جمعرات 13 فروری 2025 - 06:00
دعائے عہد؛ تعلیماتِ توحید کی رو سے امام زمانہ (ع) تک پہنچنے کا راستہ

حوزہ/آیت اللہ جوادی آملی نے کہا کہ منتظرین کو امام زمانہ (عج) کے ظہور کے لئے زمینہ فراہم کرنے میں عملی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ اس غائب امام کے لیے دعا اور ان سے مناجات کرنے میں بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ جوادی آملی نے "دعائے عہد اور دعا کے سلسلے میں حقیقی منتظرین کی ذمہ داری" کے موضوع پر ایک مضمون میں لکھا ہے کہ دعا ہی انسان کا سب کچھ ہے:«اغفر لمن لا یملک الاّ الدعاء»، کیونکہ دعا کا خلاصہ غربت کا اعتراف کرنا اور مطلق بے نیاز کی بارگاہ میں ضرورت مندی کا مظاہرہ کرنا ہے، اور اس کے سامنے اللہ کے سوا غربت اور ضرورت کچھ نہیں ہے:«اَنتُمُ الفُقَراءُ اِلَی الله»؛ منتظرین کو امام زمانہ (عج) کے ظہور کے لئے زمینہ فراہم کرنے میں عملی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اس غائب امام کے لیے دعا اور ان سے مناجات کرنے میں بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔

دعائے عہد امام صادق علیہ السلام کے مبارک وجود کی قیمتی دعاؤں میں سے ایک ہے، جو اپنی اعلیٰ تعلیمات کے علاوہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے منتظرین کے اہم ترین فرائض پر مشتمل ہے۔ توحید کی تعلیمات، امام زمانہ (عج) کے ساتھ مسلسل رابطے کی ضرورت، ان کے دفاع میں ثابت قدمی اور تسلسل، امام زمانہ (ع) کی حکومت کا خاکہ پیش کرنا اور اسی طرح کی دیگر اعلیٰ تعلیمات میں سے ہیں جو یہ نورانی دعا ہمیں سکھاتی ہے۔

اس نورانی دعا کے پہلے پیراگراف میں دعا کرنے والا توحید کے کلمات دہرا کر، خدا کی ستائش کرتا ہے اور اس کی ربوبیت کو تسلیم کرتا ہے، اور رسولوں کے بھیجنے، کتابوں کے نزول اور الٰہی مذاہب کی تشریع کو خدا کی ربوبیت کے مظاہر کے طور پر شمار کرتا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اسماء کی عظمت اور ابدیت سے متوسل ہو کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے امام علیہ السلام پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرنے کی گزارش کرتا ہے؛ یہ بابرکت دعا امامت کے مقام کا توحید سے تعلق کے ساتھ ساتھ امام کی معرفت اور ان کے مقام عصمت سے ارتباط کے طریقے کی نشاندہی کرتی ہے، کیونکہ جب تک کوئی توحید تک نہیں پہنچ جاتا اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر یقین نہیں رکھتا، اسے امام کی معرفت نہیں ہوتی اور ان سے منسلک نہیں ہو سکتا۔

دعائے عہد کے دیگر پیراگراف میں انتظار کرنے والا داعی اپنے امام (علیہ السلام) سے عہد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ ہمیشہ امام زمانہ (عج) کے اصحاب میں سے رہے گا اور ان کے دفاع میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا اور امام (ع) کی خواہشات پر جلد عمل کرے گا اور اس سمت میں اپنی جان دے گا، اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے اس خدائی جمال اور جلال کے مظہر کی زیارت کے لیے دعا کرتا ہے اور دنیا کی تباہی کی وجہ بیان کر کے، جو کہ انسان کی تباہی ہے، عاجزی کے ساتھ خدا سے خدا کی حجت کے ظہور کی طلب کرتا ہے۔

دعائے عہد کی یہ عبارات، جو امام علیہ السلام کے حقیقی منتظرین کے اندرونی حالات کو بیان کرتے ہوئے انتظار کرنے والوں کو حقیقی انتظار کی جہتوں کے دیگر پہلوؤں کی تعلیم دیتی ہیں اور معاشرے کی زندگی کو امام زمانہ (عج) کے ظہور آثار کی مرہون منّت قرار دیتی ہیں۔

اس بابرکت دعا کے آخری پیراگراف میں بھی امام مہدی علیہ السّلام کی حکومت کے منصوبوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دعا کی زبان میں ان امور کا اظہار کیا گیا کہ جنہیں اللہ کی آخری حجت ظہور کے وقت بیان کرے گی۔

کتاب امام مہدی عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف، موجود موعود صفحہ 2

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha