حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مؤسسہ الدلیل للدراسات والبحوث کے تحت ایک علمی نشست، ”علامہ اقبال کی نگاہ سے اسلامی فلسفے کا تنقیدی جائزہ“ کے عنوان سے قم المقدسہ میں منعقد ہوئی، جس میں ڈاکٹر برکت اللہ نے اس موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا، جبکہ ڈاکٹر برکت اللہ کے تحقیقی مقالے کا ڈاکٹر سید عباس حسینی اور ڈاکٹر فدا حسین حلیمی نے تنقیدی جائزہ لیا۔
ڈاکٹر برکت اللہ نے علامہ اقبال اور اسلامی فلسفے کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال جن کا برصغیر کے اہم مفکرین میں شمار ہوتا ہے اور آپ مختلف فکری مکاتب پر اثر انداز ہوئے ہیں، ان کی فکر زیادہ تر "اسلام میں دینی تجدید کی تعمیر نو" کے منصوبے کے ساتھ پہچانی جاتی ہے۔ موجودہ تحقیق میں اقبال کی اسلامی فلسفے سے متعلق تصور کو تجزیاتی و تنقیدی طریقے سے پرکھا گیا ہے۔
انہوں نے اپنی تحقیق کے طریقہ کار بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس تحقیق کا مسئلہ اور طریقۂ کار یہ ہے کہ ہم نے اقبال کے تمام منثور اور منظوم آثار کے استقراء سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اقبال نے کبھی اسلامی فلسفے کی ماہیت کی وضاحت نہیں کی ہے، بلکہ جب بھی انہوں نے اسلامی فلسفے کا ذکر کیا ہے یا تو عقل پر بات کی ہے یا پھر فلسفیانہ علوم یا شخصیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دوسری طرف، اقبال نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں اسلامی فلسفے سے متعلق مختلف تصورات پیش کیے ہیں۔ بالآخر دینی تجدید کے منصوبے کو پیش کرنے کے بعد اقبال نے اسلامی فلسفے کو یونانی اثرات سے متاثر قرار دیا ہے اور اسلامی دنیا میں فلسفیانہ روایت کو زیادہ سے زیادہ سچائی تک پہنچنے کی نیم کامیاب کوشش کے طور پر دیکھا ہے۔
ڈاکٹر برکت اللہ نے مزید کہا کہ ان کے اس تصور پر مختلف اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ جیسے: اسلامی فلسفے کی منطقی تعریف کا فقدان، اسلامی دنیا میں فلسفے کے داخلے کے طریقہ کار اور فارابی کے ورثے کو نظر انداز کرنا، اسلامی فلسفے کے مفید اور مثبت پہلوؤں کی طرف عدم توجہ، فلسفے کے متبادل تحریکات کو غیر منطقی اور بعض اوقات خطرناک طور پر ترجیح دینا اور تمام اسلامی فلسفیوں کے یونان سے تعلق کو یکساں سمجھنا وغیرہ۔
انہوں نے تحقیق کے نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق کا نتیجہ روش شناسی یا ماڈل۔ (متھولوجی) ہے۔ اس فکر پر تنقید کے لیے ضروری تھا کہ ایک ایسا ماڈل اپنایا جائے جو ہمیں مسئلے اور اس کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے ایک واضح خاکہ فراہم کرے؛ اس لیے یہاں "مرکز و حاشیہ" (centre–periphery or core–periphery) ماڈل کو منتخب کیا گیا۔ ابتداء میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیوں اس ماڈل کو مختلف دستیاب ماڈلز میں سے، خاص طور پر علوم انسانی و سماجی علوم کے میدان میں، منتخب کیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی فلسفے کے تصور اور اس کی قدر وقیمت کو اقبال کی فکری جہتوں کے سیاق و سباق میں اس ماڈل کے ذریعے بہتر طور پر سمجھا اور بیان کیا جاسکتا تھا۔ تحریر کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اسلامی فلسفہ، جو اقبال کا مرکزی میدانِ فکر تھا، وقت کے ساتھ اور دینی تجدید کی فکری توجہ کے مقابلے میں کیوں اور کیسے حاشیے پر چلا گیا اور دوسرے امور نے ان کی فکر میں مرکزی حیثیت حاصل کر لی۔ اس سوال کو "مرکز و حاشیہ" کے طریقے سے بہتر طور پر سمجھا اور بیان کیا جا سکتا ہے۔ اور اقبال کا یہ تصور کن داخلی و خارجی چیلنجز کا سامنا کرتا ہے، یعنی اسلامی فلسفے کی مرکزیت کو کیسے بنیادی حل کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے اور کیوں نہیں؟
ڈاکٹر برکت اللہ نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کے علاوہ، اقبال نے فلسفہ اسلامی میں جو کمیاں نکالیں، ان کا ایک بڑا حصہ ان کے اپنے فلسفیانہ نظریات سے جڑا ہے۔ اقبال نے فلسفے میں عشق اور شہود کی اہمیت پر زور دیا اور عقلانیت کو ثانوی حیثیت دی، حالانکہ فلسفہ اسلامی میں عقل اور شہود دونوں کو ایک متوازن انداز میں رکھا گیا تھا۔ اقبال کا یہ مؤقف کہ عشق اور شہود عقل سے اہم ہیں، ایک خطرناک رجحان پیدا کرتا ہے، کیونکہ عرفان بغیر عقل کے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزید برآں، اقبال نے اس بات پر توجہ نہیں دی کہ مسلمان فلاسفر نے یونانی فلسفے کی محض تقلید نہیں کی ہے، بلکہ اس میں بڑی تبدیلیاں لائی ہیں، تاکہ وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو سکے۔ اس کے علاوہ، اقبال نے مسلمانوں کے لیے افلاطون اور ارسطو کے حقیقی فلسفے کی اہمیت کو کم کر دیا، حالانکہ اگر مسلمان فلاسفر نے ان فلاسفروں کے اصلی فلسفے کو سمجھا ہوتا تو شاید ان کی تفاسیر زیادہ گہری اور متوازن ہوتیں۔
ڈاکٹر برکت اللہ نے کہا کہ اقبال کی تنقید کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے فارابی کے فلسفے کو نظر انداز کیا۔ فارابی نے یونانی فلسفے کو اسلامی ثقافت میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی اور ان کی فکری جدت کو سراہا جانا چاہیے تھا۔ اگر اقبال نے فارابی کے فلسفے کو زیادہ گہرائی سے سمجھا ہوتا، تو انہیں فلسفے اور جدیدیت کے درمیان تعلق کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملتا۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اقبال نے فلسفہ اسلامی کی تعریف کو واضح طور پر بیان نہیں کیا۔ اگر وہ فلسفے کی حقیقت اور نوعیت کو صحیح طور پر بیان کرتے تو ان کی تنقید زیادہ مبنی بر دلائل اور اثر انداز ہوتی۔ اس کے بجائے، اقبال نے فلسفہ کو ایک کلیہ کے طور پر پیش کیا، جس سے ان کی تنقید کمزور ہو گئی۔
اقبال کی نظر میں فلسفہ اسلامی:
ڈاکٹر برکت اللہ نے علامہ اقبال کی نظر میں اسلامی فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اقبال لاہوری نے اپنی فکری زندگی میں اسلامی فلسفے کے متعلق دو مختلف ادوار میں مختلف تصورات پیش کیے۔ پہلا دور 1900 سے 1910 کے عرصے پر مشتمل تھا، جس میں اقبال اسلامی فلسفے کے متافیزیکی اور عقلانی پہلوؤں سے بے حد متاثر تھے اور فلسفے کو حقیقت کی تلاش میں رہنمائی سمجھتے تھے۔ اس دوران انہوں نے تصوف کو فلسفہ اور میٹافزکس کے ساتھ جوڑا اور اسلامی فلسفے کے مثبت پہلوؤں پر زور دیا۔ ان کے اس دور کے خیالات میں مغربی فلاسفر مثلاً کانٹ، ہیگل اور شوپنہاور کے ساتھ اسلامی مفکرین جیسے عبدالکریم جیلی کا موازنہ شامل تھا، جس کے ذریعے اقبال نے اسلامی فلسفے کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران انہوں نے کتاب "تاریخ فلسفہ در ایران" بھی لکھی۔
اقبال کے دوسرے دور (1919-1938) میں فکری نقطۂ نظر میں تبدیلی آئی، جس میں وہ دینی تجدیدِ نو کے منصوبے کے ساتھ فلسفے اور خاص طور پر وحدت الوجود کے نظریے سے فاصلہ اختیار کرتے نظر آئے۔ ان کا خیال تھا کہ فلسفہ اور عقل دین کی تجدید کے عمل میں اہم کردار ادا نہیں کر سکتے اور ان کا رجحان تجربی دینی عمل کی طرف بڑھ گیا۔ اس دور میں انہوں نے اسلامی فلسفے کے مثبت پہلوؤں پر توجہ کم کر دی اور فلسفۂ اسلامی کو بعض اوقات وحدت الوجود کے اثرات سے جوڑا، جسے انہوں نے بعد میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ یوں علامہ اقبال کے مطابق، فلسفہ اسلامی ایک اہم فکری تحریک ہے، لیکن وہ اس کے ذریعے جدید تمدن کو سنت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کر سکتے۔ جب تک یونانی فلسفہ کا اثر اسلامی فلسفے پر غالب ہے، قرآن، وقت، اجتہاد، سیاست، فقہ، تجربہ پسندی، استقراء، حقیقت پویا، عشق اور دیگر اہم موضوعات کو صحیح طور پر سمجھا نہیں جا سکے گا۔ اقبال کے خیال میں، فلسفہ اسلامی، جو کہ رسمی طور پر یونانی فلسفے کی تفسیری شکل اختیار کر چکا ہے، عرب اور اسلامی ثقافت سے گہرا تعلق نہیں رکھتا اور اسے ایک اجنبی نظام سمجھا جانا چاہیے۔ اسلامی فلاسفر نے یونانی مفہوم اور عقل کی بنیاد پر قرآن اور اسلام کی تشریح کرنے کی کوشش کی، حالانکہ قرآن کی تجربی اور عینی حقیقتوں کو سمجھنا ضروری تھا۔ یونانی فلسفے کے بجائے، اسلامی فلسفے کو تجربہ، عمل اور تخلیقیت پر زیادہ زور دینا چاہیے تھا۔ اقبال کے مطابق، اسلامی فلسفہ یونانی ثقافت کی پیروی کرتے ہوئے قرآن کی روح کو درست طور پر نہیں سمجھ سکا، جس کی وجہ سے یہ فلسفہ موجودہ دور میں مسلمانوں کے لیے مؤثر نہیں ہو سکتا۔
نقد:
محقق نے علامہ اقبال کی اسلامی فلسفے کی نظر کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ پہلا اہم نکتہ یہ ہے کہ اقبال نے یونانی اثرات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور اس کے اثرات کو منفی طور پر پیش کیا ہے۔ اگرچہ اقبال نے اعتراف کیا کہ اسلامی فلسفہ میں یونانی اثرات ہیں، لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ اثرات کبھی بھی سادہ تقلید کی صورت میں نہیں ہیں۔ مسلمان فلاسفر نے یونانی فلسفہ میں موجود اصولوں کو اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس، بعض محققین کا کہنا ہے کہ یونانی فلسفہ کو اسلامی ثقافت میں داخل کرتے وقت اس میں کافی تبدیلیاں کی گئیں، تاکہ یہ اسلام کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو سکے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اقبال نے فلسفہ اسلامی کی تاریخ کو کافی سادہ انداز میں بیان کیا ہے اور اسے محض "ترجمے کی تحریک" تک محدود کر دیا ہے۔ اقبال نے اسلام میں فلسفے کے آغاز کو صرف ایک علمی ترجمے کی کوشش سمجھا، لیکن یہ نکتہ زیادہ قابلِ دفاع نہیں ہے، کیونکہ فلسفے کی موجودہ مسلمانی روایت اور ترقی اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور متنوع ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ اقبال نے فلسفہ اسلامی کی حقیقت کو واضح طور پر بیان نہیں کیا۔ جب اقبال فلسفہ اسلامی پر تنقید کرتے ہیں تو انہیں اس فلسفے کی حقیقت کو سمجھنا اور اس کا تعین کرنا ضروری تھا، تاکہ وہ جو تنقید کرتے، وہ درست اور بنیاد پر ہو۔ اگر وہ فلسفہ کی نوعیت اور اس کے اصولوں کو واضح طور پر بیان کرتے تو ان کی تنقید زیادہ مؤثر اور متوازن ہو سکتی تھی۔ اس کے علاوہ، اقبال کا یہ کہنا کہ فلسفہ اسلامی کا پورا نظام یونانی ہے، ایک عام کلیہ سازی ہے، جو حقیقت کے قریب نہیں ہے، کیونکہ اسلامی فلاسفر میں بہت سی مختلف آراء اور نظریات پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقبال کی یہ تنقید بھی ایک مسئلہ ہے کہ انہوں نے فلسفہ اسلامی پر تنقید تو کی ہے لیکن اس کا کوئی متبادل پیش نہیں کیا۔ اقبال اگر فلسفے اور عقلانیت کی اہمیت پر سوال اٹھاتے ہیں، تو انہیں اس کے متبادل کو بھی واضح طور پر پیش کرنا چاہیے تھا۔ عقل اور فلسفہ اسلام کے لیے انتہائی ضروری ہیں، کیونکہ یہ ثقافتی اور فکری بحرانوں کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بغیر کسی مضبوط عقل اور فلسفہ کے، مسلمانوں کے لیے فکری بحرانوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گا۔
ڈاکٹر سید عباس حسینی نے اس علمی مقالے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اقبال نے جس اسلامی فلسفے کی بات کی ہے وہ حقیقت میں ایک ایسا فلسفہ ہے جو غزالی سے آگے نہیں جاتا۔ یہ بات درست ہے کہ فلسفہ مشاء تمدن ساز نہیں، جبکہ جس فلسفہ کی ہم بات کرتے ہیں وہ علوم انسانی کے علاوہ تمدن ساز بھی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ استقراء کو اپنا مقام ملنا چاہیے، لیکن استقرا پر وارد اشکالات کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔ فکر اور عمل کو ایک قرار دیا جانا خطرناک عمل ہے اسی طرح اقبال کے عمل پر فکر اور اس پر زیادہ تاکید کرنا درست نہیں۔ عقل اور عشق میں تضاد کے بجائے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ان کی وادی الگ ہے، کچھ ایسی وادیاں ہیں کہ جہاں عقل پہنچ نہیں سکتی، لیکن وہ عقل کی ضد نہیں۔ اگر اقبال مشاء کے بجائے اشراق اور حکمت متعالیہ سے آگاہ ہوتے تو ایسی باتیں نہیں کرتے۔ اگر اقبال دین کی بنیادوں کو تجربہ دینی پر مبتنی کریں تو اس کے لوازم جیسے انکار وحی وغیرہ کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر فدا حسین حلیمی نے تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے محقق کی اس علمی تحریر کو سراہا اور مقالے میں مزید نکھار پیدا کرنے کی تاکید کی۔
آخر میں محقق نے ناقدین کا شکریہ ادا کیا اور دلائل پیش کیں۔