۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
شیعه و سایر مذاهب

حوزہ / مخالفین اور دشمنوں کی طرف سے جو چیز شیعوں کے متعلق بیان کی جاتی ہے اس کے برخلاف شیعہ کسی بھی مذہب کے پیروکار کو حرامزادہ جیسے بیہودہ الفاظ سے خطاب نہیں کرتا ہے۔ شیعہ فقہ کے اصولوں کے مطابق کوئی بھی شادی جو مرد اور عورت کے قبول کردہ مذہب و ثقافت کے رسم و رواج کے مطابق انجام پاتی ہے وہ جائز اور درست ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ مکتب اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات پر دشمنوں کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ دوسرے مذاہب اور مکاتب کے پیروکاروں کو زنازادہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

یہ الزام کتاب "کافی" کی ایک حدیث سے لیا گیا ہے جس میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: «إِنَّ النَّاسَ کُلَّهُمْ أَوْلَادُ بَغَایَا مَا خَلَا شِیعَتَنَا ؛[۱] یعنی خدا کی قسم، ہمارے شیعوں کے علاوہ تمام لوگ زنا کی اولاد ہیں۔

اولا تو یہ روایت سند کے لحاظ سے معتبر ہی نہیں ہے اور علامہ مجلسی (رہ) نے اسے ضعیف سمجھا ہے [۲]۔ تاہم روایت کی سند اور اس کے معتبر ہونے سے قطع نظر شیعہ مخالفین کی طرف سے اس حدیث کی تشریح درست نہیں ہے اور حدیث کے تسلسل کے مطابق اس سے صحیح تفسیر سمجھی جا سکتی ہے۔

روایت کے متن پر غور کرنے سے پہلے ہم یہ واضح کریں گے کہ مخالفین کی تفسیر ائمہ معصومین علیہم السلام کی دیگر احادیث کے ساتھ ساتھ شیعہ فقہ کے اصولوں کے بھی بالکل خلاف ہے۔ اس لیے اس مسئلہ میں کسی بھی صورت میں حدیث کے اس معنی کو مکتبِ تشیع کی رائے نہیں کہا جا سکتا۔

دوسرے مذاہب اور فرقوں کی شادی کے واجب ہونے اور درست ہونے کا قاعدہ

شیعہ فقہاء کے درمیان معروف قاعدوں میں سے ایک " قاعدہ الزام" یعنی "واجب و ضروری ہونے کا قانون" ہے [3]۔

اس قاعدے و قانونِ شرعی کے مطابق کسی بھی مذہب کے ماننے والوں سے متعلق احکام بشمول ان کی شادی کے احکام درست اور قابل احترام ہیں اور ان پر متعلقہ شرعی اور عرفی اثرات عائد ہوتے ہیں۔

یہ قاعدہ اس موضوع پر ایک اختلافی روایت پر مبنی ہے [4] ۔

مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ (ص) نے کنیزوں کو زنا کی اولاد کہنے سے منع فرمایا، آپ (ص) فرمایا کرتے: " ہر امت کے لیے ان کا اپنا ایک نکاح ہے" [5]۔

لہٰذا ہر انسان کی شادی اگر اس کی اپنی ثقافت اور سرزمین کے اصول و ضوابط پر مبنی ہو تو اسلام کی نظر میں وہ قابلِ احترام ہے اور اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو زنا کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔

مذاہب کی رسوم و روایات کے احترام میں ائمہ علیہم السلام کی سیرت

بہت سی روایات میں اہل بیت علیہم السلام کا ان لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا منقول ہے جنہوں نے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں پر زنازادہ ہونے کا الزام لگایا اور ان کی سخت مذمت بھی کی ہے ۔

جب امام صادق علیہ السلام کی موجودگی میں ایک شخص نے اپنے غلام پر حرامزادہ ہونے کا الزام لگایا تو امام علیہ السلام بہت سخت ناراض ہوئے اور اپنا ہاتھ اٹھا کر اپنی پیشانی مبارک پر مارتے ہوئے فرمایا: "آیا تم اس غلام کی ماں پر تہمت لگا رہے ہو اور اسے غلط نسبت دے رہے ہو؟"۔ اس شخص نے اپنے اس مکروہ فعل کے جواز کے لیے امام صادق علیہ السلام سے عرض کی: "اس غلام کی ماں مسلمان نہیں ہے۔" تو اس وقت امام صادق علیہ السلام نے اس شخص سے سختی سے فرمایا: "مجھ سے دور ہو جاؤ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ہر قوم اور برادری کے لیے نکاح اور عہد و پیمان ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو زنا اور ناجائز کاموں سے پاک و منزّہ کرتے ہیں؟!” [6]

غیر شیعوں کے حرامزادہ ہونے کے بارے میں امام باقر علیہ السلام کی حدیث کے معنی کی تحقیق

ہم نے اپنے اس آرٹیکل کے شروع میں امام باقر علیہ السلام سے جو حدیث نقل کی ہے، وہ سند کے لحاظ سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، معنی اور دلالت کے لحاظ سے دشمنوں کے موردِ نظر معنیٰ کو بیان نہیں کرتی ہے۔

اس روایت کے تسلسل میں امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنی بات کی توجیہ میں مسئلہ خمس اور غنائمِ جنگی سے اہل بیت علیہم السلام کے حق کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے مال غنیمت میں سے امام معصوم علیہ السلام کا ایک حصہ ہے اور اسی طرح ہر شخص کے سالانہ منافع کا پانچواں حصہ (خمس) بھی امام علیہ السلام کے اختیار میں دینا چاہیے۔

ان نکات کے مطابق امام علیہ السلام نے مسلمانوں کی جنگوں کے مال غنیمت پر اپنے غصب شدہ حقوق کا ذکر کرتے ہوئے حدیث کے راوی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

" اے ابو حمزہ! کسی سرزمین کواس وقت تک کھولا نہیں جاتا جب تک اس میں سے خمس نہ نکالا جائے اس میں سے کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں مگر یہ کہ وہ جس کے ہاتھ میں پہنچی ہے وہ حرام ہو… اور یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیں اور ہمارے شیعوں کو ان کے حق سے بغیر کسی عذر، حق اور حجت کے محروم رکھا" [7]۔

لغت میں "بغی" کا معنی"ظلم و ستم" بھی آیا ہے اور "زنا" بھی۔ [8]۔

اس لیے ممکن ہے کہ اس حدیث میں امام علیہ السلام کی "اولادِ بغی" سے مراد "ظالم اور ستمکار کی اولاد" ہو ۔

امام علیہ السلام مسلمانوں کے درمیان اس مال کی طرف جو اہل بیت علیہم السلام کے حق کو غصب کر کے تقسیم کیا گیا تھا، اشارہ فرما رہے ہیں۔ فطری طور پر جو بچے اس مشتبہ اور مخلوط بالحرام مال سے متولد ہوئے ہیں وہ ایسے بچے ہیں جو ظالمانہ اموال سے پیدا ہوئے ہیں۔

نتیجہ:

ہم نے جو بیان کیا ہے اس کے مطابق یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ شیعہ تعلیمات کے مطابق دوسرے مذاہب میں نکاح کی رسوم و روایات قابل احترام ہیں اور ان کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد کو زنازادہ ہونے سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ نیز، کافی میں امام باقر علیہ السلام سے منقول حدیث، اس کے سند کے لحاظ سے ضعیف ہونے سے صرفِ نظر بھی کرتے ہوئے، غیر شیعوں کے زنازادہ ہونے پر دلالت نہیں کرتی ۔

حوالہ جات:

[1] کافی (چاپ‌اسلامیه)، جلد 8، ص 285۔

مرآۃ العقول ، جلد 26، صفحہ 306۔

[3] القواعد الفقهیة، جلد 3، صفحہ 179 ۔

[4] ایضاً۔

[5] تہذیب الاحکام ، ج 7، ص 472۔

[6] کافی (چاپ‌دارالحدیث)، جلد 4، ص 10۔

[7] کافی (چاپ‌اسلامیه)، جلد 8، ص 286۔

[8] صحاح ، ج 6، ص 2282۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .