۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ

حوزہ/ اسلام دنیا اور آخرت دونوں جہان کی قیادت و رہنمائی کا اصول و دستور پیش کرتا ہے۔لہٰذا امت ِ مسلمہ کا ولی و حاکم و امیر وہ ہوگا جسے دونوں جہان کا خالق و مالک معین کرے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی واعظ بانی و سرپرست حسن ؔاسلامک ریسرچ سینٹر۔املو،مبارکپور ،ضلع ا عظم گڑھ۔(اتر پردیش) ہندوستان نے عید غدیر کے مناسبت سے اپنی ایک تحریر میں کہا کہ یہ امر ہر خاص و عام پر ظاہر و باہر ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں ہے جس کا کوئی اچھا یا براحاکم نہ ہو۔جس کا کوئی امن پسند یا شر پسند امیر نہ ہو۔اگر کوئی ملک خود مختار،آزاد،اور جمہوری ہے تو وہاں کے عوام انتخاب کے ذریعہ اپنا حاکم خود منتخب کرتے ہیں ۔اور اگر کوئی ملک غیر جمہوری ہے غلامی ،بادشاہی تانا شاہی نظام کے تحت دست استبداد کے چنگل میں پھنسا ہوا ہےتو وہاں کوئی ایک خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص اہل ہو یا نا اہل، لائق ہو یا نا لائق،حاکم بن جاتا ہے۔وہاں عوام کی پسند و ناپسند کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ 

غرض کوئی قوم،کوئی قبیلہ،کوئی خاندان،کوئی خانوادہ بغیر کسی ولی و حاکم و سرپرست کے نہیں ہوتا۔حتیٰ کہ شرعی احکام کے اعتبار سے اگر چند آدمی کہیں کسی سفر میں چند ساعت یا چند روز کے لئے بھی جا رہے ہوں تو ان کے لئے بھی حکم ہے کہ وہ آپس میں مل کر کسی ایک امیر سفر کو متعین کر لیں تاکہ سفر کے دوران کوئی بد نظمی نہ ہو اور سفر کامیابی سے ہمکنار ہو۔

اور فقہی مسائل کے لحاظ سے اگر دو رکعت نماز جماعت کے ساتھ پڑھنی ہو اور دو ہی آدمی نماز پرھنے والے ہوں تو ان میں سے ایک جو زیادہ نیک اور صالح ہو وہ امام جماعت بنتا ہے اور دوسرا مقتدی ہوتا ہے۔

یہ سب باتیں اس امر کی روشن دلیلیں ہیں کہ امّتِ مسلمہ بھی بغیر ولی و حاکم و سرپرست کے نہیں رہ سکتی۔ قابل نظر تو یہ امر ہے کہ ولی و حاکم و سرپرست کی ضرورت و اہمیت سے تو کسی کو انکار نہیں ہے مگر اکثریت نے خلافتِ الٰہیہ کے معاملہ میں بھی اپنے من پسند حکمران کو منتخب کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھائی جس کا نتیجہ بھی ہر کوئی مشاہدہ کر رہا ہے۔ آج امت ِ مسلمہ کے اندر فرقہ بندی،تفرقہ اندازی ،افراتفری،نفرت انگیزی کے اسباب و علل کیا ہیں؟۔اللہ کے بنائے ہوئے اور بندوں کے بنائے ہوئے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

اللہ ولی الذین آمنو یخرجھم من الظلمٰت الی النور،والذین کفروا اولیاءھم الطاغوت یخر جونھم من النور الی الظلمٰت اولئک اصحاب النار ھم فیھا خٰلدون ۔(پارہ ۳،سورۂ بقرہ، آیت ۲۵۸)

’’ یعنی خدا ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لا چکے ہیں انھیں گمراھی کی تاریکیوںسے نکال کر ھدایت کی روشنی میں لاتا ہے۔اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سرپرست شیطان ہیں۔کہ ان کو ایمان کی روشنی سے نکال کر کفر کی تاریکیوں میں ڈال دیتے ہیں ۔یہی لوگ تو جہنمی ہیں اور یہی اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

اسلام دنیا اور آخرت دونوں جہان کی قیادت و رہنمائی کا اصول و دستور پیش کرتا ہے۔لہٰذا امت ِ مسلمہ کا ولی و حاکم و امیر وہ ہوگا جسے دونوں جہان کا خالق و مالک معین کرے گا۔یہی اسلام کا دستور و آئین ہے۔اسی دستور کے مطابق پروردگار عالم نے ایک لاکھ چوبیس ھزار انبیاء و مرسلین بھیجے ۔اور جب پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰ  ؐ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا تو ولایت و امامت کا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے اور قیام ِقیامت تک قائم رہے گا۔

یوں تو پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی میں متعدد بار مولا علی ؑ کی ولیعہدی کے بارے میں اعلان فرمایا کبھی دعوتِ ذوالعشیرہ کے محدود دائرہ میں،کبھی غزوۂ تبوک کے موقع پر ،کبھی تبلیغ سورۂ برأت کے وقت مختلف پیراؤں ،واضح اشاروں ،آسان کنایوں اور واشگاف فرمانوں سے ہر غیر جاندار اور انصاف پسند شخص پر یہ امر واضح ہو چکا تھا کہ آنحضرت صلعم کے بعد حیدر کرار ہی آپ کے ولیعہد و جانشین ہوں گے۔ مگر فرمان خداوندی : یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلّغت رسالتہ۔واللہ یعصمک من الناس انّ اللہ لا یھدی القوم الکٰفرین ۔(پارہ ۶،سورۂ مائدہ،آیت ۶۷)
’’ یعنی اے رسول آپ پر جو نازل کیا جا چکا ہے اسے لوگوں تک پہونچا دیجیئے ،اگر آپ نے یہ نہیں کیا تو گویا کوئی کار رسالت انجام ہی نہیں دیا، بے شک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ھدایت نہیں دیتا‘‘اس کی تعمیل میں ۱۸؍ ذی الحجۃ الحرام سنہ ۱۰ھجری کو میدان غدیر خم میں پیغمبر اسلام نے کم و بیش ایک لاکھ چالیس ھزار حاجیوں کے مجمع میں جس ناز وانداز ، شان و شوکت  اور انتظام و اہتمام کے ساتھ مولا علی ؑ کی ولایت و حاکمیت کا اعلان فرمایا وہ نیا نرالا ضرور تھا مگر جس کی ولایت و امارت کا اعلان کیا وہ بہت پرانا تھا اور ہے اور رہے گا۔کیونکہ مولا علیؑ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک کل نبیوں اور رسولوں کے ولی و حاکم تھے۔کوئی نبی نبی نہیں ہوتا،کوئی رسول رسول نہیں ہوتا،کوئی ولی ولی نہیں ہوتا،کوئی وصی وصی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ نبیؐ کی نبوت اور علیؑ کی ولایت کا اقرار نہ کرے۔  جب تک مولا علی ؑ کی ولایت و امارت کا اعلان نہیں ہوا تب تک نہ دین کامل ہوا نہ نعمتیں تمام ہوئیں۔جب رسول خدا نے پالان شتر کے منبر پر کھڑے ہوکر اپنے ہاتھوں پر علی ؑ کو بلند کرکے بعد خطبۂ فصیح و بلیغ کے ارشاد فرمایا من کنت مولاہ فھٰذا مولاہ کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا یہ علیؑ مولا ہے‘‘(تفسیر عمدۃ البیان جلد۱ صفحہ ۲۱۶)

اس کے بعد آیۂ مبارکہ مژدۂ جانفزا بن کر نازل ہوئی: الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون ،الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیک نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا(پارہ ۶،سورۂ مائدہ آیت ۳)
’’یعنی آج کے دن کفار تمھارے دین سے نا امید ہوگئے ،خبردار ! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا ۔آج میں نے تمھارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کردیااور تمھارے لئے دین اسلام سے راضی ہوگیا‘‘۔
قرآن مجید کی روشنی میں ثابت ہو تا ہے کہ :۔
اعلان ِولایت ِ علیؑ ختم نبوت کی کھلی ہوئی دلیل ہے۔
اعلان ِ ولایت علیؑ اکمال دین کی سند ہے۔
اعلان ِ ولایت ِ علیؑ اتمام نعمت کا مژدۂ جانفزا ہے۔
اعلان ِ ولایتِ علی ؑ کفار و مشرکین و منافقین کے لئے مایوسی و محرومی کا باعث ہے۔
اعلان ِ ولایت ِ علی ؑ صراط ِ مستقیم کی جانب رہنمائی ہے۔
اعلان ِ ولایتِ علی ؑ رضایت خداوندی کا تمغہ ہے۔
اعلان ِ ولایت ِ علیؑ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے۔ 
اعلان ِ ولایت ِ علیؑ اسلام دشمن حکومتوں اور استکباری طاقتوں کے منھ پر زوردار طمانچہ ہے۔
اعلان ِ ولایتِ علی ؑ امت ِ مسلمہ کے لئے وحدت آفرین پیغام الٰہی ہے۔
پروردگار عالم نے حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا ہے : لو اجتمع الناس کلھم علیٰ ولایۃ علی علیہ السلام ما خلقت النار( امالی شیخ صدوق  ؒ ،صفحہ ۶۵۷)
’’ یعنی اگر تمام لوگ ولایت ِ علی ؑ پر راضی ہوتے تو میں آتش جہنم کو خلق نہ کرتا‘‘۔

فردوس الاخبار میں حذیفہ بن الیمان سے مروی ہے کہ رسول ؐ نے فرمایا ۔اگر آدمیوں کو معلوم ہوتا کہ علی ؑ کا نام امیر المومنین کب رکھا گیا تو ہرگز اس کی فضیلت کا انکار نہ کرتے ۔علی ؑ کو اس نام سے اس وقت پکارا گیا جب کہ آدم ؑ روح اور بدن کے درمیان تھا۔اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ اور اس کی اولاد کی روحوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ،کیا میں تمھارا پروردگار نہیں ہوں؟ ۔انھوں نے عرض کی ہاں تو ہمارا پروردگار ہے۔پس فرمایا میں تمھارا پرور دگار ہوں ،اور محمد ؐ تمھارا نبی ہے ،اور علی ؑ تمھارا امیر اور ولی ہے۔فقال تعالیٰ انا ربکم و محمد نبیکم وعلی امیرکم‘‘۔(کوکب دری فی فضائل علی کرم اللہ وجھہ،ترجمہ مناقب مرتضوی ،مصنفہ محمد صالح کشفی ،صفحہ ۱۷۵)
 یہ مسلم الثبوت حقیقت ہے کہ حیدرکرار حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لئے ہی ’’امیر المومنین ‘‘ کا لقب خاص ہے۔اس کے حوالہ سے معروف ایرانی شاعر و مداح اہل بیت ؑ آقائی نویدؔ اطلاعتی نے بھی کیا خوب کہا ہے :۔
’’فقط حیدر امیر المومنین است ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .