۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
شہید حسین یوسف الہی

حوزہ/ آخر وہ شہید کن خصوصیات کا حامل تھا ؟کون تھا؟ جس سے بچھڑے ہوئے قاسم سلیمانی کو 35 سال بیت گئے پر تڑپ تھی تو شہید حسین یوسف الہی کے پہلو میں دفن ہونے کی۔

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسی। شہداء شہادت کےبعد بھی زمین پر اثرات رکھتے ہیں یہ جملہ اکثروبیشتر سننے کو ملا مگر اس جملے میں پوشیدہ راز بہت عرصے بعد عیاں ہوا۔شہید حاج قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر شہدإ سے توسل کیا کہ اس جملے کاراز خود بیان کریں۔شہید حاج قاسم سلیمانی کی شخصیت اس قدر بلند اور عمیق ہے کہ جس پر سالوں بھی لکھاجاٸے کم ہے۔شہید حاج قاسم سلیمانی اپنی حیات میں شہید حسین یوسف الہی سے ہر لحظہ متمسک نظر آتے ہیں۔شہید یوسف الہی میں ایسی کیا خصوصيات تھی کہ شہید قاسم اُن کے پہلو میں مدفن ہوناچاہتے تھے۔بلاشبہ شہدا کی شخصيات اس قدر عمیق ہیں اور اِن میں ایسے راز پوشیدہ ہیں جو بہت عرصے بعد اُن کی شہادت کے بعد معاشرے کے کچھ خاص لوگوں کو ودیعیت کیے جاتے ہیں۔شہید کی برسی پر سارا دن شہید یوسف الہی کی تصویر ذہن میں گردش کرتی رہی۔رہبرِ معظم کا یہ جملہ کہ شہدا شہادت کے بعد بھی زمین پر اثرات دکھاسکتے ہیں پر کامل یقین ہوگیا جب شہید یوسف الہی کے اوصاف پڑھنے کا موقع ملا۔ شہادت اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتی کہ فتح فقط دشمن پر تسلط حاصل کرنے کا نام ہے۔شہید وہ ہوتا ہے جو دشمن پر غلبہ نہ پاسکنے کی صورت میں خود اپنی موت کے ذریعے فتحیاب ہوتا ہے اوراگر دشمن کو شکست نہ دے سکے تب بھی اُسے دنیا کی نظر می ذلیل ضرور کردیتاہے۔ایک شہید کی شہادت کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ وہ ایک نسل کو تازہ ایمان بخشتا ہے اور یوں ہمیشہ زندہ اور جاوید رہتا ہے۔

شہید حاج قاسم سلیمانی جن کی پوری دنیا میں شہرت کسی سے چھپی نہیں ہے، جن کی شہادت کے غم نے ہر آنکھ کو اشکبار کیا اور ہر دل نے اُن کی کمی کو محسوس کیا لیکن اس غم کے ساتھ سب لوگوں میں یہ تجسس بھی تھا کہ قاسم سلیمانی کو کہاں دفن کیا جائے گا؟ حرم بی بی زینب میں،حرم بی بی معصومہ میں یا حرم امام میں مگر یہ بات بہت حیران کردینے والی تھی کہ جب آپ نے وصیت کی کہ آپ کو گلزار شہدا کرمان میں نہ صرف سادا سنگ قبر کے ساتھ دفن کیا جائے بلکہ آپ کو ایک شہید کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ یہ بات بہت حیران کن تھی کہ آخر اس شہید میں ایسی کیا خصوصیات پائی جاتیں تھیں جنہوں نے قاسم سلیمانی کو اس شہید کے پہلو میں قیامت تک کی زندگی گزارنے پر جذب کیا۔ آخر وہ شہید کن خصوصیات کا حامل تھا ؟کون تھا؟ جس سے بچھڑے ہوئے قاسم سلیمانی کو 35 سال بیت گئے پر تڑپ تھی تو شہید حسین یوسف الہی کے پہلو میں دفن ہونے کی۔

تمام اہل کرمان جو حاج قاسم کی زندگی میں گلزار شہداء میں جایا کرتے تھے انہوں نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح شہید قاسم سلیمانی خاص طور پر رات کے وقت شہید یوسف الٰہی کی قبر پر زیارت کے لیے جاتے، نماز اور زیارت عاشورا پڑھا کرتے اور شہید سے دوران جنگ کے حالات و واقعات بیان کرکے درد دل کرتے اور اس شہید کے پہلو میں دفن ہونے کی دعا کرتے۔

شہید قاسم عراق ایران جنگ میں ثار اللہ ڈویژن 41 میں شہید یوسف الہی سے آشنا ہوئے اور اس آپریشن کے دوران آپ شہید قاسم سلیمانی کے ہمراہ رہے ،انہوں نے انٹیلی جنس اور آپریشنز یونٹ میں کام کیا اور بعد میں اسی یونٹ کے ڈپٹی کمانڈر منتخب ہوئے۔یہ شہید عارف عراق ایران جنگ کے دوران پانچ مرتبہ شدید زخمی ہوئے اور آپریشن والفجر 8 میں کیمیائی بموں سے زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بالآخر 17 فروری 1985ء کو تہران کے اسپتال لبافی نژاد میں شہید ہو گئے۔اس شہید عارف کے ساتھی کہتے ہیں کہ حسین یوسف الہی محاذ کے عارفوں میں سے تھے اور وہ بہت خوبصورت نماز شب پڑھا کرتے تھے، لیکن کوئی اُس کو نہیں دیکھتا تھا، وہ خدا کا دوست تھا اور اس کو جو معنویت الہام ودیعت ہوئے تھے اس سے وہ مسائل کو حل کیا کرتے اور وہ یقین کی اس منزل پر پہنچے کہ معنویت کے پردے ان کی نگاہوں سے ہٹ گئے۔ شہید محمد حسین یوسف الہی کو سب عارف جانتے تھے اور ان کے اطراف میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو شہید یوسف کے ساتھ رہا ہو اور اپنے ذہن میں ان کے معنوی اخلاق و کرامات کی یادیں نہ رکھتا ہو۔وہ متلاشیوں اور صوفیاء کی ایک مثال ہیں جنہوں نے امام خمینی (رہ) کے مطابق ایک رات میں سو سال کا سفر طے کیا اور تمام بزرگوں اور صوفیاء کرام کو اپنے عرفان کے لامحدود سمندر کے ذریعے سے ایک قطرہ ندامت بنا دیا۔

شہید قاسم سلیمانی اپنی یادوں میں سے جو یوسف الہی کے ساتھ گزری فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم حسین کے ساتھ آبادان جارہے تھے۔ ہمارے سامنے ایک بڑا آپریشن تھا۔ پچھلے کچھ آپریشن کامیابی سے نہیں ہو سکے تھے اور ہمارا آخری آپریشن بھی منسوخ ہو گیا تھا۔میں بہت پریشان تھا۔ میں نے حسین یوسف الہی سے کہا: "ہم نے کئی آپریشن کیے، لیکن ان میں سے کوئی بھی اتنا کامیاب نہیں ہوا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔" یہ آپریشن بھی باقی آپریشنوں کی طرح ہوگا۔ اس نے کہا: ایسا کیوں؟ میں نے کہا، "کیونکہ یہ آپریشن بہت مشکل ہے اور میں نہیں جانتا کہ ہم کامیاب ہو پائیں گے یا نہیں۔" وہ کہنے لگا کہ اتفاق سے ہم اس کام میں کامیاب ہیں۔ میں نے کہا: حسین تم پاگل ہو؟ ایسے آپریشن جو آسان تھے اور ہمیں کوئی پریشانی بھی نہیں تھی ان میں ہم کچھ نہیں کر سکے تھے، پھر اس میں صورتحال بھی تو بالکل مختلف ہے اور یہ ہے بھی سب سے مشکل! کامیابی کیسے ہوگی!! حسین مسکرائے اور حسب معمول بولے:میں حسین، غلام حسین کا بیٹا تم سے کہتا ہوں کہ اس آپریشن میں ہم جیت جائیں گے۔ میں جانتا تھا کہ وہ کوئی بات بھی بلا وجہ نہیں کہتا مگر یہ کہ اس کو یقین اور اطمینان ہو۔میں نے کہا: کیا مطلب تم کس یقین سے کہہ سکتے ہو؟ اس نے کہا: آخر میں جانتا ہوں۔ میں نے کہا: اچھا، تمہیں کیسے معلوم؟ کہنے لگا کہ ہمیں بتایا گیا کہ ہم جیتیں گے۔ میں نے پوچھا: تمہیں کس نے بتایا؟ اس نے جواب دیا: حضرت زینب (س) نے۔ میں نے پھر پوچھا کہ بی بی نے عالم خواب میں خبر دی ہے یا عالم بیداری میں؟ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا: تمہیں اس سب سے کیا؟ بس اتنا جان لو کہ بی بی نے کہا ہے کہ ہم اس آپریشن میں کامیاب ہوں گے اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔میں نے بہت اصرار کرکے مزید اس سے وضاحت مانگی۔ اس نے کچھ بھی نہیں کہا اور صرف چند انہیں جملوں پر اکتفاء کیا۔مزید وضاحت کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا اعتماد ہی میرے لیے کافی تھا۔جیسا کہ میں نے کہا ہمیشہ جو وہ کہتا تھا میرا اس پر یقین ہوجاتا تھا۔جب آپریشن کامیابی سے مکمل ہوگیا مجھے اس دن حسین کے الفاظ یاد آئے اور ان کے الفاظ میں جو ایمان اور عزم تھا مجھے اس پر یقین کرکے کبھی افسوس نہیں ہوا تھا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .