۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
نماز جمعہ

حوزہ/ نماز جمعہ اسلامی نظام کا ایک ریاستی فریضہ، سیاسی عبادت اور عبادی سیاست ہے بشرطیکہ اس نظام میں عبادت اور سیاست میں تصادم نہ ہو۔ سیاست یعنی ریاستی نظام کا نظم و ضبط اور مفاد عامہ کا تحفظ وغیرہ ہے۔

تحریر: مولانا ذوالفقار علی کشمیری

حوزہ نیوز ایجنسی । پروردگار عالم نے حضرت انسان کو بھی خلق کیا اور دوسری مخلوقات کو بھی لیکن تاج اشرفیت اگر کسی مخلوق کے حصہ میں آیا ہے تو وہ انسان کی ذات ہی ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ اسے عقل و شعور کی بنیاد پر ممتاز قرار دیا ہے۔

یقین جانیں کہ اللہ نے اس انسان کو بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے جس میں سے ایک عظیم نعمت عقل ہے اور عقل کے اپنے تقاضے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے منعم اور اس کی فراوان نعمتوں کے بارے میں غور و فکر کریں۔

روایات معصومین علیہم کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نعمت ہر وہ چیز ہے جو خدا سے قریب کرے ان تمام نعمتوں میں سے ایک اہم سیاسی اور عبادی نعمت کا نام نماز جمعہ ہے جس کی اہمیت کے اندازہ کے لئے قرآن کریم کی یہ آیت کافی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰۤاَیُّه‍َا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَة فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (٠٩)

اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت ترک کر دو، یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو- [سورہ جمعہ؛ آیت نمبر 09]

یعنی ذکر خدا کی طرف دوڑ پڑو۔ ذکر خدا سے مراد نماز ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم نماز جمعہ میں دوڑتے ہوئے جایئں بلکہ یہ تاکید ہے اس بات کی کہ عقل و شعور رکھنے والے اللہ کے بندہ اس کی اہمیت کو سمجھ کر ایک خاص اہتمام کے ساتھ نماز جمعہ میں حاضر ہوں نہ یہ کہ تساہلی برتیں یا بے دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عظیم عبادت کی اہمیت اور وقار کو پامال کریں بلکہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اس عبادت کی قدر و منزلت کو مد نظر رکھتے ہوئے نہایت ہی وقار کے ساتھ اس میں خود بھی شرکت کریں اور دوسروں کو شرکت کی دعوت بھی دیں اور اس کے فلسفہ پر بھی غور و فکر کریں۔

نماز جمعہ اسلامی نظام کا ایک ریاستی فریضہ، سیاسی عبادت اور عبادی سیاست ہے بشرطیکہ اس نظام میں عبادت اور سیاست میں تصادم نہ ہو۔ سیاست یعنی ریاستی نظام کا نظم و ضبط اور مفاد عامہ کا تحفظ وغیرہ ہے۔ نماز جمعہ اسلامی ریاست کا اہم حصہ ہونے کی وجہ اس نماز کا حکومت کی طرف سے قائم ہونا اور ریاست کے نمائندے کا نماز پڑھانا ہے۔ اسی وجہ سے قبلہ رُخ ہو کر دو رکعت کی جگہ لوگوں کی طرف رُخ کر کے دو خطبے دئے جاتے ہیں چونکہ اس عبادت میں ریاست کو لوگوں سے کام ہے۔

رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای(حفظہ اللہ) ایک استفتاء کے جواب میں اس طرح فرماتے ہیں ”دور حاضر میں نماز جمعہ اگرچہ واجب تخیری ہے اور اس میں حاضر ہونا واجب نہیں ہے، لیکن نماز جمعہ میں شرکت کے فوائد کی اہمیت کے پیش نظر، صرف امام جمعہ کی عدالت میں شک یا دیگر کمزور بہانوں کی بناء پر مومنین خود کو اس عظیم عبادت کی برکتوں سے محروم نہ کریں۔ عبادی و سیاسی پہلو رکھنے والی نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اس میں شرکت نہ کرنا شرعی لحاظ سے ناپسندیدہ عمل ہے۔“

یہی ”نماز جمعہ“ مومنین کو ایک مبارک روز پر ایک ہی جگہ جمع کرکے ان کے درمیان وحدت و اتحاد ایجاد کرکے پوری دنیا کو پیغام دیتا ہے کہ ہم مسلمان ایک ہے اور ایک ہی خدا، ایک ہی قرآن اور ایک ہی شریعت محمدی(ص) کو مانتے ہیں۔ نماز جمعہ کا فلسفہ یہ بھی ہے (جتنے فرسخ کے اندر یہ نماز شریعت کے مطابق قائم ہے) کہ مومنین آپس میں مِل جل کر ایک دوسرے کے حال و احوال سے آگاہ ہوکر اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیں جس کا نتیجہ پوری دنیا ایران اور باقی مسلمان ممالک کے اندر دیکھ چکی ہے۔اب ہم اپنے وطن عزیز کشمیر کی جانب رُخ کرتے ہیں تو ملتا ہے کہ ہم کسی نہ کسی فرقوں میں بَٹ کر یا تقسیم ہو کر اس مقدس عبادت اور عظیم سرمایہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

موصولہ خبروں کے مطابق کئی علاقے یا محلے کے مومنین اس مقدس عبادت کو انجام نہیں دے رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی علاقے میں یا ایک ہی محلے میں دو یا اسے زیادہ نماز جمعہ ہورہی ہے جو کہ مقام افسوس و شریعت محمدی(ص) کے بر خلاف و برعکس ہے۔ جیسا کہ ہمارے ہر دل عزیز، قم المقدسہ کے فاظل طالب علم و ممتاز کارکن مولانا سید کرار ہاشمی صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ شہر و دیہات میں جامع مساجد کی مرکزیت کو قائم کیا جائے اور ایک ہی علاقے میں ایک سے زیادہ جمعہ اجتماعات اسلامی اصولوں کے منافی ہیں، لہٰذا سید کرار ہاشمی صاحب کی بات سے متفق ہو کر وادی کشمیر کے اندر شریعت محمدی(ص) نافذ کرکے اس پُر فِتن دور میں اس مقدس اجتماع کو اہمیت دے کر سب مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر دشمنانِ اسلام کو منہ توڑ جواب دیں جو کہ اسوقت کی سب سے بڑی ضروریات میں سے ہے، نہ کہ یہ شریعت مقدس میں اپنی من مانی کر کے مداخلت کا مظاہرہ کریں اور فقہ جعفری میں جسے ایک فرسخ کی دوری سے کم پر منع کیا گیا ہو ہم اس کے حکم کو پامال کر کے دو نماز جمعہ منعقد کریں۔ لہٰذا اپنے اپنے علاقوں میں شریعت کو پیش نظر رکھ کر نماز جمعہ کو قائم کیجئے اور دشمنانِ اسلام کو ان اجتماعات کے ذریعے پیغام محمدی(ص) اور پیغام وحدت و اتحاد دیں۔ خداوند متعال سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی دینِ اسلام سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق کے ساتھ ساتھ عقل و شعور سے کام لینے کی توفیق عنایت فرمائے اور اللہ نے جو ہمیں بے پناہ نعمتیں دی ہیں اس کی قدر کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اس لئے کہ امام جواد(علیہ السلام) کا فرمان ہے کہ نِعمَةٌ لَاتُشكَرُ كَسِيَّئَةً لَاتُغفَرُ یعنی وہ نعمت جس کا شکر ادا نہ کیا جائے اس گناہ کی طرح ہے جس کی مغفرت نہ ہو۔ (بحارالانوار؛ ج ۷۵، ص ۳۶۴)

وَمَا عَلَینَا اِلَّا الْبَلَاغ

ذوالفقار علی کشمیری

قم المقدسہ، ایران

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .