حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی چیف جسٹس حجت الاسلام والمسلمین غلام حسین محسنی اژهای نے جمکران میں منعقدہ بیسویں بین الاقوامی مہدویت کانفرنس "انتظار، عالمی تبدیلیوں کی رفتار اور دنیا کا مستقبل" سے خطاب میں شعبان کی اعیاد کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس بین الاقوامی کانفرنس کو پچھلے بیس برسوں سے جاری رکھا اور امیدوار ہیں کہ ان کے حضرت حق کی خاص عنایت شامل حال ہوگی۔
انہوں نے عشرۂ فجر اور 22 بہمن کی مناسبت سے بھی تبریک پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم ان عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو دین دار، انقلابی، ولایت مدار، بصیرت سے بھرپور اور وقت شناسی کے حامل ہیں، جو حق و باطل کے درمیان فرق کو پہچانتے ہیں اور اس کی پابندی کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ بصیرت سے بھرپور عوام حضرت حجت (علیہ السلام) کے ظہور کا ادراک کریں گے۔
ایرانی چیف جسٹس نے بیان کیا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ انتظار اور مہدویت جیسے مفاہیم نے ہمارے لیے ایک نیا معنی اختیار کیا۔ اسلامی انقلاب، ظہور کے جلوے کا ایک شعبہ اور نور ہے، اس نور کا ظہور اس وقت ہوا جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور اگر اس وقت پوچھا جاتا کہ کیوں انتظار افضل عبادات میں سے ہے، تو ہم نہیں جانتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انقلابِ اسلامی باعث بنا کہ ہم انتظار کا معنی سمجھیں اور درک کریں اور کیوں انتظار بہترین عبادت اور اعلیٰ ترین عمل ہے؟ اور کیوں ہمیشہ حضرت حق کے ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے؟ اگرچہ بہت ساری باتوں کو ہم نے انقلاب سے پہلے قبول کر لیا تھا، لیکن ان باتوں کا واضح ہونا انقلاب اسلامی کے بعد ممکن ہوا۔
انہوں نے کہا کہ جب امام راحل، جو اہل بیت (علیہ السلام) اور قرآن کے ایک تربیت یافتہ فرد تھے، نے اپنی تحریک شروع کی اور کچھ عرصے بعد انہیں جلاوطن کیا گیا، وہ لوگوں کو حق، عدل و انصاف قائم کرنے کی دعوت دے رہے تھے، تو بہت سے لوگوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ باتیں کبھی عملی شکل میں سامنے آئیں گی۔
انہوں نے کہا کہ جب امام راحل کو عراق سے کفر کی سرزمینوں میں جلاوطن کیا گیا، تو سب کی نظریں اس بات پر مرکوز تھیں کہ کیا ہوگا؟ کیا ایک ایسا شاہی نظام جس کی جڑیں ۲۵۰۰ سالوں سے گہری ہیں، اور جو مغربی طاقتوں کی حمایت پر قائم ہے، کیا وہ اجازت دے گا کہ ایک عالم دین ایران واپس آ کر حکومت سنبھالے؟ یہ بات نہ تو تاریخ دانوں، نہ سوشیالوجسٹ، اور نہ ہی سیاسی ماہرین کے لیے قابل تصور تھی؛ حتی کہ کچھ دوست اور خیرخواہ بھی یہ کہتے تھے کہ کیا خالی ہاتھوں سے ان کا مقابلہ ممکن ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ انقلابِ اسلامی کے ساتھ لوگوں کو یہ سمجھ میں آیا کہ کیوں ائمہ (ع) فرماتے ہیں کہ انتظارِ فرج کے اور آئندہ اور کامیابی کی امید رکھنا سب سے بڑی عبادت ہے، کیونکہ اس راستے پر جو اللہ نے مقرر کیا ہے، کسی ایسے کا آنا ضروری ہے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے اور ان مادی مکاتب کو جو بند گلی میں جا چکے ہیں، اصل مقصد اور فطرت کی طرف واپس لے آئے۔
ایرانی عدلیہ کے سربراہ نے بیان کیا کہ انقلابِ اسلامی کے ساتھ بعض افراد کے مفادات خطرے میں پڑ گئے، استکباری طاقتیں یہ نہیں سوچ سکتی تھیں کہ دنیا کے ایک کونے میں ایک عالم دین اتنی بڑی تبدیلیاں لائے گا کہ ان کے طاغوتی نظاموں کی بنیادیں ہل جائیں گی، ان کی اطلاعاتی نظاموں کو سرگرداں کر دے گا، ان کی تمام چالبازیوں کو بے نقاب کر دے گا اور ان کے باطن کو آشکار کر دے گا، مگر اچانک وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا رعب و دبدبہ ٹوٹ گیا اور جس ملک میں حکومت، پارلیمنٹ اور بادشاہت ان کے قبضے میں تھی، وہاں اب کوئی ان سے نہیں ڈرتا۔
حجت الاسلام والمسلمین محسنی اژهای نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انقلابِ اسلامی صدی کا معجزہ تھا اور اس نے ایک نئی دنیا تشکیل دی، کہا کہ جن لوگوں نے نقصان اٹھایا اور جو اپنا مفاد، مستقبل اور حتیٰ کہ اپنی بقاء کو خطرے میں پایا، وہ خاموش نہیں بیٹھے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انقلابِ اسلامی کو حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے راہ ہموار کرنی چاہیے، کہا کہ استکباری طاقتیں جو نئی سائنسی و ٹیکنالوجی کی ترقی حاصل کر چکی ہیں، ان کا استعمال انسانیت کے خلاف جرائم میں کر رہی ہیں، یہ ٹیکنالوجیز جو انسان کی فلاح کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں، ان کا استعمال عوام کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے اور یہ تمام علم و ٹیکنالوجی اپنے اقتدار اور بقاء کے لئے استعمال ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے افراد کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے جو امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کے سپاہیوں کی طرح ہوں، انقلابِ اسلامی نے بہت سے عظیم افراد جیسے سید حسن نصر اللہ اور حاج قاسم کی تربیت کی ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے، ہمیں جدید علم سے لیس ہونا ہوگا، تاکہ ہم ان منصوبوں اور مسائل پر قابو پا سکیں جن کا دشمن غلط استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ