۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
News ID: 360179
4 اپریل 2020 - 15:15
مولانا علی ہاشم

حوزہ/موذن عاشورا شہید کربلا حضرت علی اکبر علیہ السلام تاریخ آدم و عالم کے وہ واحد مجاہد راہ خدا اور شہید ہیں کہ جنکو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آج بھی کائنات کے شہید اعظم محسن انسابیت سیدالشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام سے نہ صرف فکر و نظر بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی سب سے قریب ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی| ولی خدا، شبیہ مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ) ، ہمنام مرتضی (علیہ السلام) ، محبوب حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا)، فرزند سرکار سیدالشہدا (علیہ السلام) موذن عاشورا شہید کربلا حضرت علی اکبر علیہ السلام تاریخ آدم و عالم کے وہ واحد مجاہد راہ خدا اور شہید ہیں کہ جنکو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آج بھی کائنات کے شہید اعظم محسن انسابیت سیدالشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام سے نہ صرف فکر و نظر بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی سب سے قریب ہیں۔ شاید اسی لئے زیارت عاشورا میں جہاں حضرت امام حسین علیہ السلام پر سلام ہے "السلام علی الحسین" تو اسکے فورا بعد "و علی علی بن الحسین" ہے۔ 
پاسبان حرمت بیت اللہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے بیت الشرف میں جب آپ نے آنکھیں کھولیں تو سرکار سیدالشہدا علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے میں مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا جمال دیکھا تو اسے مرتضی (علیہ السلام) کا نام عطا کیا، شاید اس کا سبب یہ ہو کہ اس مولود کے ذہن نشین رہے کہ مستقبل میں آپ کے ہمراہ  اصلاح امت کی خاطر قیام کرنا ہے جس میں سیرت نبوی و علوی ہی محور ہو گی۔ (و اسیر بسیره جدی و ابی علی بن ابی طالب علیهماالسلام)۔ 
یقینا ایسے موقع پر شہادت  رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے سبب آپ کی زیارت سے محروم اور اس غم سے تڑپنے والے صف بہ صف جمال مصطفی کے دیدار کی خاطر در حسین علیہ السلام پر کھڑے ہوں گے۔ اور یہ نکتہ بھی کتنا لطیف ہے کہ تیسری شعبان کو ملائکہ، جنات و انسان کا ایک ہجوم بیت رسالت پر تھا تا کہ حُسن حسینی کو دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو مبارکباد دیں لیکن آج گیارہویں شعبان یہی ہجوم بیت حسینی پر دکھا تا کہ جمال مصطفی کی زیارت نصیب ہو بس فرق صرف اتنا ہے اس وقت آغوش رسالت میں امامت جلوہ فگن تھی اور آج آغوش امامت میں حُسن رسالت کے جلوے ہیں۔ 
یہ اظہار عقیدت نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام کی زبان سے بیان حقیقت ہے اور آپ نے خلق کو مخاطب کر کے نہیں فرمایا بلکہ کربلا کے میدان میں روز عاشورا خالق سے خطاب کیا "خدایا تو گواہ رہنا میں نے اس قوم کی جانب اس جوان کو بھیجا ہے جو خلقت، اخلاق و نطق کے لحاظ سے تیرے نبی کی شبیہ ہے" اب ان تینوں زاویوں سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کی ذات اقدس کو دیکھنا ہو گا۔ 
خلقت : خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: اے جابر! سب سے پہلے جو چیز خلق ہوی وہ میرا نور ہے جو نور خدا سے وجود میں آیا۔ (بحارالأنوار ج۱۵، ص۲۴٫)
اخلاق : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کے اخلاق کی بلندی تک کسی بشر کے طائر فکر کو قوت پرواز کہاں؟ جب خود اللہ نے فرما دیا:  وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ (سورہ قلم آیت 4) بے شک آپ اخلاق کے عظیم درجہ پر قائم ہیں۔ 
نطق: جس طرح آپ کے اخلاق کا قصیدہ قرآن کریم میں اللہ نے پڑھا اسی طرح آپ کے نطق کا بھی قرآن کریم میں اللہ نے قصیدہ پڑھا۔ "وما ينطق عن الهوى إن هو إلا وحي يوحى" (سورہ نجم آیت 3 و 4) اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے، یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔
یہ ان تینوں لحاظ سے ہمارے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ کی عظمت بے مثال و بے نظیر ہے جسے خدا نے یا خود آپ نے بیان فرمایا۔ اور انہیں عظمتوں کی شبیہ سرکار سیدالشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت علی اکبر علیہ السلام کو بتایا، جس سے جناب علی اکبر علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور یہ تائیدی مہر امام عالی مقام نے آخر میں لگای پہلے جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنے عمل و کردار سے اسے ثابت فرمایا جیسے راہ کربلا میں آپ نے جب امام حسین علیہ السلام کی زبان پر کلمہ استرجاء اور موت کے تعاقب کی خبر سنی تو جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے جناب ابوطالب علیہ السلام سے فرمایا کہ اگر ایک ہاتھ پر سورج دوسرے پر چاند رکھ دیا جاے تب بھی دین حق کی تبلیغ سے نہیں رکوں گا ویسے ہی آپ نے فرمایا "جب ہم حق پر ہیں تو موت کی پرواہ نہیں" راہ کربلا میں جو دعوی کیا تھا کربلا میں اپنی شہادت کے ذریعہ اسکی دلیل بھی پیش کر دی۔ 
چونکہ آپ کی والدہ جناب ام لیلی سلام اللہ علیہا ابوسفیان کی نواسی تھیں اس لئے حاکم شام نے اپنے دربار میں اپنی تماتر مکاریوں کے ساتھ کہا کہ "اس وقت خلافت کے اہل اور حقدار جناب علی اکبر علیہ السلام ہیں کیوں کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرزند ہیں۔ انکے اندر بنی ہاشم کی شجاعت، بنی امیہ کی سخاوت اور قبیلہ ثقیف کی خوبصورتی ہے۔" اس کلام سے ظاہرا لگتا ہے کہ حاکم شام آپ کی تعریف کر رہا لیکن اگر اہل نظر غور فرمائیں تو اسی میں سخاوت جیسی عظیم صفت سے بنی امیہ کو متصف کر رہا ہے۔ لیکن شبیہ پیغمبر کی حکمت کہ جب میدان کربلا میں رجز پڑھا تو نہ قبیلہ ثقیف کا ذکر کیا اور نہ ہی بنی امیہ کا بلکہ اپنے ہاشمی ہونے کو بیان فرمایا۔ 
اَنا عَلِیُّ بنُ الحُسینُ بنُ عَلِیٍّ     نَحنُ و بیتُ اللهِ اَولی بالنَّبِیِّ 
مِن شَبَثٍ و شَمَرٍ ذاکَ الدَّنِیّ     اَضرِبُکُم بِالسَّیفِ حَتّی یَنثَنی 
ضَربُ غُلامٍ هاشِمیٍّ عَلَوِیٍّ 
 و لا اَزالُ الـیومَ اَحـمی اَبی 
تااللهِ لا یَحکُمُ فینا اِبنُ الدَّعِیّ 
میں علی بن الحسین بن علی ہوں۔ 
خانہ کعبہ کی قسم ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ سے نزدیک ہیں۔ 
اے ثبث اور شمر پست تم کو یہاں تک تلوار ماروں گا کہ وہ ٹوٹ جاے۔ 
ہاشمی علوی جوان کی شمشیر زنی۔ 
میں اپنے والد کی حمایت سے نہیں رکوں گا۔ 
خدا کی قسم اتنی تلوار ماروں گا تا کہ حرامزادہ حکومت نہ کر سکے۔ 
جمال مصداق "وما ینطق عن الھوی۔۔۔۔۔" نے ان اشعار میں اپنے ہاشمی ہونے پر فخر کیا اور یزید کو حرام زادہ بتا کر حاکم شام کے کردار کو رہتی دنیا تک اجاگر کر دیا۔ 
اسی طرح کربلا میں آپ کے لئے خود یزید کی جانب سے خصوصی امان نامہ آیا تو آپ نے اسے ٹھکرا دیا کہ ہم اپنے والد حضرت امام حسین علیہ السلام کے حامی ہیں۔ 
السلام علی الحسین و علی علی بن الحسین

تحریر: سید علی ھاشم عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .