۲۳ آبان ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 13, 2024
مولانا فدا علی حلیمی

حوزہ/ مطالعاتی گروہ منظومہ فکری رہبری اور شعبۂ تحقیق جامعہ روحانیت بلتستان کے تحت جدید طرز پر ایک علمی و فکری نشست، حسینیہ بلتستانیہ کے فاطمیہ ہال میں منعقد ہوئی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مطالعاتی کورس منظومہ فکری رہبری اور شعبۂ تحقیق جامعہ روحانیت بلتستان کے تحت جدید طرز پر ایک علمی و فکری نشست، حسینیہ بلتستانیہ کے فاطمیہ ہال میں منعقد ہوئی۔

مطالعہ اور بحث و مباحثہ 'رب زدنی علما' کی عملی تفسیر ہے، حجت الاسلام فدا حلیمی

اس علمی نشست میں بلتستان بھر کی انجمنوں کے عہدیداران سمیت علمائے کرام اور طلباء نے بھرپور شرکت کی۔

نشست کی نظامت کے فرائض قلم کار و کالم نگار مولانا بشیر دولتی نے انجام دئیے۔

علمی نشست کا آغاز تلاوتِ کلامِ الٰہی سے ہوا، جس کا شرف محترم قاری غلام نبی صادقی نے حاصل کیا۔

مطالعاتی کورس کا تعارف کرتے ہوئے مولانا عارف بلتستانی نے کہا کہ اس کورس نے چار افراد سے شروع ہو کر ایک کاروان کی شکل اختیار کیا ہے، کورس میں مہدویت، تبلیغ، خودکشی سے بچاؤ اور منظومہ فکری رہبری جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔

انہوں نے اس مطالعاتی کورس کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ کورس پانچ مراحل پر مشتمل ہے: سب سے پہلے کتاب کا مطالعہ، پھر خلاصہ نویسی پھر گروہی مباحثہ اس کے بعد ارائہ (بیان) اور ان موضوعات پر تفکر و تعقل شامل ہے۔

برادر سہیل شگری نے منظومہ فکری کی ضرورت، ماہیت اور اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منظومہ فکری کے بغیر انسان افراط و تفریط کا شکار ہوتا ہے۔ منظم ہوکر ایک فکر کے ساتھ، ایک سمت میں اور مدنظر ہدف کی طرف بڑھنے کا نام منظومہ فکری ہے۔ منظومہ فکری ایک عصر کے خاص متفکر کا ہی ہو سکتا ہے جو کہ ہمارے زمانے میں آیت اللہ العظمٰی امام سید علی حسینی خامنہ ای کی صورت میں موجود ہیں۔

برادر جاوید غندوسی اور شیخ صادق جعفری نے ایمان کی بحث کو منظومہ فکری کے تحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ آیت اللہ العظمٰی امام سید علی حسینی خامنہ ای، جس ایمان کی بات کرتے ہیں وہ ایسا ایمان ہے جو قلب و نظر سے نکل کر اعضاء و جوارح سے ظاہر ہو۔ ایسا ایمان جو انسان کے اندر احساس مسئولیت پیدا کرے اور عمل صالح انجام دے اور اسی پر متعہد رہے۔ خداوند عالم ایسے انسان کو کامیابی کی نوید سناتا ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے۔

نشست علمی سے استاد حوزہ حجت الاسلام والمسلمین فدا علی حلیمی نے مطالعہ و مباحثے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ مطالعہ استعداد کی کنجی ہے، اس کے بغیر اعلیٰ علمی مقام حاصل نہیں ہو سکتا، در حقیقت مطالعہ و مباحثہ "رب زدنی علما" کی عملی تفسیر کا نام ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ مطالعہ ہی نہ کریں اور علم میں اضافہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ مطالعے میں نظم اور ہدف مدنظر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر بزرگان نتیجہ دینے میں کامیاب نہیں ہوئے، آئمہ علیہم السلام کے بعد سب سے مفید ترین شخصیات میں سے ایک رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی ذات ہے، جن کے منظومہ فکری کا مطالعہ طالب علم کو کامیاب بنا سکتا ہے۔

شیخ فدا علی حلیمی نے منظومہ فکری کے عناصر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس منظومہ فکری کا پہلا عنصر مبانی اور بنیاد کا مستحکم ہونا ہے، جو انسان کو افراط و تفریط سے بچاتا ہے۔ دوسرا عنصر نظم اور ہدف ہے۔ تیسرا عنصر انسجام اور وحدت ہے، جبکہ چوتھا عنصر عقل کی حاکمیت ہے۔

انہوں نے کورس میں شامل برادران کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ حاصلِ مطالعے کو محفوظ کر کے اسے مفید بنانے کی کوشش کریں۔ مفید بنانے کےلئے زبان پر عبور حاصل کرنا بہت ضروری ہے، زبان کے بغیر نہ کوئی بیان کر سکتا ہے اور نہ ہی لکھ سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف ایک کتاب، ایک شخصیت تک محدود نہ رہیں، بلکہ دیگر علمی شخصیات کے افکار کا بھی ضرور مطالعہ اور اس کے ساتھ مقایسہ کریں۔ مفکرین نے جن آیات سے استفادہ کیا ہے، آپ ان آیات کو سمجھنے کے لئے مختلف تفاسیر کی طرف رجوع کریں۔ مبانی اولیہ قرآن و حدیث کی طرف مراجعہ کیا کریں، کیونکہ حقیقی علم کا سر چشمہ قرآن و حدیث ہے، قرآن و حدیث سے ہدایت و رہنمائی، تربیت و اطاعت، تحکیم و ترفیع اور تبیین و تشریح کا فائدہ ہوگا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .