حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کی دارالحکومت دہلی کے کشمیری دروازے کے قریب واقع شیعہ جامع مسجد اپنے اندر تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ اس مسجد کی تعمیر 1857 سے قبل مغلیہ سلطنت کے وزیر خزانہ حامد علی خان نے کرائی تھی جس کا ذکر مرزا اسد اللہ خان غالب نے اپنے خطوط میں بھی کیا ہے۔
ایک دور تھا جب کشمیری گیٹ علاقہ مذہب شیعہ کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا جس کے نقوش آج بھی کشمیری گیٹ کی تنگ گلیوں میں موجود ہیں۔ البتہ تقسیم ہند کے دوران کشمیری دروازہ بری طرح متاثر ہوا جو شیعہ حضرات یہاں رہائش پذیر تھے وہ اس علاقے کو چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہوگئے۔
موجودہ حالات کی بات کی جائے تو یہ علاقہ اب رہائشی نہیں رہا بلکہ یہ تجارتی علاقے میں تبدیل ہوچکا ہے اور جو کچھ لوگ یہاں رہائش پذیر ہیں ان میں شیعہ حضرات کی تعداد چند لوگوں تک ہی سمٹ کر رہ گئی ہے۔
شیعہ جامع مسجد کے امام مولانا محسن تقوی نے بتایا کہ تقسیم ہند کے دوران اس مسجد پر بھی مہاجرین نے قبضہ کرلیا تھا تاہم انجمن شیعیت الصفا نے مسجد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کی جس کے بعد اس مسجد کو آزاد کرایا گیا۔
یہ مسجد انڈو اسلامک طرز تعمیر کا ایک نمونہ ہے، جس میں دو مینار اور 3 گنبد بھی شامل ہیں۔ موجودہ امام مولانا محسن تقوی کے دادا مولانا صغیر حسن تقوی بھی اس مسجد کی بازیابی میں پیش پیش رہے۔