۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
علامہ جواد نقوی

حوزہ/ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کے اندر مذہبی جذبات پٹرول پمپ کی مانند ہیں، انہیں تھوڑا سا چھیڑا جائے تو یہ آگ پکڑ لیتے ہیں۔ اسلام و شریعت کی بنیاد عقل پر ہے مگر وہ دینداری جو فرقوں کی شکل میں ہے اس کو تربیت میں عقل دی ہی نہیں گئی نہ دور دور تک کوئی شائبہ نظر نہیں آتا ہے۔ جیسا کہ بعض سکالرز دیگر مسالک کے مقابلے میں جذبات اُبھارنے میں لگے رہتے ہیں اور اسی کو مذہبی تبلیغ جانتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ و تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ موجودہ حکومت تدبیر کے لحاظ سے ناکام ترین حکومت ہے اور بغیر سوچے سمجھے کسی بھی مذہبی مسئلے میں ہاتھ ڈال دیتی ہے۔ حکومت نے پہلے ایک متنازعہ بل پاس کیا جو قریب تھا کہ بڑے بحران میں تبدیل ہو جاتا، وہی بل ہو بہو مزید غلیظ کرکے نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ جو فرقہ واریت کی بنیاد فراہم کرتا ہے یعنی وہ کام جو پہلے مدرسوں میں ہوتا تھا اب وہی سکولوں میں ہوگا۔ اسی طرح حکومت نے خالصتاً اسلامی مسئلے وقف کے قانون کو چھیڑ ڈالا، رویت ہلال جیسے سادہ مسئلے کو حل کرنے بیٹھے تو  فرقہ وارانہ ترکیب سے کمیٹی بنا ڈالی۔ اگر اسے علمی اور اسلامی طور پر حل کیا جائے تو مسالک کی ترتیب بنتی ہی نہیں اور اب یہ اعلان کے نماز جمعہ کا خطبہ حکومت کی طرف سے مساجد میں تقسیم کیا جائے گا اور خطیب وہی خطبہ تیار کریں گے۔ معلوم نہیں یہ کیا کرنا چاہتے ہیں فضا کو مزید تشویشناک بنا رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر مذہبی جذبات پٹرول پمپ کی مانند ہیں، انہیں تھوڑا سا چھیڑا جائے تو یہ آگ پکڑ لیتے ہیں۔ اسلام و شریعت کی بنیاد عقل پر ہے مگر وہ دینداری جو فرقوں کی شکل میں ہے اس کو تربیت میں عقل دی ہی نہیں گئی نہ دور دور تک کوئی شائبہ نظر نہیں آتا ہے۔ جیسا کہ بعض سکالرز دیگر مسالک کے مقابلے میں جذبات اُبھارنے میں لگے رہتے ہیں اور اسی کو مذہبی تبلیغ جانتے ہیں۔

راہ حل کے طور پر ان کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ عمل مکمل طور پر ختم کر دیں، مراکز کے اندر علمی گفتگو کریں، اختلافی باتیں بھی علمی بنیاد پر کریں، لعن طعن، تکفیر، توہین یہ درست نہیں، خود مراکز و متولیان مجالس غیر ذمہ دارانہ لوگوں کو ممبر نہ دیں، تمام مذاہب جذبات کے آتش فشاں ہیں، اختلافات کریں، مگر دلیل کیساتھ کریں یہ کسی کو برا نہیں لگتا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اگر مذہبی مسائل کو منظم کرنا چاہتی ہے تو ان میں کام کرے مگر جہاں داخل ہو رہے ہیں وہاں نہ جائے البتہ وہاں سوال  ضرور اٹھائے جہاں مراکز میں فرقہ واریت ہو رہی ہے جن خطبات جمعہ میں توہین آمیز باتیں ہوتی ہیں۔ حکومت سے لال مسجد کا مولوی کنٹرول نہیں ہو رہا اسلام آباد  میں بیٹھ کر زہر اُگلتا ہے۔ مگر اس کو کنٹرول نہیں کرتے، صرف پُرسکون جگہوں اور ماحول کیلئے قانون سازی کرتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .