حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد مقاومت شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی 26ویں برسی کے موقع پر امام جمعہ نیویارک حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی نے کہا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنے متقی و پرہیزگار عالم باعمل باپ علامہ سید امیر حسین نقوی نجفی مرحوم مبلغ افریقہ اور اپنے پھوپھا ابوذر زمان علامہ سید صفدر حسین نجفی کی سرپرستی میں پرورش پائی تھی۔ اسی لئے ان.میں شب زندہ داری، سادگی، تواضع، اخلاص، للہیت، انقلابیت، قربت تحرک،تدین، تزکیہ، جذبہ ایثار، تنظیم سازی، تبلیغ و ترسیل۔ جرآت و ہمت اور ترک دنیا و یاد آخرت کے عناصر نہ فقط موجود تھے بلکہ بام عروج پر تھے۔ میری انکے چھوٹے بھائی سید محمد عباس نقوی سے دوستی تھی اور انکے سارے خاندان سے گھریلو تعلقات ہیں ۔میں محمد عباس کا ہم سن بھی تھا۔ ڈاکٹر صاحب ، بزرگوارم علامہ بختیار الحسن سبزواری آف ساہیوال، وکیل محمد زیدی آف ساہیوال ،آیت اللہ سید حسین مرتضی آف لاہور، محمد ناصر آف فیصل آباد، شیخ نور آف لاہور ،کاظم ملک آف سرگودھا کے ہم عمر تھے۔ ڈاکٹر نقوی ایک فزیشئین کے ساتھ ساتھ ایک استاد روحانی و معلم اخلاق بھی تھے۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔
مولانا موصوف نے کہا کہ آپ کو اللہ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ آپ اس قدر خوش اخلاق اور ہنس مکھ تھے کہ ایک ملاقات ہی میں اگلے کو موہ لیتے آپ کی وحدت اسلامی کیلئے کوششیں بڑی مفید ثابت ہوئیں۔ آپکی شہادت کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ اور دشمن اس مغز انقلاب کو جان چکا تھا۔ جو کام شہید نے کیا وہ بڑے ادارے نہ کرسکے۔ یہ انکی خداداد صلاحیتوں کا ثمر تھا۔
انہوں نے کہا کہ آپ تحریک جعفریہ کیلئے ریڑھ کی ہڈی، آئی ایس او، آئی او، امامیہ پبلیکیشن کے بانی۔ سفیر و امین انقلاب، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے دست راست، نئے پروفیشنلز کے مربّی اور ہر دلعزیز قائدانہ صلاحیتوں کے مالک مگر مرنجا مرنج چھپے ہوئے ہیرے کی مانند تھے۔
مزید کہا کہ آپ دیانتداری، امانت داری، رازداری اور پردہ پوشی کی معراج پر فائز تھے۔ افضل الزہد اخفاء الزہد کی منزل پر میں نے انہیں فائز دیکھا۔ میری انکی ملاقاتیں العارف میں برادرم سید قیصر عباس بخاری کے دولت خانہ پر، دفتر تحریک، بر مکان سید ثناء الحق ترمذی، انکی اپنی رہائش گاہ اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں ہوتی رہیں۔ جب علامہ افتخار حسین نقوی جھنگ کی سیٹ سے الیکشن لڑ رہے تھے تو میں بھی اپنی ذاتی گاڑی سے کنویسنگ کیلئے سید ثناء الحق ترمذی مرحوم ایڈو کیٹ کے ڈیرے پر موجود رہا اور مشغول خدمت تھا۔ وہاں اتفاق سے میں اور ڈاکٹر صاحب رومیٹ ہو گئے تھے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دن بھر کی خستگی کے باوجود انہوں نے نماز شب میں دیر کی ہو۔
امام جمعہ نیویارک نے بتایا کہ وہ بیس گھنٹے کام کر کے بھی تھکتے نہ تھے۔ انکے ہاتھ میں چھوٹا سا قرآن ہوتا وہ پڑھتے رہتے اور تسبیح رولتے اور ورد کرتے رہتے تھے۔ بہت کم خوراک تھے۔ دستر خوان پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔ متبسم تھے۔ ہر وقت مسکراتے رہتے۔ غصہ نہیں کرتے تھے۔ ایک دفعہ انکے گھر لاہور ملنے گئے تو کھانا کھلائے بغیر اٹھنے نہیں دیا بہت مہمان نواز تھے۔ بڑے بڑے مذہبی کنوینشنز اور مظاہروں بشمول بھکر ، اسلام آباد ، لاہور وغیرہ میں انہیں اسکرین پرچنہیں دیکھا وہ پیچھے رہ کر بیہائنڈ دی اسکرین رہ کر کام کرتے تھے۔ جتنا اکثر لیڈروں کو شو آف کا شوق ہوتا ہے اتنا ہی انہیں اخفاء کا شوق تھا۔ وہ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو جب درس دییتے تھے تو کرسی پر نہ بیٹھتے تھے تاکہ انکساری ملحوظ خاطر رہے۔ وہ چھوٹے بڑے کو آپ سے پکارتے۔
ایک سال میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں رمضان پڑھا رہا تھا تو وہ مہینے میں کئی بار ہاسٹل آئے ۔ طلبہ کو درس دیتے وقت کہتے مولانا آپ آرام کریں میں دوستوں سے کچھ تنظیمی گفتگو کرنا چاہتا ہوں وہ درس کو درس نہ کہتے تھے۔ اور یہ بھی کہ مجھے محسوس نہ ہو طلاب سیے کہنا مولانا کے قیام و طعام کا خیال رکھنا۔ آج وہ طلبہ ڈاکٹر اعجاز لنگاہ آف ملتان ، ڈاکٹر محمد رشید آف بہاولپور اور ڈاکٹر اسد نقوی آف ڈیرہ غازی خان وغیرہ بڑے فزیشئینز میں ہیں جو اس وقت طالب علم تھے۔ جامعت المنتظر لاہور میں کئی سال میں نے آئی ایس اور کے کنوینشنز اٹینڈ کیے ۔ ثاقب نقوی اورشبیر سبزواری کے ادوار تھے۔ کیا سہانا دور تھا کیا محبتیں تھیں ۔ کیا خلوص تھا اور کیا یادیں تھیں۔
ڈاکٹر نقوی علامہ سید ساجد علی نقوی کے بھی ہراول دستے میں شامل رہے۔ ڈاکٹر نقوی کی سیاسی ویژن سے ہمارے علماء و زعماء ایوانوں میں پہنچ پائے۔ آپکی ہی کی صوابدید آپ کی کی صاحبزادی پنجاب سمبلی کی رکن ہیں۔
آخر میں کہا کہ ڈاکٹر نقوی کو اللہ نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ یہ گوہر نایاب جلد ہم سے چھن گیا۔ خدا برا کرے تکفیریوں کا جنہوں نے چن چن کر ہمارے ٹیلینٹ کو مارا ہے۔ اللہ شہید ڈاکٹر نقوی اور تمام شہدائے ملت جعفریہ کے درجات متعالی فرمائے اور ہم سب کو شہید کے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔