۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
درگذشت رهبر حزب حریت کشمیر

حوزہ/ کشمیر کے سب سے بڑے علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی بیانوے سال کی عمر میں بدھ کی رات سرینگر میں واقع انکی رہائش گاہ میں انتقال کرگئے ہیں۔ ان کے فرزند سید نسیم گیلانی نے سوشل میڈیا پر انکے انتقال کی تصدیق کی۔گیلانی کم و بیش پچاس سال تک کشمیر کی سیاست میں سرگرم رہے۔ انہوں نے چند ماہ قبل حریت کانفرنس سے کنارہ کشی اختیار کی تھی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سرینگر/کشمیر کے سب سے بڑے علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی بیانوے سال کی عمر میں بدھ کی رات سرینگر میں واقع انکی رہائش گاہ میں انتقال کرگئے ہیں۔ ان کے فرزند سید نسیم گیلانی نے سوشل میڈیا پر انکے انتقال کی تصدیق کی۔گیلانی کم و بیش پچاس سال تک کشمیر کی سیاست میں سرگرم رہے۔ انہوں نے چند ماہ قبل حریت کانفرنس سے کنارہ کشی اختیار کی تھی۔

اپنے طویل سیاسی کیریر کے دوران سید علی گیلانی، کم از کم پندرہ سال تک جماعت اسلامی اور مسلم متحدہ محاذ کی طرف سے جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے لیکن 1989 میں ہندوستان مخالف شورش پیدا ہونے کے بعد انہوں نے الیکشن سیاست کو خیرباد کہا اور ایک علیحدگی پسند لیڈر کی حیثیت سے مرکزی رول ادا کیا۔

کشمیر کے سب سے بڑے علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کو دو ستمبر صبح صادق سے پہلے حیدرپورہ جامع مسجد کے احاطے میں سُپرد خاک کیا گیا۔

اس موقع پر گیلانی کے دو فرزندوں ڈاکٹر نعیم گیلانی اور سید نسیم گیلانی کے علاوہ کم و بیش 50 افراد موجود تھے۔

جامع مسجد اور گیلانی کی رہائش گاہ کے ارد گرد سینکڑوں پولیس اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا تھا، جنہوں نے میت کی فوری تدفین کرائی۔

معلوم ہوا ہے کہ گیلانی کی میت کو لحد میں اتارنے وقت اور اس کے بعد نعرے بلند کئے گئے۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں نے پورے سرینگر شہر کو حفاظتی حصار میں لیا ہے۔

حیدرپورہ کی طرف جانے والے تمام راستوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔ شہر اور وادی کے متعدد دیگر علاقوں میں موبائل اور براڈ بینڈ انٹرنیٹ بند کیا گیا ہے۔

کشمیر کے سب سے بڑے علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی 

ستمبر 1929 کی 29 تاریخ کو شمالی قصبہ سوپور کے نزدیک ذورمنز گاؤں میں پیدا ہوئے گیلانی کو کشمیری علیحدگی پسند خیمے کا سب سے سخت گیر لیڈر تصور کیا جاتا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ گیلانی کی موت سے کشمیر کی علیحدگی پسند تحریک ایک سخت ترین دھچکے کا شکار ہوگئی ہے۔ یہ خیمہ 5 اگست 2019 سے حکومت کی سخت ترین کارروائیوں کے نتیجے میں پہلے ہی درہم برہم ہوچکا ہے۔

گیلانی کو حکام نے گزشتہ 13 سال کے دوران اپنی رہائش گاہ میں نظر بند رکھا تھا۔ انہیں عمر عبداللہ کے دور حکومت میں 2010 مں اسوقت نظر بند کیا گیا تھا جب انکی قیادت میں ایک فرضی تصادم میں چار کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت کے خلاف کشمیر میں ایک عوامی احتجاج ہوا تھا جس میں درجنوں لوگ مارے گئے۔

اگرچہ 2015 میں مفتی محمد سعید کے دور اقتدار میں انہیں چند ہفتوں کیلئے گھر سے باہر نکلنے دیا گیا تھا لیکن ایک عوامی جلسے میں ہند مخالف نعرے بازی کے بعد انہیں دوبارہ نظر بند کیا گیا جس کا سلسلہ انکی موت تک جاری رہا۔ بعض اوقات انہیں میڈیکل چیک اپ کیلئے انتہائی سیکیورٹی نگہداشت میں سرینگر کے ایک اعلیٰ اسپتال میں منتقل کیا جاتا تھا۔

گیلانی بیک وقت کئی عارضوں میں مبتلا تھے۔ انکا ایک گردہ کینسر کی وجہ سے نکالا گیا تھا جبکہ انکے دل کی کئی بار سرجری ہوئی تھی۔ انکے قریبی ذرائع کے مطابق گزشتہ دو برسوں سے انکی یادداشت بھی چلی گئی تھی۔

گیلانی و سیاست 

گیلانی ایک شعلہ بیان مقرر ، دینی عالم اور ماہر اقبالیات تھے۔ انکے سیاسی حریفوں کو بھی انکے فن خطابت کا اعتراف تھا۔ وہ ہمیشہ علیحدگی پسند نہیں تھے بلکہ انہوں نے ماضی میں جماعت اسلامی کی ٹکٹ پر متعدد بار اسمبلی انتخاب لڑا اور 15 سال تک اسمبلی میں سوپور حلقے کی نمائندگی کی۔

گیلانی نے اپنی سیاست کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا ۔ جماعت اسلامی پر اسوقت پابندی عائد ہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی سے 2003 میں علیحدگی اختیار کی تھی اور تحریک حریت کے نام سے اپنی الگ جماعت قائم کی تھی جس کے ارکان بیشتر طور جماعت اسلامی سے وابستہ رہے تھے۔ انکے قریبی ساتھی اور جانشین محمد اشرف صحرائی بھی اسی سال ادھم پور کی جیل میں دوران حراست انتقال کرگئے۔ انتقال سے قبل انہیں حکام نے نازک حالت میں جموں کے ایک اسپتال میں منتقل کیا تھا۔

سید علی گیلانی، کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی تھے ۔ انہوں نے حکومت ہند کے ساتھ بات چیت کیلئے کبھی ہاتھ نہیں بڑھایا کیونکہ وہ پہلے یہ گارنٹی چاہتے تھے کہ حکومت ہند کشمیر کو ایک بین الاقوامی تنازع تسلیم کرے۔ سنہ2003 میں جب حریت کانفرنس کے اعتدال پسند دھڑے نے مولانا عباس انصاری کی قیادت میں اٹل بہاری واجپئی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے ساتھ مزاکرات کئے تو سید علی گیلانی نے انکی مخالفت کی۔ ان مزاکرات کو اسوقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کی حمایت بھی حاصل تھی۔ گیلانی نے کشمیر حل کیلئے جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولہ کو بھی مسترد کیا۔

گیلانی نے 2002 کے اسمبلی انتخابات میں پیوپلز کانفرنس کی جانب سے درپردہ امیدوار کھڑے کئے جانے کے ردعمل میں حریت کانفرنس سے علیحدگی اختیار کی اور بعد میں اسکے ایک دھڑے کے سربراہ بن گئے۔

گیلانی کو اسوقت بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب انہوں نے 2016 میں دلی سے آئے ہوئے ایک پارلیمانی وفد کیلئے اپنی رہائش گاہ کے دروازے بند کئے۔ یہ پارلیمانی وفد اسوقت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی قیادت میں سرینگر وارد ہوا تھا جہاں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کہ ہلاکت کے بعد صورتحال قابو سے باہر ہوگئی تھی۔ گوکہ راجناتھ سنگھ نے گیلانی کے گھر پر جانے والے وفد کو سرکاری سند دینے سے انکار کیا تھا لیکن انکے لئے دروازے بند کرنے کے عمل کو اس بات سے تعبیر کیا گیا کہ گیلانی صلح جوئی میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔

حکومت نے کئی بار گیلانی کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے نوٹس جاری کئے جبکہ انکے فرزندوں کو پوچھ تاچھ کیلئے دلی طلب کیا گیا۔ انکے فرزند نسبتی الطاف احمد شاہ کو حکام نے 2017 میں علیحدگی پسندوں کے خلاف ایک وسیع کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا ۔ ٹیرر فنڈنگ کیس میں ملوث ہونے کی پاداش میں الطاف شاہ تب سے دلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .