۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
آغا حسن الموسوی الصفوی

حوزہ/ یہ خونین سانحہ کشمیری عوام کی سیاسی جدوجہد کا ایک سنگ میل ہے جس نے کشمیری قوم کو شخصی آمریت کے خاتمے کے لئے ایک منظم تحریک کا حوصلہ دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،13جولائی 1931 کے شہداے کشمیر کو انکی برسی پر شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انجمن شرعی شیعیان کے صدر حجت الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے کہا کہ یہ خونین سانحہ کشمیری عوام کی سیاسی جدوجہد کا ایک سنگ میل ہے جس نے کشمیری قوم کو شخصی آمریت کے خاتمے کے لئے ایک منظم تحریک کا حوصلہ دیا۔

آغا صاحب نے کہا کہ سینٹرل جیل سرینگر سے باہر دو درجن سے زیادہ کشمیریوں کی ڈوگرہ فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کا واقعہ شخصی آمریت کے ظلم و استبداد کی ایک وحشیانہ کڑی تھی اسی خونین سانحہ کے بعد جمہوری اسلاجات کی تحریک زور و شور سے چلی ڈوگرہ شاہی اگرچہ کچھ جمہوری اسلاجات کے لئے مجبور ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیری قوم کو عملاً ہمیشہ جمہوری حقوق سے محروم رکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈوگرہ شاہی نے جاتے جاتے ریاست جموں و کشمیر کو سیاسی غیر یقینیت کے دلدل میں دھکیل دیا جس کی وجہ سے تنازعہ کشمیر نےجنم لیا اس طرح 13 جولائی 1931کے ان شہدائے کشمیر کا مشن تشنہ تکمیل رہا جس کو منتفی انجام تک لے جانے کے لئے کشمیری قوم سات دہایوں سے مصروف جدو جہد ہیں۔

آغا صاحب نے کہا کہ 13جولائی یوم شہداے کشمیر والے تعطیل کو منسوخ کرنا مذکورہ شہدا کی قربانیوں کی توہین ہیں اور اس خونین سانحہ کے ذمہ دار نظام سے یکجہتی کے مظاہرے کے مترادب ہے ۔

واضح رہے کہ 13جولائی 1931 کشمیری قوم کی سیاسی جدوجہد کا ایک اہم سنگ میل ہے جب کشمیری عوام نے ڈوگرہ شاہی کے جبر و تسلط سے کے خلاف میدان عمل کا رخ کیا سینٹرل جیل سرینگر سے باہر 22 نہتے کشمیریوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جبکہ یہ لوگ ایک نوجوان عبدالقدیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جمع ہوئے تھے اور انکی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے مذکورہ نوجوان کو نظریہ جمہوریت کے حق میں تقریر کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا۔

سیاق و سباق اور اسباب و عوامل کی بنا پر 13 جولائی 1931 کے شہدا کی قربانیوں کا ہدف ڈوگرہ شاہی کے مظالم کے خاتمے کے ساتھ ساتھ نظریہ جمہوریت کی تائید و حمایت تھی ان شہدا کی قربانیوں کے طفیل اگرچہ ریاست کو شخصی آمریت سے نجات حاصل ہوئی لیکن اس آمریت نے جاتے جاتے ریاست کو سیاسی غیر یقینیت کے دلدل میں دھکیلا اور تنازعہ کشمیر نے جنم لیا۔

تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے جایا گیا جہاں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کاوعدہ کیا گیا لیکن آج تک یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا بلکہ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو توڑنے کے لئے تمام جابرانہ حربے آزمائے گئے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اقدامات ان جابرانہ حربوں کی ایک جارحانہ کڑی ہے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ان یکطرفہ اقدامات سے مسلہ کشمیر کی متنازعہ حثیت تبدیل نہیں ہو سکتی  اور اس کا واحد حل ہند و پاک مذاکرات میں ہی مضمر ہے

تبصرہ ارسال

You are replying to: .