تحریر: نجیب حیدر بنارسی
حوزہ نیوز ایجنسی| اس سوال کا جواب دینے کےلئے ایک مقدمہ کا سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ نے انسانوں کو عبادت کا حکم دیا ہے اور مقصد خلقت بھی عبادت ہی کو قرار دیا ہے، لہٰذا اگر انسان چاہتا ہے کہ وہ کمال اور پیشرفتہ منازل طے کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے۔
اس لئے کہ ممکن الوجود جب اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو واجب الوجود سے جڑ جاتا ہے اور خدا کے صفا ت ثبوتیہ میں ایک صفت صمد ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہےکہ اللہ کسی کی عبادت کا محتاج نہیں ہے، بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ وہ بے نیاز ہے۔
’’ إِن تَكْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيد‘‘‘ اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام بسنے والے بھی کافر ہو جائیں تو ہمارا اللہ سب سے بے نیاز ہے اور وہ قابلِ حمد و ستائش ہے۔
گر جملہ کاینات کافر گردد بر دامن کبریای اش ننشیند گرد
اگر ساری کائنات بھی کا فر ہو جائے تو پروردگار عالم کا دامن پہ کسی طرح کا دھبہ نہیں پڑے گا۔
اسی مطلب کو سید الشہداء علیہ السلام دعائے عرفہ میں اس طریقہ سے ارشاد فرماتے ہیں :
إلٰھِی أَنْتَ الْغَنِیُّ بِذاتِکَ أَنْ یَصِلَ إلَیْکَ النَّفْعُ مِنْکَ فَکَیْفَ لَا تَکُونُ غَنِیّاً عَنِّی، میرے اللہ تو اپنی ذات میں بے نیاز ہے اس سے کہ تجھے اپنی ذات سے نفع پہنچے کیوں کر تو مجھ سے بے نیاز نہ ہوگا ۔
لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاہم خداکو اپنی عبادت کے ذریعہ قائل کر سکتے ہیں ؟یعنی کیا وہ ہماری عبادت کا محتاج ہے، ایک معلم اپنے شاگردوں کو دعس دینے کےلئے کیا کرتاہے آیا ان کو درس کی طرف تشویق و رغبت دلاتا ہے ؟یا ان کو درس پڑھنے کےلئے مجبور کرتا اور ڈراتا ہے ؟شاگردوں کے درس پڑھنے یا نہ پڑھنے میں کیا استاد کا کوئی نفع اور نقصان ہے؟ـکیا استاد محتاج ہوتا ہے اس کہ وہ شاگردوں کو درس پڑھائے ؟ یہ وہ سوال ہیں کہ جو اللہ کے سلسلہ میں ہوسکتے ہیں اس لئے کہ وہ اتمام انسانوں کا معلم اول ہے۔
قرآن انسانوں کو نمازکا حکم دیتا ہے اس لئے کہ نماز اللہ کی نگاہ میں کمال و سعادت تک پہنچنے کےلئے بہترین وسیلہ ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :اللہ کے یہاں کچھ ایسے مقامات بھی ہیں جو دعا(نماز)کےبغیر حاصل نہیں ہو سکتے ہیں۔
انسانوں کو چاہئے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ اخلاق الٰہی سے متخلق ہو اور کمالات کی اعلیٰ منزل تک پہنچے تو اس کےلئے بس ایک راستہ ہے اور اس راستہ کا نام ہے عبادت اور عبادت ہی کے ذریعہ بندہ اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے لیکن اگر انسان کا رابطہ اللہ سے منقطع ہو جائے تو شیطان کے چنگل میں پھنس جائے گا جو کہ ہر وقت انسانون کی تاک میں لگا ہوا ہے او گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے، لہٰذا پروردگار عالم سے یہی دعا کرنی چاہیئے کہ پروردگارا! ہمیں شیطان اور اس کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھ جب انسان اپنے معبود سے یہ دعا کرتا ہے تو فرشتے اس کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور اس کو اپنا پیشوا سمجھتے ہیں لیکن جب وہ بندگی پروردگار کو فراموش کر دیتا ہے تو شیطان ا س کو دنیا و اخروی سعادت وکمال سے محروم کر دیتا ہے لہذا انسانوں کو چاہئے کہ وہ ایمان اور نمازکے ذریعہ اپنے دشمن سے مقابلہ کرے ۔یہ تو ایک کلی بات ہو گئی لیکن ہمارا جو سوال ہے کہ ’’ہم نماز کیوں پڑھتے ہیں ؟‘‘ اس کا جواب دو صورتوں سے خالی نہیں ہے
(۱)اللہ کے وجود اور پیغمبر ﷺ کی حقانیت،ائمہ معصومین علیہم السلام اور گزشتہ مذاہب پر ایمان رکھتا ہو۔
(۲)اللہ کے وجود اور دین کے سلسلہ میں شک وشبہ میں ہو اور اس صورت میں ضروری ہے کہ سوال پیش کرنے سے پہلے وہ ’’آفاق اور انفس‘‘پر غور و فکر کرے اس کے ذریعہ گزشتہ ادیان اور اور ائمہ علیہم السلام اور ان کی عصمت پر اعتقاد و ایمان رکھے۔
لیکن وہ لوگ جو اللہ و رسول اور ائمہ علیہم السلام پر اعتقاد رکھتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ بغیر چوں چرا کئے بغیر احکام دین پر عمل کریں اس لئے کہ جب آدمی بیمار پڑتا ہے اور اپنی بیماری کا ذکر ڈاکٹر سے کرتاہے تو جو نسخہ اور دوا ڈاکٹر لکھ کر دے دیتا ہے تو وہ اپنی صحت یابی کےلئے بغیر چوں چرا کے قبول کرتاہے اور ڈاکٹر کے بتائے ہوئے نسخوں پر عمل کرتاہے ۔
اگر اس بات کو اس طرح پیش کیاجائے کہ جب انسان بیمار ہوتا ہے اور ڈاکٹر کے پاس جاتاہے تو وہ اس کا مرض معلوم کرنے کے بعد اس کو سیرپ،ٹیبلیٹ،کیپسول اور دوسری دوائیں اس کےلئے لکھتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ ً فلاں ٹیلبلٹ ہر آٹھ گھنٹے میں ایک بار لینا او سرپ ہر روز صبح کے وقت ایک بار پینا ہے او جو چیزیں نقصان دہ ہوتی ہیں ان سے ڈاکٹر پرہیز کرنا مثال کے طور پر تیل والی چیزیں ،گوشت ،اور بھاری غذا مت لینا اس صورت میں مریض ڈاکٹر کے اس نسخہ پر کوئی اعتراض نہیں کرتاہے اس لئے کہ اسے پتہ ہے کہ جب تک وہ ڈاکٹر کے بتائے ہوئے نسخوں کی قدر نہیں کرے گا تب تک اس کو شفا نہیں مل سکتی ہے ۔
جس طریقہ سے مریض ڈاکٹر کے پاس جاتاہے اور اس کی ساری باتوں کو مانتا ہے اسی طریقہ سے عبادی زندگی میں بھی انسانوں کو چاہیےکہ چوں چرا کئے بغیر فرمان الٰہی پر عمل کرے۔ ایک نمازی اور اللہ پر ایمان رکھنے والا اس بات سے واقف ہوتا ہے اللہ کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا ہے اور اس نے تما م احکام کو آسمانی کتابوں میں رکھ دیاہے تاکہ اس کے ذریعہ انسان سعادت اور کمال کی منزل تک پہنچ سکے، لہٰذا نماز گزار انسان دین کے احکام کی پابندی کرے اور اسلام کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی کوشش کرے۔
نماز قرآن کی نگاہ میں
نماز کی اہمیت کے سلسلہ میں پروردگار عالم سورہ توبہ کی پانچویں آیت میں ارشاد فرماتاہے:’’فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ‘‘
پھر جب یہ محترم مہینے گزر جائیں تو کفاّر کو جہاں پاؤ قتل کردو اور گرفت میں لے لو اور قید کردو اور ہر راستہ اور گزر گاہ پر ان کے لئے بیٹھ جاؤ اور راستہ تنگ کردو پھر اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃِٰ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔
پروردگار عالم نے نمازکی اہمیت کو متعدد آیا میں بیان کیا ہے اور نماز کو صاحبان ایمان کی نشانی اور انسان کی معرفت کا ذریعہ قرار دیاہے ہم یہاں نمونے کے طور پر چند آیا ت الٰہی کو پیش کررہے ہیں ـ’’ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ‘‘
نماز قائم کرو کہ نماز صاحبانِ ایمان کے لئے ایک وقت معین کے ساتھ فریضہ ہے(نساء ۱۰۳)
’حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ‘‘
نماز کی پابندی کرو ۔(بقرہ ۲۳۸)
’’وَاذْكُر رَّبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ‘‘
اور خدا کا ذکر کثرت سے کرتے رہنا اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہنا۔(آل عمران ۴۱)
’’فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ، الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ. تو تباہی ہے ان نمازیوں کے لئے,جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔(ماعون ۴،۵)
اہمیت نماز روایات کی روشنی میں
اسلام میں نمازکی بہت زیادہ اہمیت ہے اور جتنی تاکید اسلام میں نمازکی ہے اتنی کسی عبادت کی نہیں ہے ۔اور اسی لئے نماز کے سلسلے میں بہت زیادہ روایات وارد ہوئی ہیں ۔نماز کو ایک اہم ترین فریضہ مانا گیاہے اور روایات میں اس طریقہ سے وارد ہوا ہے۔’’الصَّلوٰۃُ مِیْزَان ‘‘ نماز انسانوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے۔
أوَّلُ ما يُحاسَبُ يَومَ القِيامةِ صَلاتُه. قیامت کے دن سب سے پہلا سوال انسانوں سےاس کی نماز کے بارے میں کیا جائے گا ۔ اَلصَّلاَةُ قُرْبَانُ كُلِّ تَقِيٍّ (اللہ کی نگاہ میں )نماز متقین افراد سے قریب ہونے کا بہترین وسیلہ ہے۔
نماز شیطان کی نابودی کا بہترین وسیلہ ہے ۔
وَھِیَ آخر وَصَایَا الاَنْبِیَاء. نماز پیغمبروں کی آخری وصیت ہے ۔
مولائے کائناتؑ فرماتے ہیں: نماز ایک مضبوط قلعہ ہے اور نماز ی شیطا ن کے حملوں سے محفوظ رہتا ہے۔ (غرر الحکم ص۵۹)
نیز یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں: اگر نمازی کو یہ پتہ چل جائے کہ اس پر پروردگار کی رحمتیں کتنی ہے تو وہ اپنا سر سجدہ سے نہ اٹھائے۔
پیغمبر اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ـ:جب کوئی مسلمان وضو کرکے اور نماز پنجگانہ ادا کرتا ہے اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے پیڑ سے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ (المجازات النبویہ)
نیز ارشاد فرماتے ہیں: سب سے پہلی چیز جو اللہ نے میری امت پر واجب قرار دی ہے وہ نماز پنجگانہ ہے اور سب سے پہلا عمل جس کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ نماز ہے۔ ( کنز العمال ج۷)
نیز ارشاد فرماتے ہیں: کون اس بات کو پسند نہیں کرتا ہے کہ وہ جانے کہ اس کی نماز قبول ہے یا نہیں ہے ،کیا تمہاری نماز تم کو گنا ہ سے روک رہی ہے یانہیں روک رہی ہے پس تمہاری نماز جتنا تم کو گنا ہ سے روک لے اتنی ہی اس کی نماز قبول ہو جاتی ہے۔(بحارالانوارج ۸۲ص۱۹۸)
نیز ارشاد فرماتے ہیں:لاَ يَنَالُ شَفَاعَتَنَا مَنِ اِسْتَخَفَّ بِالصَّلاَةِ. جو نماز کو ہلکا سمجھتا ہے اس کو ہماری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ۔ (امالی ص۳۹۱)
نیز ارشاد فرماتے ہیں: میری نگاہ میں خدا کی معرفت کے بعد نماز سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ (حی علی الصلاح ص۱۸)
آئمہ علیہم السلام نے ہر موقع پر نماز کی بہت زیادہ تاکید کی ہے (یہاں تک کہ بستر مرگ پر بھی) اور دینی احکام میں جتنی اہمیت ا س عبادت کو دی گئی ہے اتنی اہمیت کسی اور عبادت کونہیں دی گئی ہے اس لئے ہم اس بحث میں کچھ وہ احادیث بھی پیش کررہے ہیں جو نمازکی اہمیت ، نماز کا سبک سمجھنے کا انجام اور نماز ترک کرنے کے نقصانات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ہم ان کوبیان کریں گے قرآن و احادیث اور روایات میں جو نمازکی اہمیت بیان کی گئی ہے اس سے واضح طور سے سمجھا جاسکتا ہے اس لئے کہ شریعت میں یہ حکم ہے کہ نماز کسی بھی صورت میں چھوڑنا نہیں چاہیئے چاہے مریض ہو ،چاہے زخمی ہو کسی بھی صورت میں نماز ساقط نہیں ہوگی اگر نماز کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھا جائے اور اگر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے ہو تو لیٹ کر پڑھا جائے اور اگر لیٹ کر بھی نہیں پڑھ سکتے تو اشارہ کے ذریعہ نمازپڑھنے کا حکم دیاگیاہے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے: صحیح و سالم نمازی کو چاہئے کہ وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھے اور مریض تہ بہ زانو بیٹھ کر نماز پڑھے اور جو مریض سے بھی زیادہ ضعیف ہے وہ بیٹھ کر نماز پڑھے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلا م سے کسی نے سوال کیا کہ اگر کوئی انسان جنگل میں کسی درندہ کے درمیان پھنس جائے اور اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہےکہ وہ کہیں جائیں اور نماز کا وقت بھی تنگ ہو تواس صورت میں کیا حکم ہے؟ امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جس طریقہ سے بھی ہو سکے وہ نماز پڑھے گا چاہے پشت بہ قبلہ ہی کیوں نہ ہو (نماز اس حالت میں ایک روحانی قوت عطا کرتی ہے دشمن سے مقابلہ کے لئے )
روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ امام علیہ السلام نے اپنے کسی صحابی سے فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اسلام کی جڑ ،شاخ اور اس کے قلعہ کون ہے۔
صحابی نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں ہمیں اس سے آگاہ فرمائیں۔
امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اسلام کی جڑ نماز ہے، اس کی شاخ زکات ہے اور اس کا قلعہ جہاد ہے۔
پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: نماز اس ستون خیمہ کے مانند ہے کہ جب تک وہ ستون باقی رہتا ہے، تب تک اس کی رسی، اس کی کیلیں اور خیمہ کا پردہ باقی رہتا ہے، لیکن جیسے ہی ستون گر جاتاہے تو ستون کے ساتھ رسی ،کیلیں ،اور خیمہ کا پردہ بھی کسی فائدہ کے لائق نہیں بچتا ہے۔
ایک شخص پیغمبر اکرم ﷺ کی بارگا ہ میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ﷺمیرے لئے دعا کیجئے تاکہ خداوند عالم مجھے داخل بہشت کرے۔
پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:مجھ سے مدد طلب کرو کثرت سجود سے (میری مدد کرو تاکہ میں تمہاری دعا کو قبول کروں )
مولائے کائناتؑ اہمیت نمازکے ضمن میں وصیت فرماتے ہیں اور اس طرح سفارش کرتے ہیں: تم اپنے نماز کی حفاظت کرو اور اپنے نماز کی پابندی کرو اور اس کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کرو اس لیے کہ نماز ہر مومن پر واجب ہےاور جس وقت اہل جہنم سے سوال کیا جائے گا کہ تم کو کیوں جہنم میں داخل کیا گیا تو وہ لوگ جواب دیں گے ہم لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے۔
معاویہ بن وہب کہتے ہیں: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا :اللہ کی نگاہ میں بندوں کاسب سے محبوب ترین عمل کون ساہے تو امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے بعد میری نگاہ میں نماز سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ تم لوگ نہیں دیکھتے ہو کہ عیسیٰ بن مریم فرماتے ہیں : اللہ نے مجھ کو (جب تک میں زندہ ہوں) مجھے نماز و زکات کی سفارش کرنے کا حکم دیاہے۔
پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت ہےکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال نماز، کار خیر اور جہاد ہے۔
مولائے کائنات علیہ السلام فرماتے ہیں: نمازِ پنجگانہ ان گناہوں کا کفارہ ہے کہ جو ان سے صادر ہوتا ہے اور جب تک انسان گناہوں سے پرہیز کرتاہے اور یہ اسی قو ل کی عکاسی ہے کہ پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے کہ نیکیاں برائیوں کو کھا جاتی ہیں ۔
فلسفہ نماز معصومین علیہم السلام کی نگاہ میں
آئمہ علیہم السلام نے احکام دین کا فلسفہ اپنے زمانے کے لوگوں کی عقل کے مطابق بیان کیاہے ہم یہاں پر کچھ روایات پیش کررہے ہیں :
پیغمبر اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: نماز کو واجب قرار دیا گیا ہے حج و طواف کا حکم دیاگیا ہے اس کی وجہ یہ ہےکہ اس کے ذریعہ انسان ذکر الٰہی کرے ۔
مولائے کائنات علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں :اللہ نے نماز کو تکبر کوپاک کرنے کے لئے قرار دیا ہے نماز کے ذریعہ انسان خدا سے قریب ہوتا ہے نماز گناہوں کو اسی طرح جھاڑ دیتی ہے جیسے درخت سے پتے جھڑ جاتے ہیں انسانوں کو ویسے ہی آزاد کر دیتی ہے جیسے جانوروں کے گلے سے گلو بند کو کھول دیا جاتا ہے۔
شہزادی ٔکونین حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اپنے مشہور و معروف خطبہ میں نماز کے فلسفہ کواس طرح پیش کرتی ہیں کہــ’’ اللہ نے نماز کو واجب قرار دیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ انسان تکبر سے بچے اور اپنے آپ کو پاکیزہ بنائے۔
ہشام بن حکم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا : نماز کا فلسفہ کیا ہے کہ لوگ اس کےلئے اپنے کارو بار کو چھوڑتے ہیں اور اپنے آپ کو زحمت میں ڈالتے ہیں ۔تو امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
نماز کے بہت سے فلسفے ہیں جیسے اگر لوگ آزاد ہوں اور یاد خدا اور یاد رسول سے غافل ہو ں اور صرف قرآن ان کے پاس ہو تو یہ امت گذشتہ کی طرح ہے کہ انہوںنے دین کو لے لیا تھا اور کتاب کو پس پشت ڈال دیا تھا اور انبیاء کو قتل کر دیا تھا لہٰذ ا ان کا دین کہنہ ہوگیا اللہ نے ارادہ کیا کہ اس امت (امت محمدی) یعنی دین پیغمبر ﷺکو بھلایا نہ جائے اس لئے پروردگار عالم نے اس امت پر نماز کو واجب قرار دے دیا تاکہ ہر دن پانچ مرتبہ اللہ اور رسول کا ذکر کیاجائے اور ان کا نام اپنی زبان پر لایا جائے اور نماز کےلئے اپنے آپ کو تیار کیاجائے اور اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو اور اس کو فراموش نہ کرے اور اس کے نام کو بھلایا نہ جائے ۔
ہشام بن حکم نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے سوال کیا نمازکی ابتدا میں تکبیر کہنا کیوں مستحب ہے اور اور ذکر رکوع میں ہم ’’سبحان ربی العظیم وبحمدہ ‘‘کیوں کہتے ہیں؟
امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اللہ نے سات آسمان بنائے اور زمین کے ساتھ طبقے بنائے اور ساتھ حجاب قرار دیا جس وقت رسول اکرم ﷺ سب معراج جب اس مقام پر پہونچے تو ایک پردہ ہٹا پیغمبر ﷺنے تکبیر کہی دوسرا پردہ ہٹا پیغمبر ﷺنے تکبیر بلند کی اس کے بعد تیسرا،چوتھا ،پانچواں ،چھٹا یہاں تک کی سارے پردے ہٹے پیغمبر ﷺ تکبیر بلند کرتے رہے ساتویں پردے کے ہٹنے کے بعد پیغمبر ﷺنے عظمت کبریائی کا مشاہدہ کیا اور اپنے زانو پر اپنے ہاتھوں کو رکھ کر خم ہو گئے اور فرمایا: ’’سبحان ربی العظیم و بحمدہ ‘‘ پاک ومنزہ ہے میرا رب اور میں اس کی حمد و ستائش کررہا ہوں جب وہ رکوع سے اٹھے تو کھڑے ہوگئے اور اس کے ایک ایسی عظمت کا مشاہدہ کیا جو پہلی عظمت سے بالا تھی سجدہ میں سر رکھ کر کہا سبحان ربی الاعلیٰ و بحمدہ پاک ومنزہ اور بلند عظمت والاہے پروردگار اور میں اس کی حمد و ستائش کر رہا ہوں۔ آپ نے یہ جملہ ساتھ مرتبہ کہا تو وہ رعب رک گیا اس بنا پر یہ سنت جاری ہوئی۔
امام علی رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: نماز کا حکم اس لئے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار ہے اور اس کے امثال کی نفی ہےاور ذلت و مسکنت اور خضوع و خشوع کے ساتھ خداوند جبار کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف اور اپنے پچھلے گناہوں کو در گذر کرنے کی التجا ہے اور اللہ کی عظمت و کبریائی کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر ہر روز رکھنا ہے تاکہ بندہ اس کو یاد رکھے بھولے نہیں اور نعمتیں پاکر آپے سے باہر اور سرکش نہ ہو جائے بلکہ خاشع اور متذلل رہ کر دین و دنیا کی نعمتوں میں زیادتی کےلئے رغبت رکھتے ہوئے طلب ہے علاوہ ازیں اس نمازمیں دن و رات تواتر کے ساتھ اللہ کی یاد ہوتی رہتی ہے تاکہ بندہ اپنے مالک اپنے پالنے والے اور اپنے خالق کو نہ بھول جائے ورنہ وہ ناشکر اور سرکش ہو جائے گا او ر اپنے رب کو یاد کرنا اور اس کے سامنے کھڑا ہونا اس کو گناہوں سے روکتا ہے اور مختلف قسم کے فسادات سے باز رکھتا ہے۔
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ