۲۴ آبان ۱۴۰۳ |۱۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 14, 2024
News ID: 404232
10 نومبر 2024 - 20:22
علمی مذاکرہ

حوزہ/آج وائس آف نیشن کے پلیٹ فارم سے 'یوم اقبال رح' کی مناسبت سے ایک خصوصی آنلائن علمی مذاکرے کا ہتمام کیا گیا۔ مذاکرے کا عنوان " کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں" تھا۔

تحریر: منظوم ولایتی

حوزہ نیوز ایجنسی | وائس آف نیشن کے پلیٹ فارم سے 'یوم اقبال رح' کی مناسبت سے ایک خصوصی آنلائن علمی مذاکرے کا ہتمام کیا گیا۔ مذاکرے کا عنوان " کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں" تھا۔

مذاکرے میں افکار اقبال پر خصوصی مقالہ جات پیش کیے گئے۔ ذیل میں آج کے علمی مذاکرے کی روداد قارئین کی نذر کرتے ہیں۔

آنلائن علمی مذاکرے کا آغاز پاکستانی وقت کے مطابق رات ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔ میزبانی کے فرایض برادر محترم علی مرتضیٰ حیدری صاحب نے انجام دیے۔حسبِ معمول مذاکرے کا آغاز تلاوتِ کلام ِ الہی سے ہوا جس کی سعادت قاری منظور حسین حیدری صاحب نے حاصل کی۔

بعد ازاں میزبان نے راقم الحروف کو مقالہ پیش کرنے کہا۔ راقم نے علامہ اقبال رح کی دو معروف نظموں " شکوہ" اور "جواب شکوہ" کا پسِ منظر سمیت دونون نظموں کے چیدہ چیدہ اشعار کو سامعین و حاضرین کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے مختصر شرح بھی کی۔ علاوہ ازیں یہ بھی بیان کیا کہ ماہرینِ اقبالیات نے حضرت علامہ اقبال رح کی زندگی کو تین ادوار مین تقسیم کیا ہے: پہلا دور 1905ء تک کا ہے۔ دوسرا مختصر دور 1905ء سے لیکر 1908ء تک کا ہے جب علامہ اقبال یورپ میں رہے۔ اور تیسرا دور 1908ء سے 1938ء یعنی علامہ رح کے وفات تک کا ہے۔

مذاکرے میں یہ بھی بیان کیا کہ یاد رہے کہ اردو ادب میں شکوے کی ابتداء مولانا الطاف حیسن حالی صاحب نے "مد و جذرِ اسلام" لکھ کر کی جِسے مسدسِ حالی بھی کہا ہے، لیکن اقبال رح نے شکوہ و جواب شکوہ میں اِس صنف کو عروج تک پہنچایا۔

شُکر شکوے کو کِیا حُسنِ ادا سے تو نے

ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے

بعد ازاں اسلام آباد سے برادر محترم عقیل رضا جعفری صاحب سلّمہ اللہ نے اپنا علمی مقالہ پیش کرتے ہوئے حضرت علامہ اقبال کے افکار کا تجزیہ پیش کیا۔ آپ نے اپنے مقالے میں نوجوان نسل اور کتاب کے تعلق سے متعلق بڑی اہم بات کی کہ جب علامہ اقبال یورپ گئے تو اپنے اسلاف کی کتابوں کو وہاں دیکھ کر انہیں بڑا صدمہ ہوا۔ بقول خود علامہ کے:

مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

برادر عقیل رضا نے مزید کہا کہ علامہ نے کشمیر اور افغانستان کی جہاں بات کی ہے وہیں فلسطین پر بھی بات کی ہے۔

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا

بعد ازاں آج کے علمی مذاکرے کے صدر محترم ڈاکٹر نذر حافی صاحب نے اپنے کلیدی خطاب میں فرمایا کہ سوال کی بڑی اہمیت ہے اور قرآن بھی " فسالوا اھل الذکر" کہہ کر سوال کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے علمی مذاکرے کا عنوان بھی " کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں" ہے جو علامہ کا ایک اہم سوال ہے۔ اور یہ سوال آج بھی تازہ ہے۔

ڈاکٹر حافی صاحب نے مزید کہا ہے علامہ اقبال نے اپنے کلام میں جابجا کئی مقامات پر سوالات اٹھائے ہیں جیسے

تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟

کاٹ کر رکھ دییے کفار کے لشکر کس نے؟

در خیبر کو اکھاڑا کس نے؟

راہ کسے دکھائی کوئی راہرو منزل ہی نہیں؟

آپ نے مزید کہا کہ یاد رہے کہ سوال علم کی کنجی ہے۔ یہ سوال ہی ہے جو سوچنے کے دائرے میں وسعت لاتا ہے اور مختلف مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ علمی نقد اور تجزیہ و تحلیل کا راستہ کھولتا ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر نذر حافی صاحب نے پوچھا کہ آج اقبال کے اپنے وطن پاکستان میں پاراچنار کے حوالے سے جو کچھ ہورہا ہے وہ ہم سے یہی سوال نہیں پوچھ رہا؟

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

اپنی گفتگو کے آخری حصے میں ڈاکٹر نذر حافی صاحب کا کہنا تھا کہ دو چیزیں وطن عزیز میں اتحاد امت کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایک رسالت مآب ص کی شخصیت اور دوسری چیز یکساں نصابِ تعلیم۔ بدقسمتی سے رسالت مآب کے نام گرامی کے ساتھ درود کے اندر تاریخ میں پہلی بار "واصحابہ" جیسے اجنبی جملوں کا اضافہ کر کے نئی نسل کو حقایق سے دور کیا جارہا ہے اور اسی طرح سے نصاب تعلیم کی تشکیل میں علامہ اقبال کے حقیقی افکار کو بھی بیان نہیں کیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک فکری خلا ایجاد کی جارہی ہے ۔جس کے نتائج بہت بھیانک اور شدید نوعیت ہوں گے۔

آپ نے اپنے صدارتی خطبے کے آخر میں حکومتِ پاکستان سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ ضرور سوچے کہ ملک میں نصابِ تعلیم کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ پاراچنار میں کیا ہورہا ہے؟ بےروزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے کیا ہورہا ہے؟ ہمیں اخلاصِ دل سے اِس طرف جانا چاہیے

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

آخر میں شرکاء کے سوالات کے جوابات بھی دئیے گئے اور احباب کا شکریہ ادا کیا گیا، یوں یہ علمی مذاکرہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .