۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
الغدیر و مطہری

حوزہ/کتاب شریف الغدیر نے دنیائے اسلام میں عظیم طوفان پرپا کیا ہے ، اسلامی دانشوروں نے مختلف جہات اور پہلوؤں جیسے ادبی، تاریخی، کلامی، حدیثی،تفسیری اور اجتماعی طور پر اس عظیم الشان کتاب کا جائزہ لیا ہے۔

تحریر: استاد شہید مرتضیٰ مطہری

ترجمہ: سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسی। کتاب شریف الغدیر نے دنیائے اسلام میں عظیم طوفان پرپا کیا ہے ، اسلامی دانشوروں نے مختلف جہات اور پہلوؤں جیسے ادبی، تاریخی، کلامی، حدیثی،تفسیری اور اجتماعی طور پر اس عظیم الشان کتاب کا جائزہ لیا ہے۔اب ہم دوسرے مرحلے میں دیکھیں گے کہ الغدیر کے جلیل القدر مؤلف علامہ بزرگوار آیۃ اللہ امینی ؒ کا شمار کس گروہ میں میں ہوتا ہے؟اور ان کا نظریہ کیا تھا؟کیا وہ اتحاد مسلمین کو صرف تشیع کے دائرے میں قبول کرتے تھے؟ یا اخوت کے دائرے کو وسیع قرار دیتے تھے؟ اور معتقد تھے کہ اسلام شہادتین کی اقرار سے ثابت ہوتا ہے اور خود بخود بعنوان مسلمان ایک پر دوسرے کے حقوق واجب ہوتے ہیں اور اخوت اور بھائی چارگی کا رابطہ، جس کی قرآن میں تصریح ہوئی ہے تمام مسلمانوں میں محفوظ رہنا چاہئے۔

علامۂ امینی(رح)اس نکتے،ضروری ہے کہ اپنے نظریے کو اس موضوع کے بارے میں واضح کریں کہ”الغدیر“ کا وحدت اسلامی میں کیا کردار ہے؟ آیا مثبت کردار ہے یامنفی؟)  کی طرف مکمل طور پر متوجہ تھے تاکہ اعتراض کرنے والے(چاہئے وہ ان کے مخالف محاذ پر ہوں یا موافق) اس سے سوء استفادہ نہ کر سکیں۔ انہوں نے بارہا اور واضح انداز میں اپنے نکتۂ نظر کو بیان بھی کیا ہے۔
 علامہ امینی(رح) وحدت و اتحاد کے حامیوں میں سے ہیں اور اس مسئلے کو وسیع اور حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھتے ہیں۔آپ نے الغدیر کی مختلف جلدوں میں اس مسئلے کو بیان کیا ہے ہم ان میں سے بعض حصوں کو یہاں نقل کریں گے۔
 جلد اول کے مقدمے میں مختصر اشارہ کرتے ہیں کہ دنیائے اسلام پر الغدیر کا کیا اثر ہوگا؟ فرماتے ہیں:
ہم ان کاموں کو دین کی خدمت،کلمہ حق کی سربلندی اور امت اسلامی کا احیاء شمار کرتے ہیں۔
جلد سوم صفحہ۷۷ میں”ابن تیمیہ،آلوسی اور قصیمی کی جھوٹی باتیں نقل کرنے کے بعد کہ شیعہ اہل بیت میں سے بعض جیسے زید بن علی ابن حسین سے دشمنی رکھتے ہیں“ نقد واصلاح کے عنوان سے لکھتے ہیں:
یہ جھوٹ اور تہمتیں فساد کے بیج بوتے ہیں اور امت اسلامی میں دشمنی کو بڑھکاتے ہیں اور اسلامی جماعت میں اختلاف ڈالتے ہیں اور تمام امت کو متفرق کرتے ہیں اور یہ جمہور مسلمین کے مصالح کے ساتھ متصادم ہے۔ 
اسی طرح جلد سوم صفحہ۸۶۲ میں رشید رضا کی طرف سے شیعوں پر لگائی گئی اس تہمت (کہ شیعہ مسلمانوں کی شکست سے خوش ہوتے ہیں یہاں تک انہوں نے مسلمانوں پر روس کی کامیابی کا جشن منایا ہے) کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
اس طرح کے جھوٹ جو رشید رضا جیسوں کی طرف سے گڑھا گیا ہے اور عراق وایران کے شیعہ مورد تہمت واقع ہوئے ہیں،اسی طرح مستشرقین اور سیاحوں اور اسلامی وغیر اسلامی ممالک کے نمائندے(جن کی ایران میں آمد ورفت تھی اور ہے) ان واقعات سے بے خبر ہیں۔شیعہ سب کے سب،تمام مسلمانوں چاہئے وہ شیعہ ہوں یاسنی سب کی جان،عزت اور مال کے احترام کے قائل ہیں اسی لئے جب اور جہاں، جس علاقے اور جس فرقے میں عالم اسلام پر کوئی مصیبت آئی ان کے غم میں شریک تھے۔شیعوں نے کبھی اسلامی برادری کو(جس کی قرآن  وسنت میں تصریح ہوئی ہے) صرف شیعوں میں محدود نہیں کیا ہے اور اس لحاظ سے شیعہ وسنی میں فرق کے قائل نہیں ہیں۔

جلد سوم کے آخر میں علمائے متقدمین کی بعض کتابوں جیسے ”عقد الفرید“ ابن عبد ربہ، ”الانتصار“ ابوالحسن خیاط،”الفرق بین الفرق“ ابو منصور بغدادی،”الفصل“ ابن حزم اندلسی،”الملل والنحل“ عبد الکریم شہرستانی،”منہاج السنۃ“ ابن تیمیہ او ر ’’البدایہ والنہایہ“ ابن کثیر اورمتاخرین کی بعض کتابوں جیسے ”تاریخ الامم الاسلامیہ“ شیخ محمد خضری،فجر الاسلام“ احمد امین،الجولۃ فی ربوع الشرق الادنی“ ثابت مصری،الصراع بین الاسلام والوثنیہ“ قصیمی اور ”الشیعہ“ موسی جار اللہ پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ان کتابوں پر ہماری تنقید کا مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ کو خطرات سے آگاہ کریں اور ان کو بیدار کریں کہ یہ کتابیں بہت بڑے خطرات کو اسلامی معاشرے میں پیدا کرتی ہیں کیونکہ وحدت اسلامی کو متزلزل اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرتی ہیں، ان کتابوں سے بڑا سبب نہیں ہے جو مسلمانوں کی صفوں کو پارہ پارہ کرے اور ان کے وحدت و بھائی چارگی کے رشتے کو ختم کرے۔
علامہ امینی(رح) الغدیرجلد پنجم کے مقدمے میں ”نظریۂ کریمہ“ کے موضوع پر ایک خط جو الغدیر کے بارے میں مصر سے موصول ہوا، اپنی نظر کو مکمل طور پر واضح کر کے بیان کرتے اور اس بارے میں کسی قسم کے شک کوباقی نہیں چھوڑتے،فرماتے ہیں:
مذاہب کے بارے میں عقائد وآراء میں سب آزاد ہیں اور یہ ہرگز اسلامی برادری(جس کی قرآن نے انما المومنون اخوۃ کے ذریعے تصریح کی ہے)کو نقصان نہیں پہنچاتا ہے۔اگرچہ علمی مباحثے اورکلامی مناظرے اپنے اوج پر پہنچے۔سلف جن میں صحابہ وتابعین سرفہرست ہیں،کی سیرت یہی تھی۔ ہم مؤلفین اور مصنفین جو دنیا کے گوشہ وکنار میں ہیں، اصول اور فروع میں اختلافات کے باوجود ہمارا ایک مشترکہ معاشرہ ہے اور وہ خدا اور پیغمبر(ص) پر ایمان ہے اور ہمارے جسموں میں ایک ہی احساس حکم فرما ہے اور وہ روحِ اسلام اور کلمہ اخلاص ہے۔
 ہم تمام مسلمان مؤلفین حق کے پرچم کے سایے میں زندگی بسر کرتے ہیں اور قرآن کی قیادت اور پیغمبر(ص)کی رسالت کے تحت اپنے وظائف کو انجام دیتے ہیں۔ہم سب کا پیغام یہ ہے:"ان الدین عند اللہ الاسلام“ اور ہمارا نعرہ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ ہاں! ہم خدا کے گروہ اور اس کے دین کے حامی ہیں۔
علامہ امینی(رح) چھٹی جلد کے مقدمے میں ”الغدیر یوحد الصفوف فی الملاء الاسلامی“ کے عنوان سے مستقل طور پر وحدت اسلامی میں ”الغدیر“ کے کردار پر بحث کرتے ہیں اور اس بحث میں ان افراد کے اتہامات کو ذکر کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ”الغدیر“ مسلمانوں میں تفرقہ کا سبب بنی ہے اور ان کو رد کرکے ثابت کرتے ہیں کہ اس نظریے کے برعکس الغدیر نہ صرف مسلمانوں میں اتحاد کے لئے نقصان دہ نہیں بلکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے قریب تر کرنے کا باعث بنی ہے۔ اس سلسلے میں غیر شیعہ مسلمان دانشوروں کے اعترافات کو گواہ کے طور پر لاتے ہیں اور آخر میں ”شیخ محمد سعید دحدوح“ کے خط کو اسی مناسبت سے نقل کرتے ہیں۔
  ہم زیادہ طول دینے سے بچتے ہوئے، مذکورہ موضوع پر وحدت اسلامی میں الغدیر کے کردار کے حوالے سے علامہ امینی کے تمام اقوال کو نقل اور ترجمہ کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں کیونکہ جو کچھ نقل ہوا وہ ہمارے مدعی کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

وحدت اسلامی میں الغدیر کا مثبت کردار اس لحاظ سے ہے کہ:

 اولا؛ یہ شیعوں کی منطقی دلیل کو واضح کرتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ دس میلیون(کروڑوں) شیعہ (بعض افراد کے زہر آلود پروپیگنڈوں کے برخلاف) کسی سیاسی اور قومی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک قوی منطق جو قرآن وسنت پر قائم ہے اس کی طرف لوگوں کی میلان کا سبب ہے۔
 ثانیاً؛ یہ ثابت کرتی ہے کہ بعض لوگ جو تہمتیں شیعوں پرلگاتے ہیں،(جو دوسرے مسلمانوں کی ان سے دوری کا سبب بنتی ہیں) جیسے شیعہ غیر مسلم کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے ہیں اور غیر شیعہ مسلمانوں کی شکست سے خوش ہوتے ہیں اور شیعہ حج کے بجائے ائمہ کی زیارت کے لئے جاتے ہیں یا نماز میں یوں اور ازدواج موقت میں یوں کرتے ہیں، سب کے سب بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔
ثالثاً؛ امیر المؤمنین علی ؑ جو کہ تاریخ کی مظلوم ترین اور ناشناختہ ترین عظیم اسلامی شخصیت ہیں اور تمام مسلمانوں کے لئے رہبر وپیشوا بن سکتے ہیں،اور اسی طرح ان کی  پاک و مطہر نسل کو دنیائے اسلام کے لیے پہچنواتی ہے۔

الغدیر دوسروں کی نظر میں:

بہت سے غیر شیعہ اور بے غرض مسلمان دانشوروں کی نظر بھی یہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ محمد عبد الغنی حسن مصری الغدیر جلد اول (دوسرے ایڈیشن) کی تقریظ میں رقمطراز ہیں: میں خدا سے چاہتا ہوں کہ آپ کے شفاف پانی کے اس گودال (الغدیر عربی میں پانی کے گودال کوکہتے ہیں)کو دو بھائی شیعہ اور سنی کے درمیان صلح اور صفائی کا ذریعہ قراردے تاکہ یہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر امت اسلامی کی تعمیر کرسکیں۔
 عادل غصبان مصری مجلہ الکتاب کے مدیر جلد سوم کے مقدمے میں کہتے ہیں:
 یہ کتاب شیعوں کی منطق کو واضح کرتی ہے،اہل سنت بھی اس کتاب کے ذریعے شیعوں کو صحیح طریقے سے پہچان سکتے ہیں۔شیعوں کی صحیح شناخت اس بات کا سبب بنے گی کہ شیعہ وسنی نظریات میں ایک دوسرے کے قریب ہوں اور ایک ہی صف تشکیل دیں۔
 ڈاکٹر محمد غلاب،الازیر مصر کے کلیۂ اصول الدین کے فلسفہ کے استاد نے الغدیر پر اپنی تقریظ لکھی ہے،جوچوتھی جلد کے مقدمے میں شائع ہوئی ہے، وہ فرماتے ہیں:
 آپ کی کتاب بہت ہی مناسب وقت میں میرے پاس پہنچی کیونکہ میں مسلمانوں کی تاریخ  کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے ایک کتاب کی جمع آوری اور تالیف میں مصروف ہوں۔میں شیعہ امامیہ کے بارے میں صحیح معلومات چاہتاتھا اور آپ کی کتاب میری مدد کرے گی اور میں دوسروں کی طرح شیعوں کے بارے میں خطا کا مرتکب نہیں ہوں گا۔
 ڈاکٹر عبد الرحمن کیا لی حلبی نے الغدیر کی چوتھی جلد کے مقدمے میں اپنی تقریظ میں عصر حاضر میں مسلمانوں کی پسماندگی اور ان کی اس اسفبارصورتحال سے نجات کے عوامل کی طرف اشارہ کرنے کے بعد، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے(کہ پیغمبر(ص) کے جانشین کی صحیح شناخت ان عوامل میں سے ایک ہے) کہتے ہیں:
 کتاب الغدیر اور اس کے غنی مطالب وہ چیز ہے جس سے  ہرمسلمان کو آگاہ ہونا چاہئے  تاکہ معلوم ہوسکے کہ کس طرح مؤرخین نے کوتاہی کی ہے اور حقیقت کہاں ہے؟ اور اس کے ذریعے ہمیں اپنے گزشتہ کا ازالہ کرنا چاہئے تاکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے راستے میں اجر وثواب حاصل کرسکیں۔
 ہاں!یہ ہمارے دور  کے سب سے اہم اجتماعی مسئلہ کے بارے میں علامہ امینی(رح) کا نکتۂ نظر اور دنیائے اسلام میں ان کا مثبت ردعمل تھا۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .