۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 402262
13 ستمبر 2024 - 13:48
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ ولایت محبت کا نتیجہ ہے اور برأت نفرت کا اثر ہے۔ لہذا کہہ سکتے ہیں کہ ولایت اور برأت کا تعلق صرف دین و آئین سے نہیں بلکہ انسان کی فطرت سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام دین فطرت ہے لہذا اس کا ہر حکم انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | جن کے غم میں غمگین تھے ان کی ہی خوشی میں خوش ہیں۔ ایمان و عقیدہ کی بلندی تک پرواز کے لئے دو ہی پر ہیں ایک ولایت ہے اور دوسرے برأت ہے۔

ولایت محبت کا نتیجہ ہے اور برأت نفرت کا اثر ہے۔ لہذا کہہ سکتے ہیں کہ ولایت اور برأت کا تعلق صرف دین و آئین سے نہیں بلکہ انسان کی فطرت سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام دین فطرت ہے لہذا اس کا ہر حکم انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔

انسان جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کے قُرب کی تمنا کرتا ہے، اس سے دوری سے کراہت محسوس کرتا ہے، اس کی دلی خواہشیں محبتِ محبوب کی عکاس ہوتی ہیں، اس کے اذہان کی فکریں مرضی محبوب کی غماز ہوتی ہیں، اس کی زبان پر وہی ہوتا ہے جو اس کا محبوب چاہتا ہے، اس کا عمل محبوب کی مرضی کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اسی لئے ہر عبادت کی نیت میں پہلی شرط "قربۃ الی اللہ" ہے یعنی ہم جو نماز، روزہ یا حج انجام دے رہے ہیں صرف اللہ تبارک و تعالی سے تقرب کے سبب انجام دے رہے ہیں۔ غیر خدا کی خوشنودی کا تصور عبادتوں کو برباد کر دیتا ہے۔

اسی طرح برأت دشمنان خدا سے دوری اور نفرت ہے۔

اللہ تبارک و تعالی نے معصومین علیہم السلام کو کائنات میں اپنا نمائندہ اور خلیفہ مقرر کیا، ان کی خواہشیں، افکار، کلام اور اعمال مرضی معبود کے عین مطابق تھے لہذا اللہ نے جس طرح اپنی محبت کو اور اپنے دشمنوں سے بیزاری کو معیار بندگی قرار دیا اسی طرح معصومین علیہم السلام کی محبت اور ان کے دشمنوں سے دشمنی کو اسلام و ایمان کا معیار قرار دیا۔

2 ماہ 8 دن غم اس لئے منایا جاتا ہے کیونکہ خاصان خدا نے ان ایام میں غم منایا لہذا محبت و ولایت کا تقاضہ یہ ہے کہ غم منایا جائے اور عزاداری کی جائے۔

9 ربیع الاول کو خدا و خاصان خدا کا دشمن واصل جہنم ہوا، اہل بیت علیہم السلام نے خوشی منائی، حجت کبریاء ولی خدا حضرت زین العباء امام زین العابدین علیہ السلام کے لب ہائے مبارک پر تبسم کا گلاب کھلا لہذا خوشی منانا ولایت کے عین مطابق بلکہ اس کا تقاضہ ہے۔

اسلام کا پہلا کلمہ "لا الہ الا اللہ" (کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے) پہلے غیر خدا سے برأت ہے اس کے بعد اللہ کا اقرار ہے۔ اسی طرح معصومین علیہم السلام سے محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کے دشمنوں سے برأت کی جائے۔ لہذا جھوٹ بولتے ہیں وہ لوگ جو معصومین علیہم السلام سے اظہار محبت اور ان کے فضائل و احکام بیان کرنے کے بجائے اپنی دنیوی حوس اور دنیاوی تمناؤں کی تکمیل کے لئے دنیا داروں کی تعریف و تمجید کرتے ہیں۔ اللہ والوں کے ذکر کے بجائے دنیا والوں کے تذکرے کرتے ہیں۔

غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر

مجرئی اپنی ہوا کھووں سلیماں ہو کر (میر انیس مرحوم)

اسی طرح وہ بھی قابل قبول نہیں جو محبت کا نام تو لیں لیکن ان کے دشمنوں سے برأت نہ کریں۔

محبت اور برأت دونوں میں شرط ہے کہ صرف زبانی نہ ہو بلکہ دل سے اہل بیت علیہم السلام سے محبت کریں، زبان سے اظہار کریں اور اعمال سے ان کی تأسی کریں۔ دل سے اللہ، رسول اور اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں سے نفرت کریں، صرف زبان نہیں بلکہ اعمال سے بھی اس کا اظہار کریں۔

معصومین علیہم السلام کی زیارات جیسے کبیرہ، عاشورہ، اربعین، وارثہ بلکہ تمام زیارتوں میں ہمیں جہاں ولایت و محبت کی تعلیم و تربیت ملتی ہے وہیں ان کے دشمنوں سے برأت کا بھی حکم ملتا ہے۔

اسی طرح اہل بیت معصومین علیہم السلام کی متعدد احادیث ہمیں اس جانب ہدایت دے رہی ہیں۔ ذیل میں چند احادیث پیش ہیں۔

امام علی‌ بن‌ موسی‌ الرضا علیه‌السلام نے فرمایا:

كَمالُ الدّینِ وِلایَتُنا وَالبَراءَةُ مِن عَدُوِّنا (بحارالنوار، جلد 27، صفحہ 58)

دین کا کمال ہماری ولایت اور ہمارے دشمنوں سے برأت ہے۔

امام جعفرصادق علیه‌السلام نے فرمایا:

كَذَبَ مَنِ ادَّعَی مَحَبَّتَنَا وَ لَمْ یَتَبَرَّأْ مِنْ عَدُوِّنَا. (بحارالانوار، جلد 27،‌صفحہ 59)

جھوٹا ہے وہ جو ہماری محبت کا دعوی کرے اور ہمارے دشمنوں سے برأت نہ کرے۔

امام زین‌العابدین علیه‌السلام نے فرمایا:

مَن اَحبَّ اَعداءَنا فَقَد عادانا وَ نَحنُ مِنهُ بَراءٌ واللهُ عزَّ وجلَّ مِنهُ بَریءٌ. (بحارالانوار، جلد 27، صفحہ 60)

جو ہمارے دشمنوں سے محبت کرے وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم اس سے بیزار ہیں اور اللہ تبارک و تعالی بھی اس سے بیزار ہے۔

امام محمد باقر علیه‌السلام نے فرمایا:

مَنْ اَرادَ أنْ یَعْلَمَ حُبَّنا فَلْیَمْتَحِنْ قَلْبَهُ فَاِنْ شاَرَكَ فِی‌حُبِّنا حُبَّ عَدُوِّنا فَلَیْسَ مِنّا وَ لَسْنا مِنْهُ. (بحارالانوار، جلد 27، صفحہ 51)

اگر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ اسے ہم سے کتنی محبت ہے تو اسے اپنے دل کی جانب رجوع کرنا چاہیے اگر وہ ہم سے اور ہمارے دشمنوں سے بھی محبت کرتا ہے تو وہ نہ ہم سے ہے اور نہ ہم اس سے ہیں۔

امیرالمؤمنین علیه‌السلام نے فرمایا:

لایَجتَمع حُبُّنا و حُبُّ عَدُوِّنا فی ‌جَوْفِ انسانٍ، إنَّ اللََّهَ لَمْ یَجعَلْ لِرَجُلٍ قَلْبَیْنِ فِی‌جَوْفِهِ فَیُحِبُّ بِهذا و یُبغِضُ بِهذا. (نورالثقلین، ج ٤، ص ٢٣٤)

ہماری اور ہمارے دشمنوں کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتی کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے دو دل نہیں بنائے ہیں کہ ایک سے دوستی کرے اور دوسرے سے دشمنی کرے۔

امام جعفرصادق علیه‌السلام نے فرمایا:

ثَلَاثٌ هُنَّ مِنْ عَلَامَاتِ الْمُؤْمِنِ: عِلْمُهُ بِاللَّهِ وَ مَنْ یُحِبُّ وَ مَنْ یُبْغِضُ‏. (بحارالانوار، جلد 1، صفحہ 215)

یہ تین چیزیں مومن کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اللہ کو جاننا، وہ جس سے محبت کرتا ہے اسے جاننا اور وہ جس سے نفرت کرتا ہے اسے جاننا۔

امام حسن عسكری علیه‌السلام نے فرمایا:

اَحِبَّ فی اللهِ وَ اَبغِضْ فِی‌اللهِ وَ والِ فِی‌اللهِ وَ عادِ فی‌الله فَاِنَّهُ لاتُنالُ وِلایَةُ اللهِ اِلاّ بِذلِکَ. (بحار الانوار، جلد 27، صفحہ 54)

اللہ کے لئے محبت کرو اور اللہ کے لئے نفرت کرو۔ دوستی اللہ کے لئے کرو اور دشمنی بھی اللہ کے لئے کرو۔ کیونکہ اللہ کی ولایت کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

امام موسی‌كاظم علیه‌السلام نے فرمایا:

شِیعَتُنَا اَلَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَ یُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَ یَحِجُّونَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ وَ یَصُومُونَ شَهْرَ رَمَضَانَ وَ یُوَالُونَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یَتَبرَّؤُنَ مِن أَعدائِهِم. (صفات‌الشیعه، صفحہ 4)

ہمارے شیعہ وہ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں، خانہ خدا کا حج کرتے ہیں، ماہ رمضان میں روزہ رکھتے ہیں، اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرتے ہیں اور ان کے دشمنوں سے برأت کرتے ہیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا

وَلایَتُنَا وَلایَةُ اللَّهِ الَّتِی لَمْ یُبْعَثْ نَبِیٌّ قَطُّ إِلَّا بِهَا (بحار الانوار، جلد 27، صفحہ 136)

ہماری ولایت اللہ کی ولایت ہے۔ کوئی نبی ہماری ولایت کے بغیر مبعوث نہیں ہوا۔

امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

طُوبی لِشیعَتِنا المُتَمَسِّکینَ بِحَبلِنا فِی غَیبَةِ قائِمِنا(عَجَّلَ اللّهُ تَعالی فَرَجَه)، الثّابِتینَ عَلی مُوالاتِنا وَ البَراءَةِ مِن أَعدائِنا اُولئِکَ مِنّا وَ نَحنُ مِنهُم. (اِعلام الوَری، صفحہ 407)

خوش بخت ہیں ہمارے شیعہ جو ہمارے قائم (علیہ السلام) کی غیبت کے زمانے میں ہماری محبت سے متمسک ہیں۔ ہماری ولایت اور ہمارے دشمنوں سے برأت میں ثابت قدم ہیں، وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اِحفظُونی فی عِترتی وَ ذُرِّیتّی، فَمَن حَفِظَنی فیهِم حَفِظَهُ الله، اَلا لَعنَةُ اللهِ عَلی مَن آذانی فیهِم.

(غدیرِ دوم، صفحہ 35)

ہماری عترت اور ذریت کے احترام کے ذریعہ ہماری حرمت کی پاسبانی کرو۔ جس نے ہماری حرمت کی پاسبانی کی اللہ اس کی حرمت کی حفاظت کرے گا۔ آگاہ ہو جاؤ! جس نے ان (عترت) کی بے حرمتی کے ذریعہ مجھے اذیت پہنچائی اس پر خدا کی لعنت ہے۔

امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

لَو أَنَّ عَبْداً عَبَدَاللهَ اَلَْفَ سَنَةٍ لایَقْبَلُ اللهُ مِنهُ حَتّی یَعرِفَ وِلایَتَنا اَهلَ‌البَیت. (بحار الانوار، جلد 27، صفحہ 196)

اگر کوئی بندہ ہزار سال اللہ کی عبادت کرے لیکن اس کے پاس ہمارے اہل بیت کی ولایت نہ ہو تو اللہ اس کی عبادتوں کو قبول نہیں کرے گا۔

امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا:

والّذی بَعثَ مُحمداً صلی‌الله علیه وآله بِالحَقِّ لا یَنتَقِصُ مِن حَقِّنا أهلَ‌البَیت اَحدٌ اِلّا نَقَّصَهُ اللهُ مِن عَمَلِهِ مِثلَه. (احقاق‌الحق، جلد 11، صفحہ 239)

اس خدا کی قسم! جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو مبعوث کیا۔ جو کوئی بھی ہم اہل بیت کے حق میں کوتاہی کرے گا تو اللہ اسی کے مطابق اس کے عمل کو کم کر دے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

حُرِّمتِ الجَنّةُ علی مَن ظَلمَ اَهلَ بَیتی وَ علی مَن قاتَلَهم وَ عَلی المُعینِ عَلَیهم و عَلی مَن سَبَّهُم. (بحار الانوار، جلد 27، صفحہ 22)

میرے اہل بیت پر ظلم کرنے والوں پر، ان سے جنگ کرنے والوں پر، ان (جنگ کرنے والوں) کی مدد کرنے والوں پر اور سبّ و شتم کرنے والوں پر جنت حرام کردی گئی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

کَذَبَ مَن زَعَمَ اَنَّهُ مِن شیَعتِنا وَ هُو مُتَمَسِّکٌ بِعُروةِ غَیرِنا.

وہ جھوٹ بولتا ہے جو دعوی کرتا ہے کہ ہمارا شیعہ لیکن ہمارے غیر کی پیروی کرتا ہے۔

خدا ہمیں اپنی، اپنے رسول اور اہل بیت علیہم السلام سے محبت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .