تحریر: شاہد عباس ہادی
حوزہ نیوز ایجنسی। مدافعان حرم نے اُس بارودی میدان میں قدم رکھا جس میں ہاتھ، پاؤں، ٹانگ، جسم، حتی کہ گردن بھی سلامت نہیں رہتی۔
یہاں دست و پا کٹیں گے، یہاں گردنیں اڑیں گی
یہ محبتِ علی ہے، کوئی دل لگی نہیں
یہ داستان شہید عدیل حسینی کے متعلق ہے جو پنجاب میں ایک مذہبی و متدین گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے بہت ہوشیار اور محنتی تھے، کمپیوٹر انفارمیشن اور پروگرامنگ کرنا گویا ان کا مشغلہ تھا، انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے مذہبی کتابیں ڈاؤنلوڈ کرتے، معاشرے کو آگاہی دیتے اور اُس دشمن کا مقابلہ کرتے جو اسلام اور تشیع کو ٹکڑے کرنا چاہتا تھا۔
شہید عدیل حسینی کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا لہذا شہید نے پاکستان سے ایک مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کی، شہادت سے ایک سال قبل ایران چلے گئے اور حوزہ علمیہ میں داخلہ لے لیا۔ ایران جاکر پڑھنا تو شاید بہانا تھا یا مجبوری جبکہ آپ پرواز شہادت کیلئے آسمان کا انتخاب کرچکے تھے۔ آپ نے یہ کہہ کر کہ "حضرت زینب سلام الله عليها کے حرم کی توہین ہونے سے بچانے کیلئے ہمیں اپنی جوانیاں لوٹا دینی چاہئیں" اپنے گھروالوں کو معتقد کرلیا کہ دفاع حرم واجب ہے۔
آپ کی بہن ذکر کرتی ہیں کہ میں نے "عاشقان ایستادہ می میرند(عاشقان مردانہ وار مرتے ہیں)" لکھ کر سٹیٹس لگایا۔ شہید نے پوچھا کیا بتاسکتی ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے حالانکہ وہ فارسی جانتے تھے۔ میں نے کہا آپ تو فارسی جانتے ہیں؟ لیکن وہ بولے نہیں آپ مجھے بتائیں اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے اردو میں لکھ کربتایا تو انہوں نے کہا ہاں صحیح! یہی مطلب ہے۔ نہیں معلوم شہید نے ایسا کیوں کہا مگر شہادت کے بعد اس جملے کی تشریح کروانے کا مقصد سمجھ گئی۔
شہید 12 سال سے شہادت کی تیاری کررہے تھے اور کہا کرتے کہ عدیل دشمن سے جنگ کرے گا، داعش سے مقابلہ ہوگا لہذا اس کی تیاری بھی ضروری ہے۔ شہید کو 45 روزہ ٹریننگ کے بعد بطور Sniper زینبیون میں شامل کرلیا گیا۔ داعش کے خلاف کئی فتوحات میں شامل رہے، 200 میٹر سے لڑی جانے والی جنگ میں آپریشن آزادسازی نبل و الزھراء کے دوران شہید عدیل اور چند ساتھی پانی کے انتظام کیلئے نکلے کیونکہ دشمن کے شدید محاصرے میں تھے۔ اسی دوران داعشی نے گولی چلائی جو ان کے پہلو اور کمر پر لگی اور سینے سے نکل گئی۔ شہید کی عادت تھی کہ کچھ بھی ہوتا تو کہتے یا الله، شہادت کے دوران بھی زبان پر يا الله کے الفاظ تھے۔ کیا خوبصورت شہادت ملی، الله اكبر شہید نے یا الله کہہ کر دنیا کو پیغام دیا کہ الہی راستے پر چلنے والا شیطانی طاقتوں سے گبھراتا نہیں، کربلائی راستے پر چلنے والا شہادت کا منتظر رہتا ہے۔
شہید نے وصیت میں بتادیا کہ میری زندگی کا مقصد خدا کی معرفت، اہلبیت علیہم السلام کا دفاع اور خودسازی ہے جس کیلئے وہ جان ہتھیلی پر رکھ پر داعش جیسی شیطانی طاقت سے نبرد آزماء ہوئے۔ ڈاکٹر علی شریعتی الہی و کربلائی راستے کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کربلائی یعنی خون میں تیرنا تاکہ ظلم کچلا جائے جبکہ کوفی یعنی خطبے سن کر سر ہلانا اور جب شجاعت و غیرت کا موقع آئے تو بھاگ جانا۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔