۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 370770
25 جولائی 2021 - 19:40
امام معصوم

حوزہ/ اگر تمام انسان فضل و کمال کے اعتبار سے مساوی ہوں تو ان میں سے کسی کو بعنوان امام انتخاب کرنا ترجیح بلا مرجح ہے یعنی مرجح کے بغیر کسی کو ترجیح دینا قبیح ہے لہذا امام کو  فضائل اخلاقی و کمالات نفسانی کےلحاظ سے دوسروں سےحتماافضل ہونا چاہیے ۔

تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ نیوز ایجنسیشیعہ امامت کو کار نبوت و رسالت کا استمرار و تسلسل سمجھتا ہے اور اسے مسئلہ  الہیٰ قرار دیتا ہے ۔ امام پیغمبر اور نبی کی طرح خداوند متعال کی طرف سے معین ہوتا ہے۔ اسی لئے امام اور پیغمبر میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ پیغمبر پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو وحی  الہیٰ ٰ پہنچاتا ہے لیکن امام پر وحی نازل نہیں ہوتی کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت و وحی کا سلسلہ ختم ہوا ہے۔شیعہ عقائد کے مطابق امام کے اندر بہت سے شرائط اور خصوصیات کاموجود ہوناضروری ہے ۔

1۔عصمت امام
امام کوعصمت کے درجے پر فائز ہونا چاہیے تاکہ وہ احکام  الہیٰ  کے بیان میں غلطی نہ کرے کیونکہ  اگر امام معصوم نہ ہوتو لوگوں تک احکام  الہیٰ  کاصحیح ابلاغ نہیں ہو گا جس کے نتیجےمیں تشریع دین ا ور نبوت کا مقصد ہی ختم ہوگا جبکہ مقصد کاختم ہونا حکمت  الہیٰ  کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔لہذا امام کو معصوم ہوناچاہیے۔شیعہ متکلمین اس استدلال کو کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں : امام کی ذمہ داریوں میں سے ایک شریعت کےاحکام کو تحریف و تغییر سے محفوظ رکھناہے۔یعنی کلام  الہیٰ  کی تفسیر اور احکام  الہیٰ  کےبیان میں جتنےاقوال و نظریات بیان ہوتےہیں  ان کا امام کے کلام  کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے حق و باطل میں تمیزکیا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے شریعت میں کوئی تحریف و تبدیلی واقع نہیں ہوتی ۔اگر امام معصوم نہ ہو تویہ اہداف حاصل نہیں ہوں گے ۔ 
علامہ حلی رہ اس دلیل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتےہیں : صرف قرآن کریم اور سنت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے شریعت کی حفاظت نہیں ہوسکتی کیونکہ ان دونوں میں احکام  الہیٰ  تفصیل کےساتھ بیان نہیں ہوئے ہیں ۔اسی طرح اجماع مسلمین بھی حافظ شریعت نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر ان کے درمیان کوئی معصوم ہستی موجود نہ ہو توان کا کسی بھی غلط چیز پر اجماع کرنا محال نہیں ہے ۔ لہذا امام کے حافظ شریعت ہونے کے علاوہ اور کوئی صورت موجود نہیں ۔ اگر امام عصمت کے درجے پر فائز نہ ہو تو اس کی باتوں کو صحیح اور  غلط میں تمیز کا پیمانہ نیز  احکام  الہیٰ  کو دوسری چیزوں سے جداکرنے کا معیار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ لوگ احکام  الہیٰ  پر صحیح عمل نہیں کر سکیں گے ۔۱
آیت کریمہ {لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّالِمِين}۲{ عہدہ امامت ظالمین کونہیں ملےگا{بھی عصمت امام پر دلالت کرتی ہے کیونکہ معصیت یعنی احکام  الہیٰ  سے تجاوز کرنا، ظلم کے واضح ترین مصادیق میں سے ایک ہے  ۔چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے:{وَ مَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُوْلَئكَ هُمُ الظَّالِمُون}۳اور جو حدود  الہیٰ  سےتجاوز کرے گا وہ ظالمین میں شمار ہوگا۔قرآن نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے :{إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيم}۴شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔لہذا جو بھی ظلم کرتا ہے وہ منصب امامت کا سزاوار نہیں ہو سکتا۔
آیت کریمہ{ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّالِمِين}خداوند متعال کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس درخواست کا جواب ہے  جس میں آپ ؑنے اپنی اولادکے لئے بھی منصب امامت کو طلب کیا۔ جب خدا وند متعال نےحضرت ابراہیم علیہ السلام کو مقام امامت سے نوازا تو  ارشاد فرمایا:{إِنىّ‏جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا}میں تجھےلوگوں کا امام اورقائد بنا رہاہوں  ۔اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس عظیم منصب کو اپنی اولاد کے لئے بھی طلب کیا جیساکہ آپ ؑنےفرمایا :{قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتى}میری ذریت کے لئے بھی  ۔خدا وند متعال نے فرمایا :{لَايَنَالُ عَهْدِى الظَّالِمِين}یہ عہدہٴ امامت ظالمین کونہیں ملے گا۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ذریت کو ہم چار گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :
1۔ وہ  افرادجوپیدائش سے لےکر آخری عمر تک کوئی گناہ انجام نہ دیں ۔ ان پر ظالم کالفظ صادق نہیں آتا  ۔2۔ وہ افراد جو زندگی کے پہلے مرحلے میں گنا ہ انجام دیتے ہیں لیکن اس کے بعد توبہ و استغفار کرتے ہیں اور آخری دم تک دوبارہ گناہ انجام نہیں دیتے۔3۔وہ افراد جو زندگی کے آخری حصے میں گناہ انجام دیتے ہیں اور توبہ و استغفار بھی نہیں کرتے ۔4۔وہ افراد جو ہمیشہ گناہ میں غرق رہتےہیں ۔واضح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں سے آخری دو قسموں کےلئے  منصب امامت طلب نہیں کیا تھا کیونکہ یہ دو گروہ منصب امامت کے لئے سزاوار ہی نہیں اورحضرت ابراہیم  علیہ السلام جیسی شخصیت سے بہت بعید ہے کہ آپؑ ایسے افراد کے لئے منصب امامت طلب کریں جو زندگی بھر  گناہوں کے مرتکب رہیں یا زندگی کے آخری حصے میں ہر قسم کے  گناہوں میں مبتلا ہوں۔  بنابریں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن افراد کے لئے طلب امامت کی ہے وہ پہلے دو گروہ  ہی ہو سکتے ہیں ۔ خداوند متعال نے دوسرے گروہ کو بھی مستثنی کیا ہے لہذا پہلا گروہ ہی باقی رہ جاتا ہے جس کاوجودعصمت کے بغیر ممکن ہی نہیں کیونکہ کسی غیر معصوم کا پیدائش سے مرتے دم تک جملہ گناہوں اور لغزشوں { چاہے وہ عمداً ہو یا سہواً، کبیرہ ہوں یا صغیرہ }کا مرتکب نہ ہونا عام حالت میں محال ہے ۔۵
آیت کریمہ { أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلىِ الْأَمْرِ مِنكم}۶{اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کیاطاعت کرو}بھی اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ کسی فرد یا افراد کی بے چوں وچرا اطاعت کا واجب ہونا اس چیزکو بیان کرتاہے کہ اولی الامر تمام  گناہوں اور لغزشوں سے پاک و منزہ ہے ۔دوسری بات یہ کہ اولی الامرکو رسول پر عطف کرنا اس نکتے کوبیان کرتا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کا  جومعیار  ہے وہ ہوبہو رسول اللہ کی اطاعت کا معیار ہے ۔بنابریں جس طرح پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہیں اسی طرح اولی الامر بھی معصوم ہیں۔  خلاصہ یہ کہ امام کی عصمت کے بارے میں دو نکات موجود ہیں:الف: امام کو معصوم ہونا چاہیے ۔یعنی جو بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد منصب امامت پر فائز ہو کر امت اسلامی کی رہبری کرنا چاہے اسےمعصوم ہونا چاہیے ۔ب:ائمہ اہلبیت علیہم السلام مقام عصمت پر فائز ہیں۔بنابریں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہی افرادامت اسلامی کی امامت و رہبری کے لئےسزاوار ترین افردہیں اور منصب امامت کے بھی یہی لوگ زیادہ حقدار ہیں۔

2۔ علم اور دوسرے ذاتی کمالات 
امام کو احکام دینی اور مسلمانوں کے مصالح و مفاسد سے آگاہ ہونا چاہیے تاکہ اہداف امامت حاصل ہو سکیں ۔ علاوہ ازیں اسے  تمام کمالات نفسانی اور فضائل اخلاقی سے آراستہ بھی ہونا چاہیے کیونکہ وہ اخلاق اور کردار کے لحاظ سے دوسروں کے لئےنمونہ ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام  اس بارے میں فرماتے ہیں :{والامام عالم لا یجهل ، وراع لا ینکل ، معدن القدس و الطهارة ، و النسک و الزهادة ، و العلم و العبادة ، لامغمز فیه فی نسب و لا یدانیه ذو حسب .... نامی العلم ،کامل الحلم ، مضطلع بالامامة ،عالم بالسیاسة} امام عالم ہوتا ہےاورکسی چیز سےجاہل نہیں ہوتا۔وہ ایسا رہبراو رنگہبان ہے جس میں ضعف و سستی کا امکان نہیں ۔وہ طہارت اور پاکیزگی کا سر چشمہ اورزہد و عبادت کا پیکر ہوتا ہے ۔اس کے نسب میں کھوٹ نہیں ہوتی اورشرافت نسب  میں اس  کا  کوئی ثانی نہیں ہوتا ۔۔وہ کثیر علم کا مالک ہوتا ہے  اوربردباری سے سرشارہوتا ہے وہ جامع شرائط امامت اور سیاست  الہیٰ کا عالم ہوتا ہے ۔ 
ائمہ اہل بیت علیہ السلام کے علوم کے دو کلی مآخذ ہیں:الف: وہ علوم و معارف جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان تک بطور ارث منتقل ہوئے۔ یہ دوطریقوں سے ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث میں بیان ہوئی ہیں ۔
1۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالواسطہ یا بلاواسطہ نقل کرنے کےذریعے۔ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت ساری احادیث اس طریقے سے بیان ہوئی ہیں ۔ اگر انہیں جمع کیا جائے توایک بڑی ضخیم کتاب بن جائےگی۔ حدیث سلسلۃ الذہب {جو امام رضا علیہ السلام سے کلمہ توحید کے بارے میں روایت ہوئی ہے} اسی قسم کی احادیث کا نمونہ ہے ۔۷
2۔حضرت علی علیہ السلام کی کتاب سے روایت کی صورت میں: حضرت علی علیہ السلام  ساری زندگی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے جس کی بنا پر آپ ؑپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بے شمار احادیث کو ایک کتاب میں جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔{حقیقت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی املا پر حضرت علی علیہ السلامنے تحریر کیا ہے} ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی احادیث میں  اس کتاب کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں اور یہ کتاب حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کے پاس موجودرہی ۔۸  ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں اس کتاب کو [جامعہ} کہا گیا ہے کیونکہ احکام  الہیٰ  کے بارےمیں یہ ایک جامع کتاب تھی ۔ 
ب:وہ حقائق و معارف جنہیں خدا وند متعال نے انہیں الہام فرمایا ہے ۔ اگرچہ وحی   پیغمبر کے ساتھ ہی مختص ہے اور ختم نبوت کے ساتھ وحی کا باب بھی بند ہوا ہے مگر  اولیاء  کےلئے غیبی و  الہیٰ  الہام کا باب کبھی بند نہیں ہوتا ۔ائمہ اطہار علیہم السلام جو اولیاء  میں سےبھی برگزیدہ تھے،وسیع  پیمانے پر غیبی و الہیٰ الہام کے حامل تھے  ۔ دینی اصطلاح میں ایسے افراد کو جو عالم غیب سے حقائق و معارف حاصل کرتےہیں {محدث}کہتے ہیں ۔ یہ نکتہ شیعہ و سنی  احادیث میں موجود ہے ۔ محدث وہ  ہوتاہے جو نبی نہ ہونے کے باوجود فرشتوں سے ہم کلام ہوتاہے ۔جیساکہ صحیح بخاری میں موجود ہے :{لقد کان فیمن کان قبلکم من بنی اسرائیل یکلمون من غیر ان یکونواانبیاء}۹بنی اسرائیل میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جو نبی نہ ہونےکے باوجود فرشتوں سے ہم کلام ہوتےتھے۔ محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے {محدث} کے بارے میں سوال کیا  تو آپؑ نے فرمایا:{انه یسمع الصوت و لا یری الشخص}وہ غیبی آواز کو تو سنتا ہے لیکن کسی کو دیکھتا نہیں ۔ اس نے دوبارہ سوال کیا : پھرکیسے معلوم ہوگا کہ یہ کلام فرشتے کا ہے ؟ تب آپ ؑنے فرمایا:{انه یعطی السکینة و الوقار حتی یعلمانه کلام ملک}۱۰اسے ایسا سکون اور اطمینان حاصل  ہوتاہے جس سے وہ جان لیتاہے کہ یہ ہم کلام ہونے والا فرشتہ ہے ۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام عصمت کے درجے پر فائز تھے اور یہ لوگ راسخون فی العلم اور علم لدنی کے مالک تھے جو قرآن کریم کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے ۔یہ لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم کے وارث تھے اور ان کے پاس معارف نبوی کاملا موجود  تھے۔بعبارت دیگر یہ افراد کتاب و سنت کے ترجمان تھے ۔

3۔ امام کا دوسروں سے افضل ہونا:
 عقلی لحاظ سے مفضول کو فاضل پر یا فاضل کو افضل پر مقدم کرنا قبیح ہے نیز خداوند متعال ہر قسم کے ناپسندیدہ افعال کے بجالانے سے پاک و منزہ ہے ۔بنابرین اس حکم  کےبارے میں عقل و شرع کے درمیان مطابقت پائی جاتی ہے ۔ لہذا امام کو تمام اچھی صفات میں  {جیسے  علم ،سیاست ،تقوی و پرہیزگاری وغیرہ }جو ایک اسلامی معاشرے کی رہبری کے لئے ضروری ہیں دوسروں سے افضل ہونا چاہیے تاکہ امامت  کےاہداف  کو حاصل کیا جا سکے  ۔ امام رضا علیہ السلام کی مذکورہ حدیث میں یہ عبارت {لایدانیه ذو حسب}{ کوئی عظمت نسب میں اس کامقابلہ نہیں کر سکتا} انہیں صفات کی طرف اشارہ ہے ۔ آپ ؑدوسرے مقام پر  ارشادفرماتے ہیں :{الامام واحد دهره،لایدانیه احد،ولایعادله عالم، ولایوجد منه بدل،ولا له مثل ولا نظیر،مخصوص بالفعل کله،من غیرطلب منه ولا اکتساب}۱۱ امام اپنے زمانےمیں یگانہ ہوتا ہے۔کوئی فضل و کمال میں نہ اس کے قریب پہنچ سکتا ہے اورنہ ہی کوئی عالم اس کا  مد مقابل قرار پاسکتا ہے ۔نہ اس کا بدل پایا جاتا ہے نہ کوئی اس کا مثل و نظیر ہے۔اس کی فضیلتیں اکتسابی نہیں بلکہ خدا کی طرف سےعطا شدہ ہیں ۔
خواجہ نصیر الدین طوسی رہ امام کی اس صفت اور شرط کے بارے میں لکھتےہیں :{و قبح تقدیم المفضول معلوم ولا ترجیع مع التساوی} مفضول کوفاضل پر مقدم کرنے کی قباحت میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اگر تمام انسان فضل و کمال کے اعتبار سے مساوی ہوں تو ان میں سے کسی کو بعنوان امام انتخاب کرنا ترجیح بلا مرجح ہے یعنی مرجح کے بغیر کسی کو ترجیح دینا قبیح ہے لہذا امام کو  فضائل اخلاقی و کمالات نفسانی کےلحاظ سے دوسروں سےحتما افضل ہونا چاہیے ۔
ائمہ اطہار علیہم السلام کے بارے میں یہ تاریخی مسلمات میں سے ہے کہ ان افراد نے کسی سے علم کسب نہیں کیا  جبکہ دوسرے لوگ ان کے علم و دانش سے بہرہ مند ہوتے تھے ۔یہاں تک کہ ابو حنیفہ {جسے امام اعظم کا لقب ملا ہے } جیسے افرادکہتے ہیں :{لولا السنتان لهلک النعمان}۱۲اگر دو سال صادق آل محمدعلیہ السلام کی شاگردی نہ کرتا تو نعمان ہلاک ہوا ہوتا” ایک اور مقام پر  وہ کہتے ہیں:{مارایت افقه من جعفر بن محمد}۱۳میں نے جعفر بن محمدسے زیادہ فقیہ کو نہیں پایا ۔ائمہ اہل بیت علیہم السلام اور ان کے معاصر شخصیات کی تاریخ زندگی کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ائمہ اطہار علیہم السلام علم و عمل میں اپنے زمانے میں سب سے افضل و برتر تھے۔ان کے حضور جوبھی سوالات کئے جاتے وہ جواب کے بغیر نہیں رہ جاتا ہے حالانکہ ان افراد نے کسی سے علم و دانش کسب نہیں کیا ہے۔ شیخ صدوق رہ اس مطلب کو امامت کی روشن ترین دلیل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :ائمہ اہلبیت علیہم السلام نے کسی سے علم کسب نہیں کیا ۔ یہ افراد کسی قسم کی سوالات کے سامنے عاجز نہیں ہوتے تھے۔ یہ اپنے دور میں تمام علوم و فنون کو دوسروں سے زیادہ جانتے تھے ۔بنابرین ان کی امامت کے بارےمیں اس سے زیادہ واضح اور کیا دلیل ہوسکتی ہے ۔۱۴
مذکورہ صفات و شرائط بالخصوص عصمت کو خدا وند متعال کےعلاوہ کوئی اور نہیں جانتا ۔اسی لئے قرآن کریم نبوت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:{ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يجَعَلُ رِسَالَتَه}۱۵اللہ ہی بہتر جانتاہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے ۔بنابریں امامت کےبارے میں بھی یہی قاعدہ جاری ہوگا۔ جس طرح نبوت خداوندمتعال کی طرف سےخاص رحمت ہے اور اس کی تقسیم وتعیین کا حق صرف اسی کو ہے  جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :{ أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّك}۱۶{تو کیا یہی لوگ رحمت پروردگار کو تقسیم کر رہے ہیں } اسی طرح امامت بھی اس کی  طرف سے خاص رحمت ہے اور اس کی تقسیم و تعیین کا حق بھی صرف پروردگار کو ہے۔ابن ہشام نقل کرتےہیں : پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےبنی عامر کو دین اسلام کی طرف  دعوت دی جو حج بیت اللہ کےلئے مکہ آئے ہوئے تھے۔ان کے سردار نے کہا : اگر ہم آپ کی بیعت کریں اور خداوند متعال آپ ؐکو دشمنوں پر غالب کرے توکیا آپؐ کےبعد ہمارے لئے بھی رہبری نصیب ہوگی؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:{الامرالی الله یضعه حیث یشاء}میرے بعد رہبری کا اختیار خداوند متعال کے پاس ہے وہ جسےچاہے یہ منصب عطا کرتا ہے ۔بنابریں امامت کےبارےمیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ کلام ، نبوت کے بارے میں  موجود کلام کے ساتھ کاملا مطابقت رکھتی ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يجَعَلُ رِسَالَتَه}۱۷اللہ ہی بہتر جانتاہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے ۔

حوالہ جات:
۱۔کشف المراد،مبحث امامت ،مسئلہ دوم۔
۲۔بقرۃ ،124۔
۳۔بقرۃ،229۔۴
۔لقمان 13۔
۵۔المیزان،ج1،ص274۔
۶۔نساء،59۔
۷۔توحید ،شیخ صدوق،باب 1،حدیث 21،22،23۔
۸۔المراجعات،ص327،المراجعہ،110۔
9۔بحارالانوار ،ج 26،ص18۔
۱۰۔صحیح بخاری،ج2،ص 149۔
۱۱۔اصول کافی،ج1،ص271،کتاب الحجۃ، باب:ان الائمۃ محدثون ،حدیث 4۔
۱۲۔اصول کافی ،ج1کتاب الحجۃ ،باب: جامع فی فضل الامام وصفاتہ ،ص 156۔
۱۳۔الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ، ج1 ،ص58۔
۱۴۔ایضاً،ص57 ۔
۱۵۔کمال الدین و تمام النعمۃ ،ص91،۱۶۔انعام،124۔
۱۶ ۔ زخرف ، 32۔  
۱۷۔انعام،124۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .