تحریر: مولانا سید رضی حیدر زیدی پھنڈیروی
حوزہ نیوز ایجنسی। دنیا میں بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور تاریخ ان کو اپنے دامن میں محفوظ کرلیتی ہے۔ تاریخ کے مطالعہ کرنے والے ان واقعات سے درس عبرت لیتے ہیں۔ جہاں تاریخ کے سینہ میں بہت سے واقعات ہیں وہیں تاریخ کا ایک اہم غدیر نامی واقعہ بھی اس کے قلب میں محفوظ ہے مگر یہ واقعہ دوسرے تاریخی حادثوں کی طرح نہیں ہے بلکہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ واقعہ غدیر خم کے میدان میں پیش آیا جب رسول خدا آخری حج انجام دے کر واپس ہو رہے تھے تو میدان غدیر میں حکم خدا ہوا کہ اے رسول پہنچا دیجیے اس امر کو جو آپ تک پہنچ چکا ہے لہذا آپ اسی میدان میں رکے اور سب کو رکنے کا حکم دیا جو آگے نکل گئے تھے ان کو پیچھے بلوایا اور جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا اور پھر آپ نے ایک طویل خطبہ دیا اور سب سے اپنی ولایت کا اقرار کرانے کے بعد فرمایا جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولاہ ہیں اس واقعہ میں حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کیا گیا تھا، میدان کا نام غدیر تھا اسلئے اس کو واقعہ غدیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
میں یہاں پر اپنے قارئین کی خدمت میں عرض کروں گا کہ غدیر تنہا میدان کا نام نہیں ہے بلکہ ایک فکر کا نام ہے غدیر اس راز اور نشانی کا نام ہے کہ جو راہ نبوت کو دوام دیتا ہے۔ غدیر فقط زمین کے حصہ کا نام نہیں ہےبلکہ ایک عرفانی چشمہ کا نام ہے، غدیر اس آب کوثر کا نام ہے جس سے جویندگان ولایت سیرب ہوتے ہیں اور اسی کوثر نامی سمندر کا نام ولایت اور امامت ہے۔ غدیر فقط رسول خدا کی آرزو کا نام نہیں ہے بلکہ انبیاء کے مقصد اور اللہ کے چہرہ کا جلوہ ہے۔ غدیر فقط حاضرین ہی کے لئے نہیں تھا بلکہ حاضرین، غائبین اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے ہے لہذا سب ہی مسلمانوں کا وظیفہ ہے کہ غدیر کے پیغام ولایت کو ایک دوسرے کو پہنچائیں اور اس امانت کو باربار یاد دلائیں تاکہ سب کو یاد رہے کہیں ایسا نہ ہو لوگ بھول جائیں کیونکہ غدیر کی فراموشی نے تاریخ میں بہت کچھ ظلم و ستم برپا کئے ہیں۔ جس وقت لوگوں نے واقعہ غدیر کو بھلا دیا تو سقیفہ تشکیل پایا اور بے شرمی کی بنیاد رکھی گئی جس کے نتیجہ میں رسول اکرم کی اکلوتی بیٹی حضرت زہراسلام الله علیها کی بے حرمتی کی گئی اور دنیا کے سب سے بڑے عادل اورمظلوم کو گھر میں بٹھا دیا گیا۔ غدیر کی فراموشی ہی کی وجہ سے واقعہ کربلا رونما ہوا اور خاندان نبوت کو اسیر کیا گیا۔ اگر لوگوں کے پاس ولایت ہوتی اور واقعہ غدیر یاد ہوتا تو کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے مقابلہ میں نہ آتے چنانچہ امام حسین علیہ السلام کربلا میں یہ کہہ کر کہ "میں آخری نبی کا نواسہ ہوں علی مرتضی کا بیٹا ہوں" لوگوں کو غدیر یاد دلا رہے تھے، فقط کربلا ہی میں حق و باطل کی جنگ نہیں تھی بلکہ ہر دور میں حق اور باطل کی جنگ جاری ہے لہذا ہمیں حق کی فتح اور باطل کی شکست کے لئے غدیر کا مبلغ بنا پڑے گا تاکہ سماج اور معاشرے میں ظلم و ستم اور دوسری کربلا برپا نہ ہو سکے یہ ہی غدیر ہے جس پر عمل کرنے والے مظلوم کا ساتھ اور ظالم کے مقابلہ پر کھڑے رہتے ہیں کیونکہ واقعہ غدیر دوسرے تاریخی حادثوں کی طرح نہیں ہے بلکہ انسان ساز واقعہ ہے۔
آخر میں اپنے قارئین کی خدمت میں رسول اسلام صلی الله علیه وآله و سلم کی حدیث پیش کرتا ہوں تاکہ ہمیں ولایت کی اہمیت کا مزید اندازہ ہوسکے اور غدیر کو مزید سمجھنے کی توفیق کےلیے دعا کرسکیں۔ آپ صلی الله علیه وآله و سلم ارشاد فرماتے ہیں: منْ منَّ الله علیه بمعرفة اهل بیتی و ولایتهم فقد جمع الله له الخیر کلّه۔ اگر اللہ کسی کو میری اور میرے اہلبیتؑ کی معرفت اور ان کی ولایت عطا کرتا ہے تو بالتحقیق کل خیر کو اس کے لئے جمع کردیتا ہے۔ (بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج27، ص88) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو ایک ساتھ دنیا اور آخرت کی ساری خیر چاہیے تو وہ واقعہ غدیر سے درس ولایت کو لےکر تمام خیر کو اپنے لئے جمع کرلے۔ آخر میں اللہ کی بارگاہ میں دعا گوہوں کہ پالنے والے ہم سب کو غدیر کی معرفت عطا فرما اور تمام مؤمنین کی تام مشکلات کو حل فرما کرونا جیسی مہلک وبا کا خاتمہ فرما اور ہماری قبور کو نور اہلبیت علیہم السلام سے منور فرما آمین والحمد للہ رب العالمین۔ والسلام