۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
مظفر علی کرمانی

حوزہ/ آپ نے جس طرح زندگی میں امام خمینیؒ کے افکار کو عام کیا اس طرح ان کی رحلت کے بعد اس سلسلہ کو جاری رکھا، منبروں سے انقلاب اسلامی کیخلاف ہونیوالے پروپیگنڈہ کوناکام بنایا، اور انقلاب کے مخالفین کی منبروں تک رسائی ناممکن بنائی۔

حوزہ نیوز ایجنسی। مظفر علی کرمانی 1960ء میں کراچی کے ایک قدیمی علاقے کھارادرمیں پیداہوئے کھارادرکو جہاں بانی پاکستان کی جائے ولادت ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہیں اسے یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہاں پیدا ہونے والے ایک نوجوان نے پاکستان کی مذہبی تاریخ میں قائدانہ کردار ادا کیا ،مظفر کرمانی کا بچپن بھی ملک کے دیگربچوں کی طرح روایتی انداز میں گزرا لیکن مذہبی گھرانہ میں پیدائش کے سبب ان کے اندرمذہبی رجحانات بچپن سے ہی محسوس کئے جاسکتے تھے اس وقت جبکہ بچے کھیل کودمیں اپنا وقت صرف کرتے ہیں آپ نماز و دیگر عبادات کی جانب مائل رہتے تھے، زمانہ طالب علمی میں آپ کے حسن اخلاق کے سبب طلباء اساتذہ آپ کو بے حد پسندکرتے تھے، وہ انتہائی ہنس مکھ اور پر مزاح شخصیت کے حامل تھے۔ اس لئے زمانہ طالب علمی میں ان کے دوستوں کی تعداد لا محدودہے، مذہبی رجحان کے ساتھ ساتھ آپ کو عزاداری کا بھی بہت شوق تھا، اسکول کے زمانہ میں دوستوں کو جمع کرکے مجلس وماتم برپا کیا کرتے تھے، اسکول کا زمانہ گزار کرجب آپ نے عالم شباب میں قدم رکھا تواس وقت تک آپ کے مذہبی رجحانات مزید پختہ ہوچکے تھے۔

انقلاب اسلامی سے وابستگی

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب پڑوسی ملک ایران میں انقلاب کروٹیں لے رہا تھا، لیکن پاکستان میں لوگ اس سے آگاہ نہیں تھے تاہم مظفرکرمانی اس انقلاب کو اپنے اندرمحسوس کررہے تھے، انہوں نے کسی معصوم کے سچے پیروکار کی طرح امام خمینیؒ کے افکار اور نظریات کی پختگی سے انہوں نے اسلام کو سمجھا ۔

شھید مظفر علی کرمانی انقلاب سے قبل امام امت امام راحل کے مقلد تھے ۔ مظفر کرمانی کے عشق کایہ عالم تھا کہ وہ امام خمینیؒ کے ہر حرف کو حرف آخرسمجھتے تھے،اس زمانہ میں امام خمینیؒ کی معرفت بہت کم افراد کو تھی مگرمظفر کرمانی نے خودکو امام خمینیؒ کی ذات میں گم کردیاتھا،

آپ نے خط امام پرچلنے اور ولایت سے مربوط ہونے کو تشیع کی نجات کا ذریعہ قراردیا

ادھر ایران میں امام خمینیؒ کی تحریک خوب پروان چڑھ رہی تھی اور ادھر پاکستان میں امریکی سازشیں عروج پرتھیں امریکہ ایران میں شہنشاہیت برقرار رکھنے کیلئے بری طرح ہاتھ پاؤں مار رہا تھا، اس نے ایران میں انقلاب کے قدموں کی آہٹ محسوس کرلی تھی وہ چاہتاتھا کہ پڑوسی ممالک اس افتادسے محفوظ رہیں اسی لئے پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر فوجی آمرضیاء الحق کو اقتدار پر براجمان کرادیا گیا اب پاکستان میں امام خمینیؒ کی حمایت میں کسی بھی تحریک کوروکنے کیلئے انتظامیہ کو فری ہنڈ مل گیا لیکن کراچی میں لوگوں کواس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑاجب 13رجب کے جلوس میں ایک جوان نے اچانک رضاشاہ پہلوی مردہ باد اور شہنشاہ ایران مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کرادیئے یقینا یہ کام کسی عام نوجوان کے بس کی بات نہیں تھی یہ وہی کرسکتا تھا جسے امام خمینیؒ کی سچی معرفت حاصل ہو اور کراچی میں مظفر کرمانی ان چند افراد میں شامل تھے جنہیں معرفت امام حاصل تھی، مظفرکرمانی کے اس عمل سے شہنشاہ کے حامیوں نے مظفر کو زدوکوب کیا جس کے سبب جلوس انتشار کا شکار ہوگیا، صرف یہی نہیں جب صدام نے نے انتہائی ظالمانہ انداز میں آیت اللہ باقر الصدر اور ان کی خواہر بنت الہدی کو شہید کرایا تو مظفر کرمانی اپنے چند ساتھیوں کو جمع کر کے ریگل چوک پہنچ گئے تاکہ صدام اور رضاشاہ پہلوی کے اس ظلم پر صدائے احتجاج بلند کیا جائے پاکستان میں صدام اور شہنشاہ ایران کے خلاف یہ پہلا منظم مظاہرہ تھا جس میں 70 سے زائد نوجوانوں نے حصہ لیا اور پولیس تشدد کا بھی نشانہ بنے پولیس کی مار کھانے والوں میں مظفر کرمانی بھی شامل تھے۔

شہید مظفر پاکستان میں اسلامی انقلاب کیخلاف ہونیوالے پروپیگنڈہ کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے انہوں نے ہرموقع پرلوگوں کو انقلاب کی حقیقی صورتحال سے آگاہ کیاآپ نے بارہا لوگوں پر واضح کیا کہ میری امام خمینیؒ یا انقلاب سے وابستگی شیعہ مسلک کے سبب نہیں بلکہ اسلام کے باعث ہے مظفرکرمانی امام خمینیؒ سے والہانہ محبت کے سبب ان کے ہر پیغام کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے تھے، استعمارکے اشارے پرجب عراق نے ایران پرجنگ مسلط کی تو مظفرکرمانی افسردگی وغم میں ڈوب گئے انہوں نے حکومت اسلامی کی حمایت میں مظاہرے منظم کئے اورلوگوں کوانقلاب کیخلاف ہونیوالی طاغوتی سازشوں سے آگاہ کیا ان کی اپنی کاوشوں کے باعث کھارادر منی ایران کہلانے لگا، آپ نے اپنے ساتھی نوجوانوں کو اور تربیتی پروگراموں میں ہمیشہ انقلاب اسلامی کی حمایت کرنے اوراس کے تحفظ کی تائید کی، امام خمینیؒ کی رحلت مظفر کرمانی کیلئے صدمہ عظیم سے کم نہیں تھی۔

انہوں نے ملت اسلامیہ کو پہنچنے والے اس عظیم نقصان سے آگاہ کرنے کیلئے پورے کراچی میں جلوسوں اور مجالس کا انعقاد کیا رحلت کے موقع پر ایم اے جناح روڈ پر نکلنے والی عظیم الشان ریلی ذرائع ابلاغ کیلئے حیرت کا سبب بن گئے۔

امام کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے یوم القدس اور ہفتہ وحدت کا انعقاد کیا۔

آپ نے جس طرح زندگی میں امام خمینیؒ کے افکار کو عام کیا اس طرح ان کی رحلت کے بعد اس سلسلہ کو جاری رکھا، منبروں سے انقلاب اسلامی کیخلاف ہونیوالے پروپیگنڈہ کوناکام بنایا، انقلاب کے مخالفین کی منبروں تک رسائی ناممکن بنائی۔

تحریک نفاذ فقہ جعفریہ میں فعالیت

شہید مظفر پاکستان میں امام خمینی رح اور اسلامی انقلاب کے حامی تھے، یہی وجہ ہے کہ ضیاء الحق کے اسلام امریکائی کیخلاف شیعہ اکابرین نے اسلام کے تحفظ کے لئے 13 اپریل 1978ءکو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ قائم کی تو مظفر کرمانی ان چند افراد میں سے تھے جنہوں نے مفتی جعفر کی قیادت پراعتماد کا اعلان کیا، یہ وہ دور تھا جب مظفر کرمانی نے سیاست الٰہی کے میدان میں قدم رکھا، اس وقت کراچی میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا کوئی باقاعدہ ڈھانچہ تشکیل نہیں پایا تھا مگر اس کے باوجود مظفر کرمانی سیاسی جدوجہد میں پیش پیش تھے،ایک توشیعہ اکابرین ملت تشیع کے حقوق سے متعلق لائحہ عمل طے کرنے میں مصروف تھے اور ادھرضیاء نے الحق زکواۃ عشرآرڈیننس کے ذریعے ملت جعفریہ کی پریشانیوں کو دو چند کردیا جس کے بعد علامہ مفتی جعفرحسین مرحوم نے 6 جولائی 1980ء کو اسلام آبادمیں شیعہ قومی کنونشن کا اعلان کردیا، ملک بھر میں مفتی جعفرمرحوم کے اس اعلان کا شاندارخیرمقدم کیاگیا، مظفر علی کرمانی نے اس کنونشن کوکامیاب بنانے کیلئے دن رات ایک کردیئے انہوں نے قائد ملت جعفریہ کے پیغام کو کراچی کے کونے کونے میں پہنچایا، کراچی سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو لیکر اسلام آباد پہنچے تاکہ اجتماعیت کا عملی مظاہرہ ہوسکے، اس عظیم الشان قومی کنونشن کے نتیجے میں ضیاء الحق قوم کے ساتھ تحریری معاہدہ کرنے پر مجبورہوا اس کنونشن کے دوران مظفرکرمانی کی خدمات کو فراموش نہیں کیاجاسکتا ،وقت کے تقاضوں کومدنظر رکھتے ہوئے مظفر کرمانی نے خود کو تحریک نفاذفقہ جعفریہ سے مربوط کرلیا۔

29اگست 1983ء کو مفتی جعفر حسین کی رحلت کے بعد جب 10فروری 1984ء کو علامہ عارف حسین الحسینی کے قائدملت جعفریہ بننے کا اعلان ہوا تو اسلام پسند دیگر نوجوانوں کی طرح مظفر کرمانی نے بھی انتہائی مسرت کا اظہار کیا وہ مفتی جعفر کے بعد پیدا ہونیوالی قیادت کے تنازعہ سے انتہائی متفکر رہتے تھے اسی لئے علامہ عارف کا اعلان قیادت ان کیلئے خوشی کا پیغام لیکر آیا، مظفر کرمانی نے مملکت خداداد پاکستان میں انقلاب اسلامی کیلئے جدوجہد کا تجدید عہد کیا اور قائد شہید کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے ایک بارپھر اپنے ہدف کی طرف گامزن ہوگئے، قائد شہید کے دورہ کراچی کا اعلان ہوا تو اس کے انتظامات کی ذمہ داری بھی مظفرکرمانی نے سنبھال لی،یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہوناچاہیے کہ قائد شہید کو کراچی میںبھرپور طور پر متعارف کرانے کاسہرا بھی مظفرکرمانی کے سر ہے، وسائل نہ ہونے کے باوجود مظفر کرمانی نے قائدشہید کا کراچی پہنچنے پر شاندار استقبال کرایا، قائد شہید کوایک بڑے جلوس کی شکل میں کھارادر سے محفل حسینیہ ایرانیان تک لے جایا گیا جہاں قائد نے بڑے اجتماع سے خطاب کیا ،مظفر کی عقیدت اور خلوص کی بدولت مظفر کرمانی قائد شہید کے منظور نظر بن گئے اور دونوں میں قریبی رفاقت قائم ہوگئی، ابتدائی ایام میں علماء سے زیادہ غیر علماء نے شہید عارف کا ساتھ دیا ان میں سے ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور مظفر کرمانی شہید صف اول میں تھے، مظفر کرمانی بظاہر تو تحریک کے ضلع جنوبی کے صدر تھے مگر اپنی فعالیت کے باعث کراچی میں تحریک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، انہوں نے اپنی ذاتی کوششوں سے تحریک کیلئے مالی وسائل کا اہتمام کیا وہ صاحب ثروت افراد سے ملاقاتیں کرکے انہیں ان کی مذہبی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے تھے، مظفرکرمانی قائد شہید سے تنظیمی وابستگی سے قطع نظرذاتی عقیدت بھی رکھتے تھے یہ محبت نہیں تھی وہ اسلام میں ضم ہونے کے باعث علامہ عارف کے گرویدہ تھے پاکستان میں تشیع کی بڑی تعداد قائد شہید کی شہادت تک انہیں پہچان نہ سکی تھی مگر مظفر کرمانی کی بصیرت افروز نگاہیں اپنے قائد کو پہچان چکی تھیں، علامہ عارف کے ہر دورہ کراچی کانہ صرف انتظام مظفر کرمانی کی جانب سے ہوتا بلکہ مالی وسائل کی کاوشوں کے اعتراف میں قائد نے انہیں خازن مقرر کردیا، کراچی میں تحریک کی جان تھے ان کے بغیر کوئی پروگرام مکمل نہیں تھا،وسائل کے بغیر بڑی سے بڑی ذمہ داری لینا ان کا خاصہ تھا

علامہ عارف حسینی نے 19 دسمبر 1984ء کو ہونیوالے ضیاء الحق کے ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو کراچی میں قائد کے فرمان پر عملدر آمد کی ذمہ داری مظفر کرمانی نے سنبھال لی، مظفر کرمانی کی کوششوں کایہ نتیجہ نکلاکہ ملک کے دیگرحصوں کی طرح کراچی میں بھی ملت جعفریہ نے خودکو ضیاء الحق کے صدارتی ریفرنڈم کے ڈرامہ سے علیحدہ رکھا ،تنظیم کوفعال بنانا ان کی ترجیح تھی کبھی اپنے مفادات کو مدنظر نہیں رکھا ،اپنی ذاتی کوششوں سے کراچی میں تحریک کو عالیشان دفتر قائم کرنے میں مدد دی۔

5 اگست 1988ء کو قائد کی شہادت کی خبر مظفر کرمانی پر بچلی بن کرگری، انہوں نے اسے ملت کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا، آپ کی خواہش تھی کہ کسی طرح شہید کے چاہنے والے شہید کے جنازہ میں شریک ہوجائیں اور اس سلسلے میں بھی انہیں تائید غیبی حاصل ہوئی جب حمید بھوجانی کی مدد سے وہ کراچی تا راولپنڈی

طیارہ اسپانسر کروانے میں کامیاب ہوگئے، آپ کو قائد شہید کی جدائی کا اتنارنج تھا کہ 13 سال گزرنے کے باوجود آپ کا غم ختم نہیں ہوا قائد شہید کا ذکرسنتے ہی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں انہوں نے ہرسال 21 ذی الحجہ کو قائد کے مرقد پر قافلہ لے جانے کی روایت ڈالی اس طرح انہوں نے قائد کی شہادت کے ہجری تاریخ کو بھی زندہ رکھا، مرقد پرپہنچ کر آپ شہید قائد کی قبر سے لپٹ کر ایسے روتے تھے جیسا کوئی بچہ اپنی ماں سے بچھڑ کرروتا ہے، مظفر کرمانی نے شہادت تک اس سلسلے کو جاری رکھا۔

قائد شہید کی شہادت کے بعد ان کے آثار جمع کرنے کا مرحلہ درپیش ہوا تواس وقت بھی مظفر کرمانی صف اول میں نظر آئے آثار کی جمع آوری اور اس کیلئے وسالئل کا اہتمام مظفر کرمانی کا اہم کارنامہ ہے۔

علامہ عارف کے بعد تحریک اختلافات کا شکار ہوئی تو مظفر معاملات سلجھانے کی کوشش میں مصروف رہے، اسی دوران الیکشن میں حصہ لے کرمخالفین کو قائل کیا۔

انہوں نے تحریک کے پلیٹ فارم سے سندھ اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا، اہل زبان نہ ہونے کے باوجود بھرپور الیکشن مہم چلائی وہ جانتے تھے کہ کامیابی نہیں ہوگی ملت کا تشخص اجاگر کرنے کیلئے یہ فریضہ بھی انجام دیا دوران الیکشن اہلسنت نے نفاذفقہ جعفریہ پر اعتراض کیا تو انہوں نے بڑے عالمانہ انداز میں اس اعتراض کو دور کیا ،انہوں نے کہا کہ تحریک جعفریہ کا مقصدیہ نہیں کہ ہم پورے ملک میں فقہ جعفریہ کا نفاذ چاہتے ہیں ہم اہل تشیع کیلئے جعفریہ اور برادران اہلسنت کیلئے ان کی فقہ کا مطالبہ کرتے ہیں، 1992ء میں علامہ جوادی کی سندھ کی صدارت سے علیحدگی تحریک کے اختلافات کا اہم ترین مرحلہ تھا اس موقع پرمظفرکرمانی نے نہایت سرگرمی سے دونوں گروپوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ،علامہ ساجد نقوی کی زیرصدارت اجلاس میں سندھ کا مقدمہ بڑی کامیابی سے پیش کیا اور تحریک کے دستور کی بعض خامیوں کی نشاندہی کی تاہم تحریک کی قیادت سے نظریاتی اختلافات کے باعث مظفر کرمانی نے باقاعدہ طور پر تحریک سے علیحدگی اختیار کرلی لیکن تحریک چھوڑنے کے بعد ان کی فعالیت کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی، اب انہوں نے اپنے لیے ہدف کا تعین کرکے نوجوانوں کی تربیت کا بیڑا اٹھا لیا، تن تنہا اور وسائل کے بغیر ایک بڑے مقصد کی طرف بڑھنا دراصل مظفر جیسے مضبوط قلب کے انسان کا کام تھا۔

اسلام ناب محمدی کے احیاء کی کوششیں

مظفر کرمانی شخصیت پرست نہیں اسلام پرست انسان تھے امام خمینیؒ اور علامہ عارف سے ان کی وابستگی بھی اسلام کی بدولت تھی ان کا اصل ہدف اسلام ناب محمدی کا احیاء تھا اس کیلئے انہوں نے ملت کے نوجوانوں کو منتخب کیا وہ سمجھتے تھے کہ اگر ملت کے نوجوان اسلامی رنگ میں رنگ گئے تو پھر ملک میں انقلاب امام زمان ع کو کوئی نہیں روک سکے گا انہوں نے نوجوانوں کی نظریاتی و انقلابی سوچ کیلئے دروس کا اہتمام شروع کیا۔اسلام کے حوالے سے ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اسی لئے مخالفین کو بڑی خوبی سے قائل کرلیتے تھے، مظفر نے نوجوانوں کی تربیت کا جو دشوار گزار سفر شروع کیا تھا وہ دراصل تنظیموں کی ذمہ داری ہے مگر تنظیموں کی عدم فعالیت کے سبب انہوں نے یہ بارگراں اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھا لیا، نوجوانوں کی فکری تربیت اور معاشرہ سازی کا یہ سلسلہ انہوں نے انفرادی سطح پر کافی عرصے جاری رکھا مگر باقاعدہ منظم نہ ہونے کے سبب مظفر اس کام میں دشواری محسوس کرنے لگے ایسے میں ضرورت تھی کہ باقاعدہ کسی پلیٹ فارم یا ادارہ کے تحت اس کام کو انجام دیا جائے اس کیلئے انہوں نے بقیۃ اللہ اسلامک انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد ڈالی اس ادارہ کے تحت انہوں نے ایسے سطحی اور بنیادی موضوعات پر سیمینار کا سلسلہ شروع کیا جن پر اس سے قبل بات نہیں کی جاتی تھی، سیمینار کے ذریعے فکری و نظریاتی نشو و نما سے ان کے جانثاروں اور نظریاتی ساتھیوں کاحلقہ وسیع ہوتا چلا گیا آج نہ صرف کراچی بلکہ سیالکوٹ، کوئٹہ اوراسلام آباد اور بیرون ملک میں سیمینارز کاسلسلہ کامیابی سے جاری ہے، وہ بیرون ممالک سے آنے والے افراد کو اچھے پیامبر سمجھتے تھے اسی لئے 1998 ء میں دبئی میں سیمینار کا سلسلہ شروع کیا بعد ازاں شارجہ ، ابوظہبی، دارلاسلام اور ٹورنٹو میں کامیاب فکری نشستیں منعقد کیں، ان کی نظر میں اسلام اور نظریہ ولایت فقیہہ مقدم تھا اسی لئے ولایت فقیہہ کیلئے کام کرنے والی ہرتنظیم ان کی منظور نظر ہوتی تھی ان تنظیموں کی کہیں مالی ،کہیں عملی اور کہیں افراد کی صورت میں مدد فراہم کی، شخصیت پرستی سے اجتناب کرتے ہوئے سیمینارز میں ایسے علماء متعارف کروائے جو اپنے موضوعات پر مکمل دسترس رکھتے تھے، اسلام ناب محمدیؐ کے احیاء کیلئے جہاں انہوں نے سیمینارز کا سلسلہ شروع کیا وہیں انہوں نے میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس شعبہ میں قدم رکھ دیا،وہ ملت تشیع کے اس شعبہ میں بے انتہا پیچھے ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھیوں کو شعبہ کی اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کرتے رہتے تھے اور انتہائی دردمندانہ انداز میں اپنے ساتھیوں کواس ذمہ داری کو اپنے مضبوط کاندھوں پراٹھانے کے لئے آمادہ کرتے تھے، دن رات کی کوششوں اور ساتھیوں کی بھرپور مدد کے باعث انہوں نے ماہنامہ نوائے اسلام کی بنیادڈالی جو بعد میں ہفت روزہ میں تبدیل ہوگیا، آپ نے اپنی شہادت تک اس

ادارہ کی سرپرستی کے فرائض انجام دیئے، وہ نوائے اسلام کو روزنامہ کرنے کے خواہشمند تھے مگر دشمنوں نے انہیں اس کی مہلت نہیں دی۔

شہید کی جانب سے اسلام ناب محمدی کے لئے منعقد کئے جانے والے سیمینارز پر ایک نظر

۱۔دین فقط اسلام ہے
۲۔اسلام اور سائنس
۳۔قرآن کے اجتماعی احکام
۴۔Role of Muslim Countries in the new world order
۵۔اثبات وجودخداکی دلیلیں
۶۔Comparative analysis of islam & materialistic western Culture
۷۔فرقہ واریت
۸۔شفاعت
۹۔ولایت فقیہ
۰۱۔امام حسین ؑقربان غدیرہیں
۱۱۔سیرت نبیؐ
۱٢۔فلسفہ عزاداری
١۳۔The Historical Background and Political Structure of Pakistan
١٤۔آفاتِ دین
١٥۔فلسفہ قیام امام حسین ؑ
١٦۔اصول دین کے معاشرتی اثرات
١٧۔Research Anaylsis of Islamic Ruling System
١٨۔امامت وامت
١٩۔توحید
اگے کی اقساط میں مندرجہ زیل عناوین ملاحظہ فرمایئے۔

* سماجی کام
* حقیقی عزاداری کے لئے کوشیشیں
* مستقبل کے پروگرام
* شھادت کے اسباب

سماجی کام

مظفر کرمانی ایک خدا پرست اور انتہائی رحم دل انسان تھے یعنی جیسے حضرت علی ؑکا وہ قول جو آپ ؑ نے حضرت ابوذرؑ کے لئے فرمایا تھا ”کہ ابوذر مومنوں کیلئے مہربان ہیں اور دشمن کے سامنے فولاد اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے“ ۔شہید پر انتہائی صادق آتا تھا، یہ راز توان کی شہادت کے بعد عیاں ہوا کہ کئی گھرانوں کی کفالت کرنے والا شخص دراصل مظفر علی کرمانی تھا، الغرض کسی کے چھوٹے سے چھوٹے معاشی یا ذاتی مسئلہ ہو یا پھر ملت کا اجتماعی مسئلہ آپ آگے آگے نظر آتے، عجب ہے کہ سب نے دیکھا کہ جس کو کسی زمانے میں اسکول کی فیس ادا نہ کرنے پرخود اسکول سے نکال دیا ہو وہ دوسرے طالب علموں کی مالی امداد کا ذریعہ بنتے تھے، گلگت کے فسادت اور لشکر کشی کے باعث متاثر ہونے والوں کی امداد کیلئے انہوں نے بھرپور طریقہ سے امداد جمع کرکے روانہ کی، 1983ء کے کراچی کے فسادات کے متاثرین ان کی کاوشوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے، گزشتہ دو عشروں کے دوران ملت کے سینکڑوں افراد مذہبی دہشت گردی کا نشانہ بنے مگر جب کوئی تنظیم ان شہداء کے لواحقین کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھی مظفر کرمانی نے سرمایہ دار یا ثروت مند نہ ہونے کے باوجود اپنی حتی المقدور کوشش کی کہ شہید کے پسماندگان کو مالی امداد فراہم کی جائے، مظفر اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے، انہیں ہر لمحہ قوم کی فکر رہتی تھی،ل یکن ان کی فکر صرف پاکستان کے شیعوں تک محدود نہیں تھی، وہ وسیع تناظر میں دیکھنے اور بین الاقوامی سوچ رکھنے والی شخصیت تھے، یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں ایران میں زلزلہ سے ہونے والی تباہی نے انہیں متفکر کردیا اور انہوں نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر ایران کے متاثرین کیلئے امداد جمع کی۔

ملت کی انہوں نے ایک بڑی خدمت تحریک جعفریہ کے اغواء کنندگان کو ڈاکوؤں کے نرغے سے آزاد کرا کرکی، 25-26 نومبر 1990ء میں تحریک جعفریہ کے کنونشن سے شرکت کے بعد قافلہ واپس آرہا تھا کہ اسے دادو کے مقام پر اغواء کرلیا گیا، ان حالات میں جبکہ ملت کے اکابرین مغویوں کی بازیابی کی مسولیت سے کنارہ کش ہوگئے مظفر کرمانی نے تن تنہایہ فریضہ انجام دیا، انہوں نے وقار نقوی ایڈوکیٹ شہید اور آغا قنبر عباس کے ساتھ مل کر سیہون، خیرپور اور دادو کی خاک چھانی جہاں سے اطلاع ملتی تھی مظفر وہیں پہنچ جاتے تھے، مظفر دادو میں قیام کے دوران راتوں کو جنگلوں میں چلے جاتے تھے تاکہ ڈاکوؤں سے کوئی رابطہ قائم ہو اور کوئی بات بن جائے انتھک محنت اور جدوجھد کے بعد آخر کار ملت کے اس شیر دل شخصیت نے ڈاکوں کا پتہ ڈھونڈھ ہی نکالا بعد ازاں تاوان کا مطالبہ سامنے آیا تو مظفر بھائ نے یہ فریضہ بھی خوش اسلوبی سے انجام دیا، اور اس کام کے لئے فوری رقم کا بندوبست کرنے کے لئے اپنے گھر کو بھی گروی رکھ دیا۔ بالآخران کئ دن رات کی کوششیں رنگ لائیں اور مغوی آزاد ہوگئے، ان کی کوششوں میں مرحوم شیخ علی مدد اور مرحوم شیخ غلام اصغر نجفی (سیہون شریف) نے بھی مظفر کرمانی کی بہت معاونت کی، رہائی کے فورا بعد علامہ حسن ترابی کا مظفر کے پاس پہنچنا انکا شکریہ ادا کرنا ان کی کوششوں کا اعتراف ہے۔

علامہ ساجد نقوی کے سامنے جب ایک اجلاس میں بعض افراد اپنی جدوجہد کے دعوے کررہے تھے اس موقع پر شہید علامہ حسن ترابی نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ”آج یہ پھول کے ہار جو ہمارے گلے میں موجود ہیں اگر مظفر علی کرمانی نہ ہوتے تو یہ ہار ہماری قبر پر ہوتے“۔

یہ چند ایک سماجی کام ہیں جن کا زکر یہاں ہم نے مختصر طور پر اپنے قاریئن کے لئے پیش کیا ہے اس کے علاوہ کئ ایسی داستانیں جیسے کہ اپنے آقا و مولا علی ع کی پیروی کرتے ھوئے شہدا و فقرا کے گھر جاکر انکے لواحقین کو تسلی دینا انکا غم بانٹنا۔ انکی مالی مشکلات کو انکی آبرو و عزت نفس کو حفظ کرتے ہوئے حل کرنا یہ سب داستانیں اس شہید بزرگوار کے ساتھ ہی اس دنیا سے اس دنیا کی طرف منتقل ہوگئیں۔

یقینا خدا نے اپنے اس شیر دل ابوزر زمان کو اپنے آقا امیرالمومنین ع کے ساتھ محشور کیا ہوگا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .