تحریر: نجیب حیدر بنارسی
حوزہ نیوز ایجنسی| خطبۂ فدکیہ وہ خطبہ ہے جسے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت اور حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے غصب ہونے کے بعد مدینہ کی مسجد میں دیا تھا، یہ خطبہ شہزادی کونین سلام اللہ علیہا نے فدک کو واپس لینے کےلئے(جو آپ کا حق تھا جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو بطور ہدیہ دیا تھا) فرمایا تھا۔
شہزادی کونین سلام اللہ علیہا نے اس خطبے میں تمام حقائق ومعارف الٰہی کو بیان کیا ہے خصوصاً اس خطبے میں عبادت الٰہی اور اوامر و نواہی کے فلسفے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
ہم یہاں پر چند چیزوں کو قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
ایمان
شہزادی کونین سلام اللہ علیہا نے سب سے پہلے اپنےاس خطبہ میں ایمان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :’’فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ الْإِيمَانَ تَطْهِيراً لَكُمْ مِنَ الشِّرْكِ‘‘’’اللہ نے تم پر ایمان کو واجب فرمایاہے تاکہ تم اس کے ذریعہ شرک سےپاک ہوجاؤ ‘‘۔
سب سے پہلے ایمان کا تذکرہ ا س بات کی دلیل ہے کہ تمام واجبات الہی اسی ایمان پر موقوف ہیں اگر ایمان نہیں ہے تو انسان کے دوسرے اعمال بھی بارگاہ الہی میں قبولیت کی حیثیت نہیں رکھتے ہیں ۔
دوسرا نکتہ یہ ہےکہ اس جملہ میں تطہیر کی تعبیر شرک کے عنوان سے سے ہوئی ہےاس لئےکہ شرک ان آلودگیوں اور نجاستوں کو بھی کہا جاتاہے جو انسان کی روح میں موجودہوتی ہیں جن سے انسان کو پرہیز کرنا چاہیے اسی وجہ سے سورہ حج میں اعلان ہوتاہے۔
’’فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثانِ‘‘ ’’ لہذا تم ناپاک بتوں سے پرہیز کرتے رہو ‘‘ اور سورہ انعام میں اس طریقہ سے خدا نے فرمایا ہے :’’كَذلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذينَ لا يُؤْمِنُون‘‘ اوروہ اسی طرح بے ایمانوں پر ان کی کثافت کو مسّلط کردیتاہے، لہٰذا جس طریقہ سے ظاہری نجاست مثلا کتا، سور، خون وغیرہ سے پرہیز کرنا ہمارے لئے ضروری ہے اسی طریقہ سے باطنی نجاستوں سے بھی بچنا ہماری ذمہ داری ہے جس میںسب سے بڑی نجاست خداکاشریک قرار دیناہے ۔
نماز
ایمان کے بعد شہزادی ٔ کونین سلام اللہ علیہا نے نماز کےفلسفہ کوبیان فرما یاہے کیوں کہ نماز دین اسلام میں ایک اہم فریضہ ہے یا یہ کہا جائے کہ اعتقاد ی مسائل میں ایمان بنیادی فریضہ کانام ہے فروعی مسائل میں نماز بنیادی فریضہ کا نام ہے اور روایات کے مطابق قیامت میں سب سےپہلے جس چیز کے بارےمیںسوال ہوگا وہ فریضہ نماز ہے۔
شہزادی کونین سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں : وَ الصَّلَاةَ تَنْزِيهاً لَكُمْ عَنِ الْكِبْرِ؛ (خدا وند عالم نے ) نمازکو تکبر دورکرنےکےلئے واجب قراردیاہے۔
نماز کےبہت زیادہ فائدے ہیں جیسےنمازیادخداہمارے دل میں پیدا کرتی ہے ،برائی سے روکتی ہے وغیرہ لیکن شہزادی سلام اللہ علیہا نے ان تمام چیزوں میں سے جس چیز کوبیان کیا ہے وہ تکبر سے دوری ہے۔
غرور و تکبر ایک ایسی چیز ہے جس میں انسان اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلہ میںبہت بڑا سمجھتاہے اور سب سے بڑا تکبر یہ ہے کہ انسان خدا کے سامنے تکبر کرے اور اس کی اطاعت میں سرتسلیم خم نہ کرے ۔
جی ہاں انسان کبھی کبھی اتناگر جاتاہے کہ وہ اپنے آپ کو خداسے بھی بڑا سمجھنے لگتاہے اور اس کی اطاعت قبو ل نہیں کرتاہے ۔نماز اورتکبر کےلئے قرآن مجید میں متعدد مقام پر آیا ت موجود ہیں جیسے’’وَ اسْتَعينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاةِ وَ إِنَّها لَكَبيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخاشِعين‘‘صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو نماز بہت مشکل کام ہے مگر ان لوگوں کےلئے جو خشوع و خضوع والے ہیں ۔
تفسیر میں ذکر ہواہےکہ خاشع سے مراد حالت نماز میں بندہ خدا کے سامنے ذلت و رسوائی کے ساتھ کھڑا ہواور نمازمیں اپنے وجود کو حاضر رکھے سورہ قیامت میں مغرور انسان کی جوصفت بیان کی گئی ہے وہ اس طرح بیان ہوئی ہے:’’فَلا صَدَّقَ وَ لا صَلَّى * وَ لكِنْ كَذَّبَ وَ تَوَلَّى * ثُمَّ ذَهَبَ إِلى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى‘ا س نے کلا م خداکی تصدیق نہ کی اور نہ نمازپڑھی،بلکہ تکذیب کی اور منھ پھیر لیا ،پھر اپنے اہل کی طرف اکڑتاہواگیا ۔
اس آیت میں تکبر اور نماز کےدرمیان ایک رابطہ کوبیان کیاگیاہے اگر انسان نمازی ہے تو تکبر سےپاک ہے اور اگر نماز نہیں پڑہتاہے تو وہ تکبر میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ نماز اور تکبر کے درمیا ن رابطہ کیسے ہے؟
جواب: نماز کا ہر عمل تکبر کے منافی ہے مثلانماز میں کھڑے ہو نے والا تواضع و انکساری کےمعاملہ میں بیٹھنے والے سے زیادہ متواضع ہے اسی طریقہ سےنماز میں بیٹھنا تواضع و انکساری کےمعاملہ میں سونے سےوالے سے زیادہ متواضع ہے ۔
جب انسان تکبیرۃ الاحرام کےلئے اپنا ہاتھ بلند کرتاہے تو اس بات کاثبوت دیتاہے کہ وہ کسی کی بزرگی کے آگےاپنے آپ کو تسلیم کر رہاہے ۔
رکوع کی حالت میں جب انسان خدا کے سامنے خم ہوتاہے تو گویا وہ فرمان الٰہی کی اطاعت کر رہاہےاور یہ اطاعت اس مرحلہ پر ہے اس کا سر بھی اگر جدا کر دیاجائے تو و ہ اطاعت الہی سے منھ نہیں موڑے گا۔
سجدے کی حالت میں وہ پیشانی جو انسان کے بد ن کا سب سے اونچا حصہ ہے اسےخاک پررکھتاہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی تواضع و انکساری نہیں ہوسکتی ہے کہ وہ خداکے سامنے اپنی پیشانی خاک پررکھے ۔
نماز کے اندر تواضع و انکساری کے یہ کچھ نمونے تھے ورنہ نما ز کے آداب بہت ہیں اور ہر ایک کے اندر الگ الگ تواضع انکساری پوشیدہ ہے واضح سی بات ہے کہ جب انسان کے اندر یہ خضوع و خشوع پیدا ہوگا تو غرور وتکبر کا راستہ اپنے آپ بند ہوجائے گا ۔
نماز تکبر کو ختم کرنے کا اتنا بہترین وسیلہ ہے متکبر اور مغرور انسان کانماز نہ پڑھنا بھی اسی سجدے کی وجہ سے ہے تاریخ اسلام میں واقعہ موجو د ہےکہ جب قبیلہ ثقیف اسلا م لانےکےلئےپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور آنحضرت کےساتھ کچھ شرطیں رکھیں جن میں دو شرطیں ایسی بھی تھیں پہلی شرط یہ تھی کہ’ لات‘ (مشرکین کے بڑے بتوں میں سے ایک )کوتین سال تک نابود نہ کیاجائے حالانکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی یہ شرط قبول نہ فرمائی اور کچھ افراد کو اس کی نابودی کےلئے بھیج دیادوسری شرط یہ تھی کہ ان کونماز پڑھنے سےمعاف کیاجائے ۔پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی شرط قبول نہ فرمائی اور فرمایا ’’إنَّهُ لا خَيرَ فِي دِين لا صَلاةَ فِيه‘‘ اس دین میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں نمازنہ ہو انہوں نےکہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ہمیں اس کا م کاحکم دےرہے ہیں جو ہماری ذلت و رسوائی کا سبب ہے (یعنی خداکےسامنے سجدے میں جانا) ۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کاجواب اس طریقہ سے دیا ؛إنّه لا خير في دين لا يكون فيه ركوع و لا سجود؛ جس دین میں رکو ع و سجود نہ ہو اس دین میں کوئی بھلائی نہیں ہے اس روایات میں رکوع و سجود کی اہمیت کی جانب اشارہ کیاگیاہے کہ حالت نمازمیںانسان کے اندر خضوع وخشوع پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ رکوع اور سجدہ ہے۔
زکات
نماز کی علت بیان کرنے کےبعدشہزادی ٔ کونین سلام اللہ علیہا سے زکات کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’وَ الزَّكَاةَ تَزْيِيداً فِي الرِّزْقِ‘‘اللہ نے زکات کو روزی میں اضافہ کا سبب قراردیاہے ۔
نماز کے بعد زکات کا تذکرہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نماز کے بعد اسلام میں جوفریضہ اہمیت کاحامل ہے اس کانام زکات ہے اور اسی لئے قرآن مجید میںجہاں نماز کا تذکرہ ہےوہاں زکات بھی تذکر ہ ہے لہذا شہزادی سلام اللہ علیہا چونکہ ؑ مفسرہ قرآ ن ہیںانہوں نےاسی عنوان کے تحت نماز کےبعد زکات کی علت کو بیان فرمایا ۔
نماز عبادی مسئلہ ہے جب کہ زکات کا تعلق اقتصادی مسائل سےہے جو کہ اس بات کا اعلان ہے کہ اسلام ایسا دین نہیں جس میں فقط عبادت کی تعلیمات دی جاتی ہے اورمعاشرتی اقتصادی اور یگر مسائل سے اس کو ئی رابطہ نہیں ہے بلکہ اسلام ایک جامع دین ہے جس میںجہان عبادت کی صورت میں نماز کو بیان کیاگیا ہے وہاںاقتصادی صورت میں زکات کو بھی بیان کیاگیاہے تاکہ نماز کے ذریعہ انسان کاخدا سے رابطہ میں رہے اورزکات کے ذریعہ اسلامی سماج میں اقتصادیات کا راہ حل نکل سکے۔
زکات روزی میں اضافہ کا سبب ہے روایات میں بھی اس بات کی جانب اشارہ ہواہے چنانچہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ اِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَضَعَ الزَّكَاةَ قُوتاً لِلْفُقَرَاءِ وَ تَوْفِيراً لِأَمْوَالِكُمْ‘‘خداوند عالم نے زکات کو فقیروں کی طاقت اور تمہارے اموال میں اضافہ کا سبب قرا ردیاہے ۔نیز فرماتے ہیں: ’’مَا مِنْ رَجُلٍ أَدَّى الزَّكَاةَ فَنَقَصَتْ مِنْ مَالِهِ وَ لَا مَنَعَهَا أَحَدٌ فَزَادَتْ فِي مَالِهِ‘‘ایسا نہیں ہے کہ کوئی انسان زکات دےدے تو اس کے مال میں کمی واقع ہوجائے یا اگرکوئی زکات دینےسےمنع کردیتاہےتو اس کا مال زیادہ ہوجاتاہے ۔
دوسری طرف روایات میں یہ بھی بیان ہواہے کہ اگر کوئی انسان زکات نہیں دیتاہے تو اس کا مال کم ہوجاتاہےاور برکت چلی جاتی ہے امام جعفر صاد ق علیہ السلام ارشادفرماتےہیں:’’وَ مَا مِنْ مَالٍ يُصَابُ إِلَّا بِتَرْكِ الزَّكَاةِ‘‘مال میں نقصان زکات نہ دینےکی وجہ سے ہوتاہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتےہیں:’’إذَا مُنِعَتِ الزَّكَاةُ مَنَعَتِ الْأَرْضُ بَرَكَاتِهَا؛ جب کوئی انسان زکات دینے سے منع کرتاہے زمین اس کےلئے اپنی برکت کوروک دیتی ہے(زمین کی برکت یعنی ہر وہ چیز جو زمین سے نکلتی ہے مثلا معدن ،زراعت پھل وغیرہ)
روزہ
چوتھا فریضہ جس کوشہزادیٔ کونین سلام اللہ علیہا نےبیان فرمایا ہے وہ روزہ ہے ْشہزادی سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں : «وَ الصِّيَامَ إِثْبَاتاً لِلْإِخْلَاص؛(خدا وند عالم نے )روزہ کواخلاص کےلئے واجب کیاہے۔
روزہ اسلام کے بنیادی مسائل میں سے ہے امام محمد باقر ؑ فرماتےہیں ۔اسلام کی بنیادپانچ چیزوں پر ہے۔ نماز ،زکات، حج ،روزہ اورولایت۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتےہیں : روزہ جہنم کی آگ کےلئےڈھال کےمانندہے۔لہذا شہزاد ی سلام اللہ علیہا نے بھی اس کو واجبات کے زمرےمیں بیان کیا ہے۔
ایک سوال یہ پیداہوسکتاہے کہ روزہ کا اخلاص سے کیا رابطہ ہے؟ اس لئے کہ عبادات توبہت ہیں مگر اخلاص کو روزہ کے ساتھ مخصوص کرنے کی وجہ ہو سکتی ہے ؟
علمائے اسلام نے اس کا بہت خوبصورت جواب دیاہےمثلا ابی الحدید معتزلی فرماتے ہیں کہ روزہ اخلاص کا امتحان ہے کیوں کہ کوئی انسان روزہ کی حقیقت سے واقف نہیں ہے اور مخلص بندوں کے علاوہ کوئی اس کو صحیح طریقہ سےانجام نہیں دےسکتا ‘‘’صحیح روزے سے مراد پورے آداب کے ساتھ روزہ رکھنا ہے یعنی کان کا بھی روزہ ہو آنکھ کا بھی روزہ ہو زبان کا بھی روزہ ہو اور اعضا و جوارح کا بھی روزہ ہو )
ایک حدیث میں اامام جعفر ٓصادق ؑ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: «إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى يَقُولُ الصَّوْمُ لِي وَ أَنَا أَجْزِي عَلَيْهِ؛ خداوندعالم فرماتا ہے کہ روزہ میرےلیے ہیں اور میں ہی اس کی جزا دیتاہوں ۔
تمام عبادتیں خدا کی ہیں لیکن اس روایت میں صرف روزہ کو عبادت خداکے عنوان سے بیان کیاگیاہے اور اس کا اجر بھی خدا کے ہی ہاتھ میں ہے تفاسیر کے اندر اس کی چند وجوہات بیان کی گئی ہیں جن میں سے سب سے پہلی وجہ روزہ میں پایاجانے والا اخلاص ہے اس لئے کہ صرف خدا ہی جانتاہے کہ اصلی روزہ دار کون ہے ؟
بعض دوسری تفاسیر بھی بیان کی گئی ہیں ۔جواس سے بہتر ہے ’’تمام عبادتیں جن کو بندگان خدا قربت خداکےلئے انجام دیتے ہیں جیسے نماز حج و صدقہ اعتکاف دعاقربانی وغیرہ یہ ایسی عبادات ہیں جو مشرکین بتوں کےلئے بھی انجام دیتے تھے لیکن تاریخ می ایسا کہیں نہیں ملتا کہ مشرکین بتوں کی قربت حاصل کرنے کےلئے روزہ رکھتے ہوں اسی وجہ سے خدانے فرمایا کہ روزہ میرے لئے ہیں اورمیں ہی اس کی جزا دینے والاہوں یعنی مییرے علاوہ کوئی بھی روزہ میں شریک نہیں ہے اور میر ے علاوہ کسی کے لئے روزہ عبادت نہیں ہے۔
تمام عبادتوںکی حقیقت ظاہری ہیں مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی حقیقت پنہا ن ہے کیوں کہ دوسری عبادات کے اندر ریاکاری کا تصور آسکتاہے مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریاکاری کا تصور نہیں آسکتا ۔
حج
ایک اور فریضہ الہی جس کی جانب شہزادی سلام اللہ علیہا اشارہ فرماتے ہیں حج ہے آپ نے فرمایا: وَ الْحَجَّ تَشْيِيداً لِلدِّينِ خداوند عالم نے حج کو دین کو محکم اور بلند کرنے کےلئے بنایا ہے۔ تشیید عربی زبان میں کسی عمارت کی تعمیر کےلئے استعمال ہوتاہے یعنی بلند کرنے کے معنیٰ میں ہے شہزادی گویا بتانا چاہ رہی ہے کہ دین ایک عمار ت کی جس کو حج جیسی عبادت سے استحکام حاصل ہوتاہے اور اسی لئے حج اسلامی تعلیمات کامظہر ہے اور اسی حج کی بدولت دین میں استحکام پیداہوتاہے عالم اسلام کا ایک خاص وقت میں جمع ہو کر اور ارکان حج کو بجالانا اور لبیک اللھم لبیک کی صدائیںبلند کرنا رہتی دنیاتک پیغام پہونچاتاہے جو دین اسلام ایک مستحکم دین ہے۔اور اسی وجہ سے تاریخ میں ملتاہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانے میں جب مسلمان حج کرتے تو مشرکین کہتے تھے اصحاب محمد بہت زیادہ طاقتور ہیں ورنہ وہ حج پہ نہ آتے ۔
اطاعت اہل بیت ؑ
ایک اور ذمہ داری جسے شہزادی نے اپنے خطبہ میں بیان کیا اطاعت اہل بیت ؑہے شہزادی سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں :
’’وَ طَاعَتَنَا نِظَاماً لِلْمِلَّةِ، وَ إِمَامَتَنَا لَمّاً لِلْفُرْقَةِ‘‘خدا وند عالم نے ہماری اطاعت کو نظامدین اور ہماری امامت کو تفرقہ سے نجات کاذریعہ قرار دیاہے اس عبارت میں شہزادی سلام اللہ علیہا نے جو پہلا نکتہ بیان کیا ہے و ہ یہ ہے کہ اطاعت اہل بیت ؑ فریضہ الٰہی ہے کیوں کہ قرآن مجیدمیں خدا ورسول کی اطاعت کے بعد جن کی اطاعت کا حکم آیاہے وہ اولیٰ الامر ہے اور اولوالامر اہل بیتؑ کی ذات کےعلاوہ کوئی نہیں ہےدوسرا نکتہ یہ ہےکہ اطاعت اہل بیت ؑ کا کافائدہ یہ ہے کہ دین کے اندر اتحاد ہوگا ا س لئے کہ وجود امام اس تسبیح کےدھاگے کی طرح جو تمام دانوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رہتاہےجس کے ٹوٹنے سےتمام دانے بکھر جاتے ہیں لہٰذا اگرخدائے کے بنائے ہادی و امام کی پیروی نہ کی جائے تو سماج کےاندر تفرقہ اور اختلاف پیدا ہوجاتاہے اور مقام افسوس یہ ہےکہ امت ابتدائے اسلام میں ہی اس بیماری سےدوچار ہوئی بیعت شکنی اور ائمہ سے دوری نے ایسااختلاف پیدا کیا جس کا دائرہ بڑھتے زمانے کے ساتھ بڑھتاہی چلاگیااور امت مسلمہ دین اسلام کے اصلی ہدف سے دور ہوتی چلی گئی جس کاصرف ایک ہی علاج ہے اور اس کانام ہےاطاعت اہلبیتؑ۔شہزادی ؑنےاس کےعلاوہ بھی ۱۵ چیزوں کاتذکرہ کیا ہے جو یہاں پر بیان نہیں کیا جاسکتاہے۔
والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ
حوالہ جات:
1. ابن ابیالحديد، عبدالحميد بن هبةالله، شرح نهج البلاغة، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهيم، چاپ اول، قم: مكتبة آيةالله المرعشی النجفی، 1404ق.
2. ابناثير جزرى، مبارك بن محمد، النهاية فی غريب الحديث و الأثر، تحقیق: محمود محمد طناحى و طاهر احمد زاوى، چاپ چهارم، قم: مؤسسه مطبوعاتی اسماعيليان، 1367ش.
3. ابنطيفور، احمد بن أبیطاهر، بلاغات النساء، چاپ اول، قم: شریف رضی، بیتا.
4. احمدى ميانجى، على، مكاتيب الرسول(صلی الله علیه و آله و سلم)، چاپ اول، قم:دار الحدیث ، 1419ق.
5.جوهرى بصرى، احمد بن عبد لعزيز، السقيفة و فدك، تهران: مکتبة نینوی الحدیثه، 1401ق.
6.حسكانی، عبيدالله بن عبدالله، شواهد التنزيل لقواعد التفضيل، تحقیق محمدباقر محمودى، چاپ اول، تهران: مجمع إحياء الثقافة الإسلامية التابعة لوزارة الثقافة و الإرشاد الإسلامی، 1411ق.
7.راغب اصفهانى، حسين بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، چاپ اول، بیروت: دار القلم، 1412ق.
8.صدوق، محمد بن على، علل الشرائع، چاپ اول، قم: كتابفروشى داورى، 1385ش.
9. کتابٌ من لا يحضره الفقيه، تحقیق علیاکبر غفارى، چاپ دوم، قم: دفتر انتشارات اسلامى، 1413ق.
10۔ طوسى، محمد بن حسن، الأمالی، تحقیق مؤسسة البعثة، چاپ اول، قم: دار الثقافة، 1414ق.
11۔ كلينى، محمد بن يعقوب، الكافی، تحقیق علیاکبر غفارى و محمد آخوندی، چاپ چهارم، تهران: دار الكتب الإسلامية، 1407ق.
12. طبرى آملى، محمد بن جرير، دلائل الإمامة، تحقیق قسم الدراسات الإسلامية مؤسسة البعثة، چاپ اول، قم: بعثت، 1413ق.
13. فيض كاشانى، محمدمحسن، الوافی، چاپ اول، اصفهان: كتابخانه امام اميرالمؤمنين على، 1406ق.
14.كراجكى، محمد بن على، الرسالة العلوية فی فضل أميرالمؤمنين(علیه السّلام) على سائر
البرية، چاپ اول، قم: دلیل ما، 1427ق.
15.مازندرانى، محمدهادى بن محمد صالح، شرح فروع الكافی، چاپ اول، قم: دار الحدیث، 1429ق.
16. مجلسى، محمدتقى، روضة المتقين فی شرح من لايحضره الفقيه، تحقیق: حسین موسوى كرمانى و علیپناه اشتهاردى، چاپ دوم، قم: مؤسسه فرهنگى اسلامى كوشانبور، 1406ق.