تحریر: محمد جواد حبیب
شیعیان کشمیر
کشمیر شمال ہندوستان میں واقع ایک ریاست کا نام ہے جو تین حصوں پر مشتمل ہے ، جس کا ایک حصہ چین کی ملکیت میں ہے ، کچھ پاکستان اور کچھ حصہ بھارت کی ملکیت میں ہے اور یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازعہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس سرزمین کا نام ہمیشہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعات سے جڑا رہتا ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد یہ جاننا ہے کہ کشمیر میں شیعیت کی ابتدا کیسے ہوئی۔ اس بارے میں غور فکر کرنے سے ہمیں یہ نتیجہ ملتا ہے کہ سید محمد مدنی ، سید حسین رضوی ، ملا عالم انصاری اور میرشام الدین عراقی جیسے مذہبی اسکالرز نے کشمیر میں شیعیت کی ترقی میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔( یہ مضمون فارسی زبان میں شفقنا سایٹ پر موجود ہے جسکا ترجمہ حقیر نے کرنے کی کوشش کی ہے)
شیعہ مذہب جو کہ تاریخی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں موجود تھا ، حالانکہ تاریخ اسلام کی پہلی صدیوں میں جبر اور بیگانگی کا شکار ہوا لیکن الحمد اللہ ، آج دنیا کے مختلف ممالک میں وسیع پیمانے پر یہ مذہب موجود ہے۔ ایشیا کے وسیع براعظم کے مختلف ممالک میں شیعوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے ، جن میں ایران اور عراق جیسے ممالک کا حصہ دوسرے ممالک سے زیادہ ہے۔
سرزمین کشمیر دور دراز مقامات میں سے ایک تھی جہاں کے لوگ صوفی ازم ، روحانیت و معنویات کی طرف بہت زیادہ مائل تھے ، لیکن ابھی یہ علاقہ علوم الہی فیضیاب نہیں ہوا تھا زمانہ گزرتا رہا ایک وقت وہ آیا کہ اس سرزمین کے باشندوں نے علوم الہی کی تلاش شروع کردی، انکے جدوجہد کی بدولت کچھ علماء ، و طلاب اور دانشمند شیعہ مذہب کی تعلیمات سے آگاہ ہوئے اور اس مذہب کی تبلیغ کرنا شروع کردیے جس کے بنا پر وہاں بہت سے لوگ اس مذہب کی جانب مائل ہوئے اور شیعہ بنتے چلے گئے یہاں تک کہ وہاں کے ہرمسجد میں شیعہ اماموں کے نام سے خطبہ دیا جانے لگا۔
کشمیر میں اسلام اور شیعہ کی آمد
کشمیر ایک ایسی جگہ تھی جہاں ہندو مولوی (برہمن) کے نام سے جانا جاتا ہے - قدیم زمانے سے وہ لوگ عبادت اور ریاضت کے لیے جانےجاتے تھے۔تاریخی ذرائع سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پہلی انسانی نسلیں کشمیر میں انہی ہندو برہمنوں نے تخلیق کی ہے ۔
اس ریاضت اور رہبانیت کے اثرات کشمیری عوام میں پھیل چکے تھے۔ لہٰذا برہمن ہمیشہ کشمیر کے عوام کے درمیان ایک خاص مقام اور مرتبہ رکھتے تھے۔ اور کشمیری حکمرانوں نے بھی ہمیشہ انہیں مطمئن رکھنے کی کوشش کی ۔کشمیر کے لوگ اس ریاضیت اور رہبانیت کو پسند کرتے تھے جسکو ہم اسلام میں تصوف کہہ سکتے ہیں اور وہ لوگ برہمنوں سے بے پناہ محبت بھی کرتے تھے۔
تاہم ، سید شرف الدین موسوی کے ذریعہ" رنچن شاہ "کے اسلام قبول کرنے کے بعد ، کشمیر میں ہندو مذہب ختم کر دیا گیا۔ لیکن اس ریاضت اور رہبانیت کے اثرات لوگوں میں باقی رہے ، چنانچہ جب ایران (ہمدان) سے ایک مبلغ اسلام میرسید علی ہمدانی کشمیر آیا تو اس نے بھی تصوف میں اسلام کی تبلیغ شروع کی ، جس سے کشمیری واقف اور مانوس تھے۔ لہذا انکی پیروی کرتے چلے گئے ۔
شیعہ مورخین اور دانشوروں کے مطابق کشمیر میں تشیع کی اتنی ہی تاریخ قدیمی ہے جتنی کہ اس سرزمین میں اسلام کی آمد قدیمی ہے۔تاہم ، شیعوں کی تاریخ نویسی کی کمی کی وجہ سے ، مزید معلومات دستیاب نہیں ہیں ، جس کی وجہ سے سنیوں نے شیعوں سے پہلے شیعہ مبلغیں جیسے سید شرف الدین موسوی ، سید علی ہمدانی اور سید محمد ہمدانی کو اپنے مذہب اور عقائد سے منسوب کیا۔ در حالیکہ حقیقت کچھ اور ہے جس کو وہاں کے دانشمند بہتر جانتے ہیں ۔
کشمیر میں پہلے شیعہ مبلغین و مروجین
سید محمد مدنی
سید محمد مدنی مدینہ طیبہ کے رہنے والے تھے ، اسی وجہ سے انہیں مدنی کہا جاتا تھا ، وہ سکندر کے دور میں پہلی بار 796 ھ میں کشمیر میں داخل ہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد ، ماوراء النهر کی طرف کسی کام سے چلےگے ، اور جب وہ واپس آےتو وہ اپنے خاندان کو بھی کشمیر لے آے اور رہنے کے لیے" بنگل مالمو پرگنیہ" علاقے کا انتخاب کیا۔ انہوں نے شیعہ مذہب کی تبلیغ کے لیے بڑی کوششیں کی اور شیعوں کی ایک بڑی تعداد کی رہنمائی کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ دینی علوم کے علاوہ ، روحانی اور صوفیانہ کمالات سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ جب سلطان سکندر ، آپ کے علمی قابلیت اور روحانی اور صوفیانہ کمالات سے آگاہ ہوا تو اس نے سید محمد سے کہا کہ وہ اس کے قریب رہے۔ نوشہر میں اپنے محل کے قریب ، سرینگر میں سید محمد مدنی کے لیے ایک عمارت بنائی اور آپ کے گاہکوں اور نوکروں کے لیے خانقاہ کے نام سے عبادت گاہ بھی تعمیر کروایا۔
آپ اس وقت کے کشمیر کے بااثر علماء میں سے ایک سمجھے جاتے تھے اور سلطان سکندر ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ سید محمد نے 849 ھ میں سری نگر میں دار فانی کو الوداع کہا اور مدین صاحب میں دفن ہوئے ، جہاں وہ آج بھی اپنے مزار کی وجہ سے "مدین صاحب" کے نام سے مشہور ہیں۔ سلطان زین العابدین نے آپ کے مرقد پر ایک زیارت گاہ بنایا۔ اس نے اس مزار کے ساتھ ایک مسجد اور حمام بھی بنایا اور آج کشمیر کے تمام لوگ دور دراز سے اس کے مزار کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور علی مردان اور اس کے بیٹے ابراہیم خان نے اپنے دور حکومت میں اس زیارت گاہ کو دوبارہ تعمیر کیا تھا۔
سید حسین رضوی قمی
کشمیر میں دوسرا شیعہ مبلغ سید حسین قمی تھا ، جس نے کشمیر کا سفر کیا آپ 821 ھ میں موجودہ پاکستان کے راستے سے کشمیر میں داخل ہوئے اورآپ نے«احچه بل» سوپور میں سکونت اختیار کیا۔
آپ اپنے آباؤ اجداد کی طرح علم اور معنویات میں عظیم مقام پر فائز تھے ، اس بنا پر سلطان زین العابدین آپ سے محبت کرنے لگا اور آپ کے علم سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سلطان زین العابدین نے پرگنہ سوپور کشمیر میں «باغ زینه گیر» سید قمی کو بطور تحفہ پیش کیا۔ تقریبا 50 سال تک آپ نے اسلام کی تبلیغ کی اور اہل بیت (علیہم السلام) کے مذہب کو کشمیر ، کرگل ،لیہ ، لداخ اور تبت میں پھیلایا۔ سید حسین قمی نے دینی علوم اور اخلاقیات کے علاوہ کشمیر میں بہت سی کرمات بھی دکھائی۔ سلطان کو سیدقمی سے بہت محبت تھی اسی کی وجہ سے ان کے تشیع جنازے اور تدفین میں شرکت کی اور ان کے مقبرے پر ایک عمارت بنائی جو کہ اب اہل بیت (ع) کے لاکھوں عاشقوں کے لئے زیارت گاہ ہے۔
ان کے دو بیٹے تھے جن کا نام حاجی محمد سعید اور آغا سید احمد تھا۔ یہاں سے حاجی محمد سعید ،احمد پورہ ما گام جو سری نگر سے 30 کلومیٹر مغرب کشمیر میں واقع ہے کوچ کر گیا اور وہیں ان کا انتقال بھی ہوا اور ان کے مزار پر آج بھی لوگ اپنی حاجات مانگتے نظر آتے ہیں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں خاص اور عام انکے ،مرقد پر آتےہیں۔ اور سادات احمد پور جناب حاجی محمد سعید کی نسل سے ہیں۔
شمس العلماء مولانا سید علی حایری مجتہد العصر بھی ، جناب حاجی محمد سعید کی اولاد میں سے تھے اور پنجاب میں رہتے تھے۔ آقاسید احمد کی اولاد میں سے 20 ویں صدی عیسوی میں سید حسین رضوی نامی ایک ممتاز شخصیت ابھری۔ آپ ۱۹۳۳ میں بکرمی علاقے میں متولد ہوئے آپ ممتاز شخصیت کے مالک تھے اسی بنا پر حکومت میں جو عہدہ آپ کا تھا وہ کسی اور کے پاس نہیں تھا۔ اور آپ پہلے مسلمان ہیں جو عربی اور فارسی علوم کے علاوہ مروجہ علوم بھی جانتےتھے اور صرف 25 سال کی عمر میں وہاں کے نائب وزیر داخلہ بنے۔
سید حسین قمی کے خاندان ، سادات رضوی سے معروف ہے انکی خاندان نے پوری تاریخ میں عظیم علماء کی پرورش کی ہے جنہوں نے کشمیر اور دنیا کے دیگر حصوں میں مذہب اسلام اور مذہب اہل بیت علیھم السلام کی تبلیغ کی ہے۔ جن میں آیت اللہ سید مرتضیٰ کشمیری علم الہدی، آیت اللہ سید عبدالکریم کشمیری ، آیت اللہ سید احمد کشمیری ، آیت اللہ سید عبدالرسول ، حجت الاسلام سید حسن رضوی اور حجت الاسلام سید صادق حسین رضوی کا نام لیا جاسکتا ہے یہ سارے سادات رضوی انہی کے خاندان میں سے تھے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کے دوران سادات رضوی خاندان کے لوگ بھی کشمیر میں امام خمینی کی تحریک کا شدید حامی تھے۔
ملا عالم انصاری
جب سید حسین قمی کشمیر پہنچے تو ان کے بہت سے دوست اور ساتھی بھی کشمیر میں تبلیغ کرتے تھے۔ان کے ایک ساتھی ملا عالم انصاری تھے۔ وہ اور سیدحسین 821 ہجری میں کشمیر میں داخل ہوئے اور سید حسین کے قریب زینه گیر کے قریب "علاقہ پور" نامی گاؤں میں آباد ہوئے جہاں سید حسین قمی بھی رہتے تھے۔
ملا عالم انصاری کے کردار ، اخلاق اور کوششوں کی وجہ سے اس خطے میں شیعہ پھیل گیا۔ سلطان زین العابدین ، کیونکہ وہ علم اور علماء کو پسند کرتا تھا ، ملا عالم انصاری کی کمالات ، علم اور روحانیت سے متاثر ہوگیا تھا ۔مذہبی علماء بالخصوص سید حسین قمی اور ملا عالم انصاری سے زین العابدین کو بہت محبت تھی انکی یہ الفت اور ارادت شیعہ مذہب کی تبلیغ اور ترویج میں بہت کارگر ثابت ہوئی تھی۔ ملا عالم انصاری 894 ھ میں براتہ کے علاقے میں فوت ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔
اس گاؤں اور دیگر پڑوسی دیہاتوں میں ، پوری آبادی شیعہ اثنا عشری کی تھی۔ تاہم ، 1289 ہجری مطابق 1872 عیسوی میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان شدید تنازعہ ہوا ، جس کے نتیجے میں اس علاقے کے لوگ ، جو دوسرے شیعہ علاقوں سے دور تھے ، عزت اور آبر و ، جان و مال کی حفاظت کے لئےاپنے مذہب کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے اور سنی جارحیت کے مقابلہ میں ناکام رہے اس لیے اب اس خطے کی پوری آبادی سنی ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔