تحریر: مولانا مصطفیٰ علی خان
حوزہ نیوز ایجنسی | وحدہ لا شریک پروردگار کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کر کے لاوارث نہیں چھوڑا بلکہ اس نے بشریت کی ہدایت کے لیے معصوم رہنما اور رہبر بھیجے جو کبھی نبی کی شکل میں ائے تو کبھی رسول کی شکل میں تو کبھی امام کی شکل میں اسی طرح اس ارحم الراحمین نے انسانیت کی ہدایت، رہنمائی، نجات اور دنیا و اخرت میں کامیابی کے لیے کتب اور صحف بھیجے جناب موسیؑ پر تورات نازل کی، جناب داؤدؑ پر زبور اور جناب عیسیؑ پر انجیل نازل کی دیگر انبیاء کو بھی صحیفے عطا کیے آخر میں سرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ کو مبعوث کیا اور ان پر قرآن کریم نازل کیا یہ وہ کتاب ہے جو لوگوں کے لیے رہنما ، متقین کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہر خشک و تر موجود ہے۔
ممکن ہے کوئی سوال کرے کہ اگر قران میں ہر خشک و تر موجود ہے اور ہر شے کا علم ہے تو وہ ہمارے لیے واضح كیوں نہیں تو اس کا جواب وہی ہے کہ کائنات میں بہت سی چیزیں پائی جاتی ہیں جن كو ہم جیسے عام لوگ عام نظر سے دیکھتے ہیں لیکن ایک پڑھا لکھا سائنس داں اس کی حقیقت کو بیان کرتا ہے اور گوہر کو تلاش کرتا ہے ، یہ صلاحیت ہر ایک میں نہیں ہوتی اسی طریقے سے قران کریم میں سب کچھ موجود ہے لیکن یہ صلاحیت ہر ایک میں نہیں ہے كہ اس كو دیكھ سكے۔
بہرحال ہم اپنے موضوع سے خارج نہ ہو لہذا بطور خلاصہ ایک جملے میں سمجھ لینا چاہیے کہ دین انسان کی دنیاوی اور اخروی زندگی کا نام ہے جو انسان دین پر عمل کرتا ہے وہ نہ صرف آخرت بلکہ دنیا میں بھی نیک نام ہوتا ہے اور بدن کی موت اس کا خاتمہ نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے اعمال و کردار کے سبب ہمیشہ زندہ و جاوید رہتا ہے۔
جب بھی دین کی احیا ءیا اصلاح کی بات ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دین کو موت آگئی ہے کہ اسے زندہ کیا جائے یا دین میں کوئی کجی یا کمی اگئی ہے کہ اس کی اصلاح کی جائے بلکہ دین تو خود زندگی کا نام ہے، دین مرض یا مریض نہیں بلکہ دوا کا نام ہے لیکن چونکہ انسان اپنی اس حقیقی زندگی اور حقیقی نسخہ نجات سے دور ہو جاتا ہے لہذا جب بھٹکے ہوئے انسان کو راہ دکھائی جاتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ دین کا احیاء یا دین کی اصلاح جبکہ دراصل دین کی نہیں بلکہ انسانیت کا احیاء ہوتا ہے اور انسانیت کی اصلاح ہوتی ہے۔
اگرچہ خالق نے بشریت کی ہدایت کے لیے ہر زمانے میں ہادی اور رہبر کا انتظام کیا لیکن انسانیت کے قسم کھائے ہوئے دشمن شیطان اور اس کے چیلوں نے انسان کو راہ ہدایت و سعادت سے بہکانے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی لہذا ہر زمانے میں اکثریت راہ ہدایت سے دور رہی۔ انبیاء مرسلین اور ائمہ معصومین علیہم الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ انسان کو اس کے مقصد حیات اور راہ سعادت کی رہنمائی کی اور صراط مستقیم کی جانب متوجہ کیا۔
سب سے پہلے ہم اس بات کو سمجھ لیں اور اس پر یقین کر لیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے جو دین یعنی دین اسلام مقرر کیا ہے وہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہےاسلام کا کوئی بھی قانون انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہے چاہے وہ عقائد ہوں یا احکام یااخلاق۔ اگر کسی بستی میں یا کسی علاقے میں سارے لوگ کما حقہ اسلام کو مان لیں اور اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو یقین جانیے کہ وہ جگہ دنیا میں جنت کا نمونہ ہوگی کہ جہاں پر امن و سکون کے علاوہ کوئی مشکل اور پریشانی نہیں ہوگی وہاں نہ کسی کا حق پامال ہوگا اور نہ ہی کوئی اپنے حق کے لئے گلہ کرے گا۔ اور جب ہر جانب امن و امان ہو تو پھر وہاں نہ کوئی سزا ہو گی اور نہ ہی سزا دینے والا ہو گا کیوں کہ جب جرم ہی نہیں ہو گا تو سزا کی ضرورت نہیں ہو گی۔
اللہ نے خلیفہ اول ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو بطور ہادی و رہبر بھیج كر سلسلہ ہدایت کا آغاز كیا ، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور ان میں سے تین سو تیرہ کو رسول اور ان تین سو تیرہ میں سے پانچ اولوالعزم پیغمبر مبعوث کئے۔ سب نے کما حقہ اپنی ذمہ داریاں انجام دی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنےمعصوم ہادیوں اور رہبروں کے آنے كےباوجود انسان کیوں گمراہ ہوا بلکہ اکثریت گمراہی کا کل بھی شکار تھی اور آج بھی ہے تو اس کی دو اہم وجہ بیان کی گئی ہے۔
۱۔ یکتمون ۔کتمان حق۔ یعنی چھپانا: قرآن کریم کی متعدد آیات میں ذکر ہوا کہ اہل باطل اللہ کی آیتوں، اس کی نازل کردہ بینات اور حق کو چھپاتے ہیں۔
۲۔ یبتدعون۔ بدعت ایجاد کرتے ہیں ۔ یعنی اہل باطل اپنی مرضی کے مطابق دین میں بنام دین نئی نئی چیزیں ایجاد کرتے ہیں اور اپنی ایجاد کو دین بتاتے ہیں ۔ عموماً ایک نبی کے دنیا سے جانے کے بعد ان کی امت کے سازشی لوگوں نے انہیں کے نام پر اپنی من مانی کی اور بدعتیں ایجاد کی۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی کسی سے نہیں کہا کہ میں اللہ کا بیٹا ہوں لیکن ان کے عروج چرخ چہارم کے بعد اہل باطل نے انہیں ابن اللہ بنا دیا۔ جب کہ آپ نے خود پیدائش کے بعدخود كو عبداللہ بتایا تھا ۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی بھی کسی کو شادی کرنے سےنہیں روکا لیکن یہ بدعت بھی ان کے بعد رائج ہوئی۔ بلکہ رہبانیت کا جو مفہوم رائج ہے اسکی بھی آپؑ نے کبھی تعلیم نہیں دی۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد بھی یہ دو چیزیں رائج ہوئی ایک ‘‘کتمان’’ دوسرے ‘‘بدعت’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی احادیث پر پابندی لگا کر حق کو چھپایا گیا، حلال محمدی کو حرام اور حرام محمدی کو حلال کر کے بدعتیں رائج کی گئیں۔ اگر ہم غور کریں تو غصب حکومت و فدک میں بھی یہی دو وجہیں کار فرما تھیں تا کہ ہر بے قانونی کو قانون کے بینر تلے اور ہر غیر شرعی کام کو شریعت کا لیول لگا کر کیا جائے ۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام سے لے کر امام حسن عسکری علیہ السلام تک ہر امام نے اسی کے خلاف جہاد کیا اور اور جب غیبت کی بدلی چھٹے گی اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ظہور فرمائیں گے تو ان کا بھی جہاد انہیں دو محور پر گردش کرے گا کیوں کہ ان کے بغیر دین کا احیاء ممکن نہیں ہے۔
عصر غیبت میں علماء ابرار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے بھی اسی کے خلاف جہاد کیا اور دین کا احیاء کیا اور بدعتوں کو ختم کرتے ہوئے سنتوں کو زندہ کیا۔
انہیں علماء ابرار میں ایک اہم نام سرکار مجدد شریعت آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔
آپ نے اخباریت اور صوفیت کے خلاف جہاد کیا اور شیعیت کو ان دونوں سے پاک کیا تا کہ گروہ حق میں کوئی حق چھپ نہ پائے اور نہ ہی کوئی باطل داخل ہو پائے۔
بر صغیر میں شرعی عدالت ، جمعہ و جماعت کا قیام اور عزاداری کا فروغ آپ ہی کا کارنامہ تھا ، شیعہ فقہی اور کلامی مکتب کو تقویت پہنچائی ۔ حوزہ علمیہ لکھنؤ کو قائم کیا۔ نہ صرف حوزہ علمیہ لکھنؤ بلکہ حوزہ علمیہ نجف اشرف کو بھی تقویت پہنچائی۔
متعدد اہم موضوعات پر ایسی قلم فرسائی کہ جس کا جواب آج تک ممکن نہ ہو سکا۔
جب آپ نجف سے وطن واپس لوٹے تو شمالی ہند میں سیاسی آشوب کا زمانہ تھا ۔ احمد شاہ ابدالی دہلی کو تاراج کر چکا تھا۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے تعلیماتِ محمدؐ و آلِ محمد ؑ کے خلاف کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم دشمنی بھی بڑھ رہی تھی۔ مرہٹے اور مسلمان راجے برسر پیکار تھے اور انگریز اس سیاسی ابتری کا فائدہ اٹھا کر بنگال پر قابض ہو چکے تھے۔ ایسے میں اودھ میں شیعہ نواب کی حکومت معاشی اور سیاسی استحکام کا نمونہ تھی جس نے لکھنؤ کو علم و ثقافت کا مرکز بنا دیا تھا۔
علامہ سید دلدار علی نقوی نے لکھنؤ میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی اور مکتبِ اہلبیت ؑ کی ترویج کیلئے کمر بستہ ہو گئے۔ آپ نے عقائدِ حقہ کی وضاحت کیلئے ”عماد الاسلام“ کے عنوان سے ضخیم کتاب تصنیف فرمائی جس میں اشعریوں کے امام فخر الدین الرازی کے کلامی نطریات کا رد کیا۔ اصولِ فقہ پر اپنی کتاب ”اساس الاصول“ میں ملا امین استر آبادی کی ”فوائدِ مدنیہ“ کا رد کیا۔
عماد الاسلام جو مراۃ العقول كے نام سے بھی جانی جاتی ہے جیسے كی بیان كیا گیا یہ کتاب فخر الدین رازی کی کتاب نہایۃ العقول فی درایۃ الاصول کا جواب ہے جسے رازی نے اشاعرہ عقیدے کے دفاع میں تصنیف کیا۔آیت اللہ سید دلدار علی نے اس کتاب کو 5 جلدوں:توحید ،عدل، نبوت، امامت، قیامت، میں مرتب کیا ۔ اسکے تمام باطلہ نظریات کو عقلی اور نقلی یعنی قرآن و سنت کی ادلہ سے رد کیا ہے ۔اس کتاب کے متعلق خود لکھتے ہیں یہ کتاب علوم کثیرہ،تحقیقات انیقہ،مباحث دقیقہ پر مشتمل ہے۔اس کتاب کو بعض سادات کے ہاتھوں مولوی عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا اگرچہ وہ ایک مدت تک زندہ رہا لیکن اس نے اپنے مذہب کے دفاع میں کچھ نہیں لکھا ۔
والد ماجد حجۃ الاسلام و المسلمین الحاج مولانا مجتبیٰ علی خان ادیب الہندی طاب مثواہ علم کلام میں اس کتا ب کا درس دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ علم کلام میں اس سے بہتر کتاب نہیں ہے
1790ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ”تحفۂ اثنا عشریہ“ لکھی تو آپ نے اس کے مختلف ابواب کا جواب مستقل کتابوں کی شکل میں دیا جن میں ”صوارم الالہٰیہ“، ”حسام الاسلام“، ”رسالۂ غیبت“ اور ”ذوالفقار“ وغیرہ شامل ہیں۔
صوارم الالہیات فی قطع شبہات عابد العزی و اللات معروف صوارم الٰہیات: یہ کتاب مولوی عبد العزیز دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے باب توحید کے جواب میں میں لکھی گئی ہے۔اس کتاب کو لکھنے کے بعد آیت اللہ دلدار علی ؒنے بعض معظم سادات کے توسط سے عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا ، کتاب حاصل کرنے کے بعد زندہ رہے لیكن جواب كی جرأت نہ كر سكے ۔
حسام الاسلام: یہ کتاب مولوی عبد العزیز دہلوی کی تحفۂ اثنا عشریہ کے باب نبوت کا جواب ہے ۔صوارم اور حسام الاسلام 1218 ھ میں یہ 500 کی تعداد میں لکھنؤ سے چھپی۔یہ کتاب بھی ان تك پہنچائی گئی لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا ۔
خاتمۂ صوارم: یہ کتاب مولوی عبد العزیز کی کتاب کی بحث امامت کا جواب ہے لیکن یہ صوارم کے ساتھ شایع نہیں ہوئی ۔
کتاب احیاء السنۃ: یہ کتاب بھی مولوی عبد العزیز دہلوی کی کتاب تحفہ کے باب معاد اور اس کے متعلقات کا جواب ہے ۔
ذوالفقار: یہ کتاب تولا اور تبرا کے موضوع کے متعلق لکھی گئی جو تحفۂ اثنا عشریہ کے بارھویں باب کا جواب ہے ۔1218 ھ سے 5یا 6 سال پہلے لکھی اور اسے عماد الاسلام کے ہمراہ مولوی عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا۔
رسالۂ غیبت: مولوی بعد العزیز دہلوی کے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی نسبت اعتراضات کا جواب ہے ۔
رسالۂ جمعہ: اس رسالے کو نماز جمعہ کے قایم كرنے سے پہلے تحریر کیا اور اس میں غیبت امام زمانہ ؑمیں نماز جمعہ کی جماعت کے قیام کو ادلہ واضحہ کے ساتھ بیان کیا ۔
مولوی صوفی محمد سمیع کے جواب میں صوفیت کے رد میں رسالہ تحریر کیا۔
مسکن القلوب: انبیاء کرام ، آئمہ معصومین علیہم السلام اور بعض علمائے حقہ کی مشکلات کے متعلق 1231 ھ کے ماہ ذی الحجہ کے آخر میں اپنے فرزند سید مہدی ؒکی وفات کے بعد میں لکھا ۔
رسالۂ ارضین: اس نام سے ہندوستان میں ہندؤں اور دیگراقوام کے ساتھ املاک و دیگر معاملات کے مسائل کے متعلق رسالہ لکھا ۔ یہ رسالہ رسائل ارضیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا سن تحریر 1264 ھ ہے۔
رسالۂ ذہبیہ: اس میں سونے اور چاندی کے برتنوں سے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں۔
اثارۃ الاحزان در احوال شہادت امام حسین علیہ السلام:یہ مقتل كی كتاب ہے جس میں شہادت امام حسین علیہ السلام كے حالات ہیں۔
اساس الاصول : یہ کتاب محمد امین استرآبادی کی اجتہاد کے خلاف اور اخباریت پر مشتمل کتاب الفوائد المدنیة کا دندان شکن جواب ہے جس پر آیت اللہ سید مہدی بحرالعلوم اور آیت اللہ سید علی طباطبائی (صاحب کتاب ریاض المسائل) نے تقریظ لکھی ـ
مذکورہ بالا تمام کتابیں وہ ہیں جو شائع ہوئیں ـ اس کے علاوہ آپ کی متعدد کتابیں شائع نہ ہوسکیں بلکہ مسودے کی شکل میں باقی ہیں ـ
علم كلام اور دفاع حق كے ساتھ ہی آپ نے دوسری جانب بدعت كا بھی مقابلہ كیا كیوں كی اس دور میں ایك طرف عقاید تشیع پر حملہ تھا تو دوسری طرف صوفیوں نے مسلمانوں کو ذہنی طور پر مفلوج بنا دیا كہ ایك مجاہد قوم مجاور بن گئ اور دین کے نام پر وسیع جاگیریں ہتھیا کر عوام کے اذہان کو جہلِ مرکب كا شكار كر دیا ۔ وحدت الوجود کے تصور کے مطابق جسمانی لذتوں کو خدا کی تجلی قرار دیا جا رہا تھا اور خانقاہوں میں مختلف قسم کی نشہ آور چیزوں کا استعمال عام تھا۔
ابنِ عربی (متوفیٰ 1240ء) کی فصوص الحکم اور دیگر کتابوں کے علاوہ مولوی رومی اور جامی وغیرہ کی شاعری پڑھائی جاتی۔ معصوم نوجوانوں کو روحانی ریاضت کے نام پر مختلف قسم کی جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی جاتیں۔ علومِ عقلیہ کے نام پر فلوطین (متوفیٰ 270ء) وغیرہ کے خیالات پڑھائے جاتے تھے۔
مغل سلطنت کے قیام سے پہلے ہی برصغیر کے شیعوں کو اسماعیلی صوفیوں اور مریدوں نے تصوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ علامہ سید دلدار علی ؒکے زمانے میں اودھ کے شیعوں میں صوفیوں کو بہت اثر و رسوخ تھا۔
صوفیوں کے کشف و کرامات اور نام نہاد باطنی علوم کے دعوے مشہور تھے اور سیاسی عدم استحکام کے دور میں راجے اپنے اقتدار کی بقا کیلئے ان کی آشیرواد لینا ضروری سمجھتے تھے۔ مختلف درگاہوں کو وسیع جاگیریں عطا کی گئی تھیں۔ مفلوک الحال عوام وجد و حال اور دھمال کی محفلوں میں شرکت کرتے اور خواص فلسفے اور وحدت الوجود کے تصور میں مست رہتے تھے۔ اس دوڑ میں ہندو جوگی اور بابا بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔
1786ء میں غفران مآب امامِ جمعہ ہوئے تو آپ نے اہلِ تصوف کے عقائد و اعمال کو خطبات کا موضوع بنایا۔ اس وجہ سے صوفی آپ کے دشمن ہو گئے اور اپنے مریدوں کو آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے روکنے لگے۔ جب وہ آپ کے علمی دلائل کا سامنا نہ کر سکے تو سیاسی دباؤ ڈال کر آپ کو روکنے کی کوشش کی۔
تمام تر مخالفتوں کے باوجود آپ کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی اور آپ نے عربی زبان میں اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کے اس علمی جہاد کا ہی اثر تھا کہ ماحول میں واضح تبدیلیاں آنے لگیں اور آپ کی بابرکت زندگی کے انجام تک شیعیانِ حیدر کرار ؑ کی اچھی تعداد نے خانقاہوں سے منہ موڑ لیا۔
الشہاب الثاقب
یہ کتاب فصیح عربی زبان میں لکھی گئی ہے، جو علامہ موصوف کے عربی زبان پر عبور کا اظہار ہے۔ اس کا انتساب وزیراعظم جناب حسن رضا خان کے نام کیا گیا ہے۔
علامہ کا کہنا تھا کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے حاکموں نے تصوف کو مسلمانوں میں اسلئے رواج دیا تاکہ عوام کا معارف الہیٰہ کے حصول کیلئے اہلبیت علیہم السلام کے در پر جانا کم کیا جائے اور اس سلسلے میں ائمہ طاہرین ؑ کا متبادل صوفیوں کو قرار دیا جا سکے۔ وہ اس سلسلے میں خلیفہ مامون عباسی کے دربار میں امام علی رضا ؑ کےمناظرے کی مثال لاتے تھے۔ وہ ائمہ ؑ کی کچھ احادیث بھی نقل کرتے ہیں جن میں صوفیوں کو شیطان کا پیروکار اور اہلبیت ؑ کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
کتاب کے پہلے حصے میں آٹھ ابواب ہیں۔ اس میں صوفیوں، فلسفیوں اور متکلمین کے یہاں وجود کے تصور پر اختلاف کو عقل و منطق کی رو سے پرکھا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ وحدت الوجود کا نظریہ عقل کی میزان پر پورا نہیں اترتا۔ وہ اس حصے میں ملا صدرا کی کتاب شواہد الربوبیہ اور جامی کے خیالات پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ وہ تنزلاتِ وجود کی کیفیات پر جرح کر کے صوفیوں کی ذہنی الجھنوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
دوسرا حصہ چھ فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں سید حیدر آملی (متوفیٰ 1385ء) کے نظریات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور سید حیدر آملی اور دیگر صوفیوں کی جانب سے قرآنی آیات کی تفسیر بالرائے کو باطل ثابت کیا گیا ہے
تیسرے حصے میں صوفیوں کے کشف و شہود کے دعوے زیرِ بحث ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ ان میں حق اور باطل کی تمیز کرنا دشوار امر ہے۔ نیز یہ چیزیں کوئی علمی حیثیت اور حجیت نہیں رکھتیں۔
صوفیوں کا یہ دعویٰ بھی غلط قرار دیا گیا ہے کہ وہ کشف کے ذریعے احادیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کو سمجھ سکتے ہیں۔
آگے چل کر صوفیوں کی بدعتوں اور ان کے عملی انحرافات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کی طرف سے موسیقی اور رقص و سرود کی محفلوں کے انعقاد کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ وہ صوفیوں کے مختلف فرقوں کا زمانی اعتبار سے ذکر کرتے ہیں اور ان کے سنگین اختلافات کا ذکر کر کے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ان حضرات کو حق کا شہود ہوتا تھا تو ان میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟
چوتھے حصے میں فقہاء پر صوفیوں کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ خاتمے میں آپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے واجب ہونے اور اہلِ بدعت سے دوری اختیار کرنے کے اسلامی احکام بیان کرتے ہیں اور دین کے دشمنوں کی پیروی کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ آپ وحدت الوجود اور حلول جیسے نظریات کو ارتداد کا موجب کہتے ہوئے صوفیوں پر لعنت کو جائز قرار دیتے ہیں اور انہیں توبہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
اس کتاب کی خاص بات ملا صدرا کے نظریات پر علامہ محترم کی مضبوط گرفت ہے جن کی ایک کتاب پر انہوں نے حاشیہ بھی لگایا تھا۔ یہ نظری پہلو اس کتاب کو برصغیر میں ردِ صوفیت پر لکھی گئی باقی کتب سے ممتاز کرتا ہے۔
پروفیسر اطہر رضوی کا تبصرہ
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق استاد اور مغلیہ تاریخ کے ماہر پروفیسر سید اطہر عباس رضوی (متوفیٰ 1994ء) لکھتے ہیں:
”مولانا دلدار علی (1753ء – 1820ء) نے صفوی دور کے علمائے شیعہ کے راستے پر چلتے ہوئے تصوف کی شدید مخالفت کی۔ اُن علماء کی طرح وہ بھی اِسے شیعیت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے الشہاب الثاقب کے عنوان سے صوفی عقائد کی تردید اور معروف صوفیاء کی مذمت میں ایک تفصیلی کتاب لکھی۔
مولانا وحدت الوجود پر صوفیوں کے دلائل کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ہر ایک کو رد کرتے ہیں۔ وہ اس بارے میں سید حیدر آملی کے خیالات کو باطل ثابت کرتے ہیں اور شریف جزجانی اور صدرالدین شیرازی (ملا صدرا) کے خیالات کو بھی نادرست قرار دیتے ہیں۔
اس کتاب میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ خدا کی ذات اور صفات کی بہترین معرفت صرف آئمۂ اہلبیت ؑ کے فرامین میں ملتی ہے۔ ان کے مطابق خدا کی ذات زمان و مکان سے ماوراء ہے، جو خود سے ظاہر ہے اور اس کی ذات کا ظہور دنیاوی اشیاء میں نہیں ہوتا۔
آپ نے بھرپور علمی زندگی گزار کر 1820ء میں وفات پائی۔ آپ کا مزار مبارک حسینیۂ غفران مآبؒ میں موجود ہے۔ آپ کو خدا نے پانچ بیٹوں سے نوازا، جو سب کے سب درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے اور آج بھی آپ کی اولاد الحمد للہ موجود ہے اور دین كی خدمت میں مصروف ہیں
علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی نے آپ کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں :
” من اعاظم علما الشیعۃ فی عصرہ و من اشہر رجال العلم فی الھند. “
ضرورت ہے کہ اس عظیم شخصیت اور ان کے کارناموں پر مفصل لکھا اور پڑھا جائے اور دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ۔
خانوادہ حضرت غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ کے چشم و چراغ بلکہ وارث برادر محترم مولانا سید سیف عباس نقوی صاحب قبلہ قابل مبارکباد ہیں کہ انھوں نے نسل حاضر و آئندہ کو محسن قوم و ملت سے آشانیٔ کے لئے یہ پروگرام مرتب کیا ۔ظاہر ہے آپ مرحوم و مغفور کے وارث ہیں لہذا آپ ہی بحسن و خوبی یہ کام انجام دے سکتے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
آخر میں حضرت غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ کے علوئے درجات کے لئے آپ حضرات سے سورہ فاتحہ کی گذارش ہے ۔