں اس بستی کا نام امام زین العابدین علیہ السلام کے نام سے مزین کرتے ہوئے سجاد آباد رکھا جو اج تک اسی نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔

2: امر بہ معروف کمیٹی کی تشکیل

موصوف نے اپنے گاؤں کے چند برجستہ افراد پر مشتمل امر معروف کمیٹی تشکیل دی۔ جس کے مقاصد درج ذیل تھے:

1: بے نمازی افراد کو نمازی بنانا

2: نماز جماعت کا قیام

3: گاؤں کے تمام مذہبی اور سماجی معاملات کی انجام دہی

4: ہر گھر کی برکت اور گھروں کے فضاء کو روحانی بنانے کے لیے ہر معصوم کی ولادت اور شہادت کی میزبانی ہر ایک گھر کے سپرد کرنا۔ اس کے علاوہ اس علاقے کے مذہبی آداب رسوم کے نگرانی اس کمیٹی کی ذمہ داری تھی۔ کمیٹی اخوند حاجی مراد (مرحوم)، اخوند حسین (مرحوم)، اخوند محمد علی (مرحوم)، حاجی علی نقی(مرحوم) اور عمران نمبردار (مرحوم) پر مشتمل تھی۔

راز و نیاز اور مناجات:

موصوف اپنی کردار اور زبان دونوں سے اس بستی میں رہنے والوں کو خدا کی طرف بلاتے رہے۔ آپ کو دعا اور مناجات کے ساتھ بےحد لگاو تھا ہر نماز کے بعد گھنٹوں گھنٹوں تعقبات میں مصروف رہتے تھے اور جب بھی ممبر پر تشریف لے جاتے تھے کم از کم آدھا گھنٹہ دعائیں مانگتے تھے اسی لگاو کی وجہ سے اللّٰہ نے ان کی دعاؤں میں عجیب تاثیر رکھی تھی اور ان دعاؤں کے نتیجے میں اس بستی کے رہنے والوں کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں محسوس تبدیلی رونما ہوئی۔ اسی وجہ سے آپ مستجاب الدعوہ کے طور پر جانے جاتے تھے۔

دعا سے علاج:

جہاں آپ ایک عالم تھے وہاں آپ حاذق طبیب بھی تھے۔ لوگ اپنے علاج معالجے کے لیے ہسپتال جانے کے بجائے آپ کے پاس آتے تھے۔ آپ ان کا دم اور دعا کے ذریعہ علاج کرتے تھے خصوصاً فالج کی بیماریوں کے لئے آپ اسپیشلسٹ سمجھا جاتا تھا آپ کہا کرتے تھے میری کوئی حیثیت نہیں ہے ان دعاؤں کی تاثیر ہے جس کی وجہ سے خدا شفا بخشتا ہے لہذا دعائے جوشن کبیر پڑھنے پر زیادہ تاکید کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے اس دعا میں اللّٰہ نے عجیب تاثیر رکھی ہے اس کا ورد کرنا خصوصاً فالج زدہ افراد کے لیے کیمیاء ہے اور یقین کریں اس دعا کو پڑھ کر بیمار کو دم کرنے سے بیمار پھر اسی حالت پر نہیں رہتی یا ٹھیک ہونا ہے یا اس دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے اور محال ہے دعا کے ورد کے دورانیہ تمام ہو اور بیمار اسی حالت پر برقرار رہے ۔

قصہ مختصر اس جلیل القدر عالم نے گمنامی اور سختیوں میں اپنے فرائض کو پورا کیا اور تقریباً 70 سال کے عمر میں روشنیوں کے شہر کراچی میں رمضان کے مقدس مہینے میں اس اہلبیت علیہم السلام کے خادم کا ستارہ غروب ہوا۔ عاشا سعیدا و مات سعیدا

آپ تمام سے گزارش ہے کہ ان کی بلندی درجات کے لیے ایک مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ لیجئے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .