حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،علمی مرکز قم،ایران میں مقیم مولانا سید شمع محمد رضوی نے کہا کہ غدیر خم کے بارے میں اہم ترین بات پیغام الٰہیہ کی بات ہے، ولایت کبریٰ کی بات ہے اور تکمیل دین ،اتمام نعمت اور خو شنودی ٔ پروردگار کی بات ہے ان آیات کے مطابق جن پر قرآن نازل ہوا ، متواتر احادیث رسولۖ نے وضاحت کی ، ان کے اسناد کا سلسلہ حلقۂ زنجیر کی طرح عہد صحابہ و تابعین سے لے کر عہد حاضر تک تسلسل پذیر ہے ۔ہرغدیری اپنی بساط کے مطابق جس پروگرام میں مشغول رہتاہے وہ یا تو حدیث غدیر کے گردا گرد واضح حقائق پر مشتمل متن حدیث سے مربوط اسناد کی احاطہ بندی کرنا یا ، واقعات غدیر کو بطور نظم اشعار ک وپیش کرنا،یانظم کرنے والے شعراء کے حالات ان کے قصائد واشعار کی توضیح و تشریح تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ داستان غدیر ہر صدی اور ہر زمانے کی ضرورت ہے کہ جس کے اختصاصی امور کو بیان کرنانہایت ضروری ہے ۔ اور یہ سب کچھ محض خدمت دین ، کلمہ حق کی سر بلندی ، اسلامی قومیت کا احیاء، ذکر علی کی ابد ی یادوں کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں۔
حوزہ علمیہ آیة اللہ خامنہ ای،بھیک پور،بہار اور ١٤سالہ غدیری فعالیت :تمام عاشقان کے ایک ترقی کاپل قایم کرنا۔غدیر کی صحیح معلومات؛ ہر قوم و ملت تدوین تاریخ کے سلسلے میں کسی فرقے کی جد و جہد اپنے حریف کے جوش و جذبے سے پیچھے نہیں رہتی ، ہر ایک کا اپنا مقصد اور مخصوص نقطہ ٔ نظر ہوتا ہے جس پر اس کی نشانہ بازی ہو تی ہے ۔
مؤرخ کا بطور کلی نکتہ نظر یہ ہوتا ہے کہ حوادث روزگار اور اقوام کے احوال منضبط کرے ۔ جغرافیہ داں کا مقصد کرۂ ارض کی حدبندیوں سے آشنا ہو کر قوموں کی فتح و شکست اور حکومتوں کی تقسیم کے گونا گوں اسباب وعلل معلوم کرنا ہوتا ہے ، خطیب تاریخ کا تجزیہ کر کے واقعات میں بکھرے پندو نصیحت اور عبرت کے گوشے تلاش کرتا ہے ، مثلاً قومیں کس طرح مٹ گئیں ، بادشاہ کیسے فنا ہو گئے ، قوموں کو اپنے جرائم کی سزاکیونکر ملی ، اس کے بر خلاف شائستہ کردار قومیں خوش بختیوں سے کس طرح نہال ہوئیں ، دیندار کا مقصد اعتقادات کی چھان بین کرکے بنیادی اسباب کی واقفیت حاصل کرنا ہوتاہے تا کہ حرص و طمع کی بازی گری اور خواہشات کی آلودگیوںکا سد باب کیا جا سکے ۔ ماہر اخلاق کا مقصد اعمال صالحہ اور ملکات فاضلہ کا صحت مند تجزیہ ہو تا ہے ، وہ بلند اخلاق قوموں کی نیک نا می اور پست اخلاق قوموںکی بد نامی سے واقفیت حاصل کرتا ہے اس طرح وہ اپنے معاشرے کو اجتماعی و انفرادی سطح پر ایک لا ئحہ عمل دیتا ہے، سیاست داں اس کے ذریعہ قوموں کے عروج و زوال کا پتہ لگا تا ہے کہ وہ کس طرح نفسانی گرا و ٹوں کی وجہ سے بھولی بسری داستان بن گئیں اور کن بنیادوں پر زندگی کے صبر آزما مراحل نے تجربات عطا کئے اور اس طرح وہ قوم کو ایک دستو ر العمل حوالے کرتا ہے ، ادیب بھی گزشتہ امتوں کے احوال سے ادب کے دقیق نکتے ،آرائش الفاظ کے باعظمت فقرے اور اسلوب کلام میں تیرتے ہوے نثر و نظم کے فنی اشارات و استعارات سے اپنی پیاس بجھا تاہے، ۔مختصر یہ کہ ان ہی وجوہات سے اصل حقیقت افراط و تفریط کاپلندہ بن کررہ گئی ہے، تعصب و جانبداری اور خواہشات کا شکا رہوئی ہے ،لہٰذا ارباب بحث و تحقیق پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس وادی میں قومی جذبات و میلانات سے بلند ہو کر ، پسند و نا پسند اور ضد و عناد سے الگ ہو کر مسلمہ اصولوںکے برجستہ معیار کے مطابق تاریخی صفحات کو پر کھیں ، اگر متعینہ معیار سے پست ہو تو مسترد کر دیں اور پورا اترے تو اعتماد کریں ،اس سے زیادہ تفصیل کا موقع نہیں ۔غدیرکے سلسلے سے تاریخی اہمیت پرغوروفکر:ہر دانش مند سمجھتا ہے کہ کسی چیز کی عظمت اس کے مقصد کی بلندی میں ہے اس لحاظ سے انسانی تاریخ کے وہی واقعات عظیم ہیں جو کسی دین کی اساس ،کسی ملت کی ڈگر اور کسی قوم کے معتقدات کی بنیاد ہوں یا جن کے تعلق سے حکومتوں کی تشکیل ہوتی ہو ۔
ہم سبھی کا سلام ہو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی جنہوں نے غدیری افکار کو پوری دنیا میں عام کیا خداوند عالم سے یہی دعاہے کہ رہبرمعظم حضرت آیة اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی کاسایہ تمام عاشقان ولایت کے سرپہ باقی رکھے تاکہ دنیاکے ہر گاوں اور شہر میں غدیری بزم وذکرسے باخبر ہوسکیں اور صدق دل سے اس پہ عمل کرنے کی کوشش کرسکیں۔
حجۃلاسلام والمسلمین مولاناسبط حیدرسمندپوری نے بھیک پور کی سرزمین پر نذر و نیاز،دعا و مناجات،بزم نظم اور اپنی مختلف تقاریر کے دوران فرمایا!تاریخی کتب میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ واقعہ غدیرکوکن کن لوگوں نے نقل کیا اور اہداف و مقاصد کیا تھے؟علامہ امینی نے جنکی فہرست مرتب کی وہ بطور اجمالی مندرجہ ذیل ہے :
١۔بلاذری (متوفی ٢٧٩ھ)نے'' انساب الاشراف'' میں ٢۔ابن قتیبہ (متوفی٢٧٦ھ)نے'' معارف'' اور'' الامامةو السیاسة'' میں٣۔طبری (متوفی٣١٠ھ)نے ''کتاب مفرد''میں ٤۔ابن ذولاق (متوفی٢٨٧ھ)نے اپنی ''تالیف'' میں ٥۔خطیب بغدادی (متوفی٤٦٣ھ )نے اپنی'' تاریخ'' میں ٦۔ابن عبدالبر(متوفی٤٦٣ھ)نے''استیعاب'' میں٧۔شہرستانی(متوفی٥٤٨ھ )نے ''الملل والنحل'' میں٨۔ابن عساکر(متوفی٥٧١ھ)نے اپنی'' تاریخ'' میں ٩۔یاقوت حموینی نے ''معجم الادباء ''کے آخری ایڈیشن میں ۔ابن اثیر(متوفی٦٣٠ھ)نے ''اسد الغابہ'' میں ١١۔ابن ابی الحدید(متوفی٦٥٦ھ)نے ''شرح نہج البلاغہ'' میں ١٢۔ابن خلّکان(متوفی٦٨١ھ)نے اپنی'' تاریخ ''میں ۱۳۔یافعی (متوفی٧٦٨ھ)نے ''مرأةالجنان''میں ١٤۔ابن شیخ بلوی( متوفی ٦٠٥ھ) نے ''الف،باء ''میں ١٥۔ابن کثیر شامی (متوفی٧٧٤ھ)نے'' البدایہ والنہایہ'' میں ۱۴۔ابن خلدون (متوفی٨٠٨ھ)نے'' مقدمۂ تاریخ ''میں١٧۔شمس الدین ذہبی( متوفی٧٤٨ھ) نے ''تذکرة الحفاظ ''میں ١٨۔نویری (متوفی لگ بھگ ٨٣٣ھ)نے'' نہا یة الارب فی فنون الادب ''میں ١٩۔ابن حجر عسقلانی (متوفی٨٥٢ھ)نے'' اصابہ'' اور'' تہذیب التہذیب'' میں ٢٠۔ابن صباغ مالکی (متوفی٨٥٥ھ)نے'' الفصول المہمہ'' میں ٢١۔مقریزی (متوفی٨٤٥ھ)نے''الخطط ''میں ٢٢۔جلال الدین سیوطی (متوفی٩١٠ھ)نے اپنی اکثر کتب میں ٢٣۔قرمانی دمشقی (متوفی١٠١٩ھ)نے ''اخبار الدول'' میں۔نور الدین حلبی (متوفی١٠٤٤ھ)نے ''سیرةحلبیہ ''میں اس کے دوسرے مورخین۔یہ تو تا ریخ کی آئینہ بندی تھی ۔لیکن فن حدیث کا اہتمام بھی کچھ کم نہیں کیونکہ محدث جس وقت اپنے فن کے وسیع تر گوشوں کی طرف ملتفت ہو گا تو اسے صحاح و مسانید میں واقعۂ غدیر کو ولایت امر دین کی حیثیت سے مندرج پا ئے گا اس تاریخی واقعہ کی نا قابل فراموش اہمیت کے پیش نظر اخلاف نے اسلاف سے اس کی روایت کی ہے پھر یہ سلسلہ اس خبرکو محفوظ رکھنے والے صحابہ کی جما عت تک پہو نچا، انھوں نے متعدد طبقات گزرنے کے با وجود اس میں چکا چوند کرنے والی شعاعیں دیکھیں ۔اس اہمیت کے باوجود اگر کوئی محدث اس کے ضبط و اندراج میں غفلت برتے تو گو یا اس نے قومی حقوق میں ڈنڈی ما ری اور اس پا کیزہ سرما یہ سے محروم کر دیا جسے رسول رحمت ۖنے حوالے کیا تھا اور جس مثالی ڈگر کی طرف آپ ۖکی رحمت ِواسعہ نے نشاندہی کی تھی ۔۔۔۔واقعہ غدیر کو جن ائمہ حدیث نے نقل کیا ہے ان کے نام یہ ہیں : ١۔شافعیوں کے امام ''ابو عبدللہ محمدبن ادریس شافعی'' بروایت نہایہ ٢۔حنبلیوں کے امام ''احمد بن حنبل''( متوفی ٣٤١ھ) نے اپنی مسند و منا قب میں٣۔ابن ما جہ(متوفی٢٧٣ھ)نے سنن میں ٤۔ترمذی (متوفی٣٧٦ھ)نے صحیح میں ٥۔نسائی (متوفی٣٠٣ھ)نے خصائص میں ٦۔ابو یعلی الموصلی (متوفی٣٠٧ھ)مسند میں بغوی ''مصابیح السنة ''میں۔دولابی ''الکنی والاسماء ''میں ۔طحاوی ''مشکل الآثار ''میں ۔حاکم ''المستدرک ''میں ۔ ابن مغاذلی ''منا قب''میں ۔ابن مندہ اصفہانی متعدد طرق سے اپنی تالیف میں گنجی''کفایہ ''میں ۔طبری''ریاض وذخائر ''میں ۔حموینی ''فراید ''میں ۔ذہبی ''تلخیص''میں ۔ہیثمی ''مجمع''میں ۔جزری ''اسنی المطالب ''میں ۔قسطلانی ''مواہب ''میں ۔ملا متقی ''کنزالعمال ''میں ۔ ہروی ''مرقاة ''میں ۔مناوی ''کنوز ''میں ۔شیخاوی ''صراط السوی ''میں۔باکثیر مکّی ''وسیلة المآل ''میں زرقانی ''شرح مواہب ''میں۔ابن ہمزہ ''الدیان و التعریف ''میں۔ان کے علاوہ دوسرے بہت سے محدثین.....۔محدثین کی طرح مفسرین نے بھی داد تحقیق دی ہے کیو نکہ جو آیا ت اس واقعہ سے متعلق نا زل ہو ئیں،ان کا بیان مفسر کے لئے واجب ولازم تھا ۔ان مفسرین میں اہم نام یہ ہیں :طبری ،ثعلبی ، واحدی ، بغوی ،قرطبی ، فخرالدین رازی ،قاضی بیضاوی ،ابن کثیر شامی ،نیشاپوری ،سیوطی ، عمادی،خطیب شربینی ،قاضی شو کا نی ،آلو سی بغدادی اور دوسرے۔
علماء علم کلام مو ضوع امامت کے سلسلہ میں اپنے حریف پر غلبہ یا نقل دلیل یا دوسری وجہوں سے واقعۂ غدیر کو نقل کئے بغیر نہ رہ سکے ۔جن متکلمین نے واقعہ غدیر نقل کیا ہے ان کے نام ہیں :قاضی ابو بکر باقلانی،قاضی ایجی شافعی ،شریف جرجا نی ، بیضاوی ،شمس الدین اصفہانی ،تفتازانی ،اور قو شجی ..۔ان متکلمین کے الفاظ یہ ہیں :بلا شبہ رسول خدا ۖنے غدیر خم (جو مکہ و مدینہ کے درمیان مقام جحفہ میں واقع ہے )کے دن حجة الوداع سے واپس ہو تے ہو ئے لو گوں کو جمع فرما یا ،وہ دن بڑا جھلستا ہو ا تھا ،لو گ گرمی سے ردائیں پاؤں کے نیچے رکھے ہوئے تھے ،آپ ۖ نے پا لان شتر کے منبر پر لو گو ں کو خطاب فر مایا :''اے گروہ مسلمانان !کیا میں تمھا رے نفسوں پر تم سے زیادہ با اختیار نہیں ہو ں''؟سب نے کہا :''خدا گواہ ہے آپ ہما رے نفسوں پر ہم سے زیادہ با اختیار ہیں ''۔پھر فرمایا :''من کنت مولاہ فعلی مو لاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ وانصر من نصرہ و اخذل من خذلہ ''۔جن دوسرے متکلمین نے واقعہ غدیر کو نقل کیا ہے ان میں قاضی نجم محمد شافعی ،سیوطی ،مفتی شام سماوی اور علامہ آلوسی بغدادی۔ماہرین ِ لغت کو بھی حدیث غدیر کا اشارتی تذکرہ کئے بغیر چارہ نہ تھا ،انہیں مولا ،خم ،غدیر اور ولی کے معنی بیان کرنا ہی تھا ۔ان ماہرین لغت میں ابن درید ،ابن اثیر،حموی،زبیدی اور بنہانی لائق ذکر ہیں۔