حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا کے ظالموں، جابروں اور ستمگروں نے حق اوراہل حق کو دبانے اور اپنی من مانی چلانے کے لئے ہمیشہ حق والوں کے خون سے ہولی کھیلی، مظلوموں کے خون ناحق سے خاکی زمین کو سرخ کیا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حق نہ کبھی تلواروں کی جھنکارسے ڈرا ، نہ ظلم و ستم سے خوف کھایا اور نہ ہی کبھی اس کی آواز دبی، بظاہر روح اور جسم میں جدائی تو ڈال دی گئی لیکن اس کی روح، اس کی آرزو اور اس کے ارادے نہ فقط قتل سے قتل نہیں ہوئے بلکہ سرچڑھ کر بولنے لگے، فراز دار ہو یا فراز نیزہ ہر مقام پر حق کی آواز نے باطل کو للکارا ہے۔
یہ مادیات کی دنیا میں کھوئے اور مادی رعب ودبدبہ اور دنیوی جاہ و جلال میں مستی میں ڈوبے بد مست سوچ رہے تھے کہ ان کی تلواریں حق کو موت کے گھاٹ اتار دیں گی، ان کے نیزے حق کے سینہ کو توڑ دیں گے، ان کے تیر حق کو چھلنی کردیں گے اور ان کے مظالم حق کو نیست و نابود کرکے انھیں فاتح میداں بنا دیں گے۔ قتل و غارتگری، بیواؤں کی آہیں، یتیموں کے آنسو، مظلوموں کی فلک شگاف فریادوں پر قھقھہ لگانے والے اس وقت تصویر غم والم بن گئے جب حق کے متوالے ان کے مادی وجود کے بجائے ان کی پلید روحوں ، ناپاک ارادوں، اور باطل اغراض و مقاصد اور شیطانی منصوبوں سے برسر پیکار ہوگئے۔
شام میں جہاں ۴۰ ہجری میں یہ پوچھا جا رہا تھا کہ کیا علی (علیہ السلام) نماز بھی پڑھتے تھے، کیا ابوتراب مسجد بھی جاتے تھے؟! علی (علیہ السلام) کو مسجد سے کیا سروکار! لیکن ۶۱ ہجری میں انہیں کے پوتے نے اسی شام کے دربار میں، مجمع اغیار میں اور بانیٔ شر کے سامنے حق کی وہ آواز بلند کی کہ جس کی گونج آج بھی باطل کو لرزہ بہ اندام کئے ہوئے ہے۔
اور جو ظالم نمائندۂ حق اور امام برحق کے قتل کے در پے تھا اپنے ہی دار الحکومت میں اس قدر بے بس ہو گیا کہ اب اس کے پاس حق والوں کو آزاد کرکے عزت و احترام کے ساتھ وطن بھیجنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔
دور حاضر کے ظالم، جابر اور ستمگر یعنی امریکہ و اسرائیل اور ان کے زرخرید غلام ممالک حق کو پسپاں کرکے باطل کو سربلند کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں، سعودی عرب سمیت اکثر نام نہاد مسلم ممالک اپنے آقاؤں کے اشاروں پر انسان اور انسانیت پر ظلم و ستم کرنے میں مصروف اور مظلوموں کی لاش پر ننگا ناچ ناچنے میں مشغول ہیں لیکن وہیں ان درندوں کے مقابلہ میں کربلائی مکتب حق بھی سرگرم عمل ہے۔
کل جن مسلم ممالک پر باطل کے نمائندہ امریکہ نے حملہ کیا تھا آج اسی عراق میں حق کا قبضہ ہے اور افغانستان میں بھی امریکہ کو نقصان ہی ہوا، اہل حق اپنے اسلاف کی کارناموں پر شرمندہ نہ ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے۔ بلکہ ہمیشہ فخر کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ جبکہ اہل باطل اپنےاور اپنے اسلاف کی کرتوتوں پر کل بھی شرمندہ تھے اور آج بھی شرمندہ ہیں اور کل بھی شرمندہ ہوں گے۔
جس طرح کل یزید اپنے کئے پر ظاہری شرمندگی کا اظہار کررہا تھا اسی طرح آج امریکی صدر ٹرمپ افغانسان پر امریکی یلغار کو امریکہ کی غلطی بتا رہا ہے۔
لیکن تاریخ میں کہیں نہیں ملے گا کہ کبھی حق والوں نے اپنی حق پرستی پر شرمندگی کا اظہار کیا ہو۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اہل حق کبھی حملہ نہیں کرتے اور اگر کبھی حملہ کیا بھی تو ان کا حملہ بزدلانہ نہ تھا، بلکہ ہم نے تو تاریخ میں یہاں تک دیکھا ہے کہ حق نے کبھی بھاگتے ہوئے باطل کا پیچھا بھی نہیں کیا، جبکہ باطل کا ہر حملہ بزدلانہ ہوتا ہے، بلکہ وہ اسی وقت حملہ ور ہوتا ہے جب مدمقابل کو نہتا محسوس کرتا ہے۔
دنیا نے رہبران حق کے ہاتھوں میں شمشیر کم، تسبیح زیادہ دیکھی ہے اس کے باوجود باطل میں کبھی اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کے سامنے اسلحہ لے کر آسکے بلکہ ہمیشہ دھوکے سے قتل کیا اور اس پر لطف کی بات یہ ہے کہ قتل ہونے والے مسکرا رہے تھے اور قاتل کانپ رہا تھا۔
جہاں یہ شرف الہی رہبروں یعنی ہمارے معصوم اماموں کو حاصل تھا وہیں ان کی پیروی ، اطاعت و محبت کے سبب غیر معصوم رہبروں اور دینی پاسبانوں کو بھی حاصل ہے، جب رہبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی قدس سرہ کو گرفتار کرنے شاہ کے فوجی آئے تو وہ مسلح فوجی کانپ رہے تھے اور امام خمینی رہ اطمینان و سکون کی تصویر بنے مسکرا رہے تھے بلکہ ان کی دلجوئی فرما رہے تھے۔
ظالم و جابر جنرل ضیاء الحق کےسپاہی جو شہید سعید علامہ سید عارف حسین حسینی رہ کو شہید کر نے آئےتھے وہ ایک نہتے مومن کے سامنے لرز رہے تھے اوروہ سکون و اطمینان کا پیکر تھے ۔
سعودی ڈکٹیٹر سلمان اور اس کا منحوس اور ناجائز بیٹا شیخ باقر نمر کے سامنے تمام تر عھدہ و منصب کے باوجود بےدست وپا نظر آئے آخر کار قتل کیا لیکن شہید نمر کا رعب و دبدبہ آج بھی قائم ہے۔
بزدل امریکہ نے چاہا پہلے اپنے پروردہ داعش کے ذریعہ جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرا دیں لیکن جب چیلے کامیاب نہ ہو سکے تو گرو کو خود کودنا پڑا، لیکن وہی بزدلی کہ کسی میں ہمت نہ تھی کہ وہ سامنے سے وار کرتا لہذا بزدلانہ حملہ کر کے شہید کیا، انھیں شہید کر کے امریکہ یہی سمجھا کہ ہم نے ان کا نام و نشان مٹا دیا لیکن وہ بھول گیا تھا کہ شہید نے فرمایا تھا: "ٹرنپ میں تجھ سے بہت نزدیک ہوں"، اس وقت لوگ نہ سمجھ سکے کہ شہید سردار کتنا نزدیک ہیں لیکن جب خود امریکہ میں عوامی بیداری تحریک میدان میں اتر کر ظالم کے خلاف سراپا احتجاج بنی تو وہ ٹرنپ جس کو جنرل قاسم سلیمانی اور مہندس ابومھدی کا وجود ایشیا میں برداشت نہ تھا لیکن آج شہید کی تصویریں امریکہ کی سڑکوں پہ موجود احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں میں اور ٹرمپ بنکر میں چھپ گیا!
تاریخ نے دہرا دیا کہ شام میں آج مقتول و قیدی کا جلوہ ہےاور حاکم لاپتہ ہے، اسی طرح امریکہ میں مقتول کی تصویریں لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں لیکن خود حاکم چھپا بیٹھا زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے۔
شہید کے زندۂ جاوید ہونے کا اس سے بین ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ مستضعفین عالم کی نجات کا اس کا مشن اسی قاتل ملک کی گلیوں، کوچوں، سڑک چوراہوں، میدانوں اور پارکوں میں اسی ملک کے مستضعفین کے لبوں کا نعرہ بن گیا ہے کہ ‘‘ میں سانس نہیں لے پارہا ہوں’’ یعنی ہمیں بھی ایک منجی کی ضرورت تھی جو ہمارے سلے لبوں کو کھول کر ہماری آواز کو ہمارے بہرے حکمرانوں تک پہونچا دے۔
اور امریکہ کی سڑکوں پر شہید کے تصویروں نے بتا دیا کہ انھیں گھٹن کے ماحول میں کم از کم اپنی تکلیف کا اعلان کرنے کے لئے ایک سہارا مل گیا ہے اور اسی کو ‘‘مقتول کی جیت اور قاتل کی ہار’’ کہا جاتا ہے۔
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔