۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا شہوار نقوی

حوزہ/ مولانا شہوار نقوی نے کہا کہ محمد اور آل محمد کی شان میں قصیدہ خوانی کا فائدا تبھی ہے جب انکی تعلیمات پر عمل بھی کیا جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،تاریخ اسلام کا بیان’ کے خطباتی سلسلے کے تحت مولانا شہوار نقوی نے رسول اللہ کی مکی زندگی کے آلام و مصائب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جناب ابو طالب اور بی بی خدیجہ کی وفات کے بعد کفار مکہ کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے اور انہوں نے رسول اللہ کی ذات اقدس پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ ڈالے تھے۔ رسول اسلام کے پاس ذات پروردگار پر یقین کامل کے سوا کوئی سہارا نہیں تھا جبکہ کفار مکہ کے پاس دولت اور طاقت دونوں تھیں۔

آئمہ (ع) کو محبت کے زبانی دعوے نہیں چاہئے، مولانا شہوار نقوی

ایک وقت وہ آیا کہ رسول تبلیغ دین کی خاطر ہجرت کرکے طائف چلے گئے تھے لیکن وہاں کے کفار بھی کفار مکہ جیسے ہی شقی القب تھے۔انہو ں نے رسول اللہ کی دعوت حق کو قبول نہیں کیا بلکہ کفار مکہ کی طرح ہی رسول اسلام کو اذیتیں دیں۔ طائف میں رسول کی تبلیغ کے نتیجے میں صرف ایک شخص اللہ پر ایمان لایا اور وہ رسول کے ایک بڑے دشمن عتبہ کا غلام تھا۔ رسول اور آل رسول کو محبت کے زبانی دعوے نہیں چاہئیں یہ محبت کا دم بھرنے والوں کے بھی کسی کام کے نہیں۔ مولانا شہوار نے ایک واقعہ ک ذکر کرتے ہوئے کہا کہ محمد اور آل محمد کی شان میں قصیدہ خوانی کا فائدا تبھی ہے جب انکی تعلیمات پر عمل بھی کیا جائے۔

آئمہ (ع) کو محبت کے زبانی دعوے نہیں چاہئے، مولانا شہوار نقوی

مکہ کے نواح میں اس دور کا ایک بہت بڑا شاعر عاشہ رسول کے اعلیٰ اخلاق اور کردار کے قصے سن کر بہت متاثر ہوا تھا اور اس نے رسول کی شان میں ایک قصیدہ نظم کیا تھا۔ لیکن جب اسے یہ بتایا گیا کہ رسول اللہ اور دین اسلام کی محبت میں اسے شراب کو ترک کرنا ہوگا تو اس نے شراب نوشی چھوڑنے سے انکار کردیا اور حالت کفر میں ہی اسکی موت واقع ہوئی حالانکہ وہ رسول سے متاثر تھا اور انکی شان میں قصیدہ نظم کرچکا تھا۔ مولانا شہوار نے کہا کہ یہ واقعہ ان لوگوں کے لئے سبق آموز ہے جو محمد اور آل محمد سے محبت کا دم تو بھرتے ہیں لیکن انکی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ مولانا شہوار نے کہا کہ اسلام ایمان اور عمل کا نام ہے ۔اسلام کو صرف زبانی جمع خرچ نہیں چاہئے۔ہفتہ واری خطبات کاسلسلہ امروہا کے محلہ حقانی میں جامعہ الھدا لائبریری میں منعقد ہوتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .