۱۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۶ شوال ۱۴۴۵ | May 5, 2024
مولانا سلمان احمد طاب ثراہ مبارکپوری

حوزہ/ مولانا سلمان احمد طاب ثراہ مبارکپوری01؍ جنوری 1947ء کو مبارکپور ضلع اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا کے ایک علمی خانوادے میں عالم ارواح سے عالم وجود میں تشریف لائے۔

تحریر: مولانا محمد رضا ایلیاؔ مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سلمان احمد طاب ثراہ مبارکپوری 01؍ جنوری 1947ء کو مبارکپور ضلع اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا کے ایک علمی خانوادے میں عالم ارواح سے عالم وجود میں تشریف لائے۔ابتدائی تعلیم مدرسہ ’’باب العلم‘‘ ، مبارکپور سے حاصل کی ۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے سلطان المدارس،لکھنؤ تشریف لے گئے جہاں سے آپ نے ’’صدر الافاضل‘‘ کی سند حاصل کی۔ اپنے محترم و معظم اور مکرم استاد مولانا کلب عابد طاب ثراہ کی خواہش پر پہلا تبلیغی و روحانی سفر ’’جےپور ‘‘ کا کیا ۔جہاں پر آپ نے ائمہ جماعت کے فرائض بخوبی انجام دیئے ۔ آپ نے تقریباً 1972 میں’’چتوڑ‘‘میں اور اس کے علاوہ مظفرنگر، بڑھانا ، جانسٹھ ، تیوڑا ، عبد اللہ پور، دہلی ،ممبئی ،میرٹھ،ہلور اور ہریانہ میں بھی جمعہ و جماعت جیسے الٰہی امور میں اپنی والہانہ اور بے لوث خدمات انجام دیں۔ جہاں جہاں آپ نے تبلیغی امور انجام دیئے وہاں وہاں لاعلم لوگوں میں تعلیم کے لیے نہایت حو صلہ افزائی ، ہمت افزائی اور دلجوئی سے کام لیا ۔ آپ کے طرز سخن ، اخلاق حسنہ میں ایسا اثر تھا کہ لوگ کشادہ دلی اور فراغ قلبی کے ساتھ اسلام کے اصول و فروع کی طرف ملتفت ہوگئے اور صوم و صلاۃ کے پا بند ہوگئے۔آپ دوبار پاکستان عشرہ مجالس خطاب کرنے کے لیے تشریف بھی لے گئے۔

مولانا سلمان احمد طاب ثراہ مبارکپوری1980 میں آپ جب فرید آباد تشریف لے گئے تو وہاں پر نماز یومیہ اور جمعہ کے لیے کوئی مسجد وغیرہ نہیں تھی ۔ آپ نے پہلے پہل رمضان المبارک میں ایک معزز شہری کے گھر میں نماز جماعت کے لیے منتخب کیا اور عارضی طور پر نماز قائم کی اس کے بعد تمام وسائل اور ذرائع کو بروئے کار لاکر اور سرگرم عمل ہو کر جنگی پیمانے پر امام بارگاہ قائم کرنے میں اپنا قیمتی تعاون کیا۔آپ نے مجالس و عشرہ محرم قائم کرائے اور خود بھی عشرہ مجالس خطاب کیا۔ یہیں پر اہم تاریخی مجالس کو بھی قائم و دائم کیا جو آج تک اسی شان سے مجالسوں کا انعقاد اور اسی امام بارگاہ میں صوم و صلوۃ کاسلسلہ بھی جاری و ساری ہے ۔1982 میں *آپ نے مسجد’’ امام علی نقیؑ ‘‘ دہلی میں امام جمعہ و جماعت کے فرائض انجام دیئے اور تعمیر مسجد کے انتظام و انصرام میں بدل و جان شامل رہے۔اس کے علاوہ’’مسجد زہرا‘‘، گوتم پوری ،دہلی میں مسجد کی تعمیر میں اہم کر دار ادا کیا۔ 1985-86 میں مولانا سلمان احمد مبارکپوری ایرانی کلچر ہاؤس کے شعبہ نشر و اشاعت اور تحقیقات میں آپ نے عربی و فارسی دستاویزی اور دیگر کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ آپ فارسی زبان کی درس و تدریس میں مصروف عمل رہے اور ہندوستان میں فارسی مخطوطات کی فہرست سازی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ایوان ثقافت کے فارسی لینگویج ریسرچ سینٹر میں تعاون بیش بہا تعاون کیا۔ایرانی اسلامی انقلاب کے فارسی ادب پر اثرات کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:’’ایران کے اسلامی انقلاب نے فارسی ادب پر مثبت اثرات مرتب قائم کیے ہیں، کیونکہ فارسی ادب کی ابتدا اسلامی امور سے ہوئی ہے، اس لیے یہ اسلامی انقلاب کا ایک اہم جز ہے‘‘۔آپ کی تالیفات میں ’’دعا اور تعقیبات‘‘ عربی کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ کیا اور’’ حسین اور اسلام‘‘ کا بھی ترجمہ کیا ۔

آپ 1990ء میں دینی خدمات انجام دینے کے لیے اپنے والد محترم کی خواہش پر ہلور، ضلع سنت کبیر نگر ، یو پی تشریف لے گئے جہاں انہوںنے 3؍ برس تک تبلیغی فرائض کو بحسن و خوبی انجام دیا ۔ آپ نے ہلور میں ہمیشہ غریب و مساکین، بیوہ، یتیم، بے سہارا اور خط افلاس نیچے لوگوں کی سرپرستی کی اور ہلور کے غربا میں غذائی اشیا، کپڑا اور مسکن جیسی بنیادی سہولیات کے لیے جدوجہد کی ۔بے سہارا لوگوں کی سر پر ستی کا عالم یہ تھا کہ ایک دن تنظیم المکاتب، ہلور برانچ میں آپ کی بیٹی محترمہ کنیز مہدی صاحبہ سے ان کی سہیلوں نے دریافت کیا :تم نے ناشتہ میں کیا کھایا ہے؟انہوں نے جواب میں کہا چائے اور روٹی تو طالبات نے کہنے لگی کہ ہم نے ’’توش؍پاپے‘‘ وغیرہ چائے کے ساتھ کھاتے ہیں انہوں نے پوچھا کون لاتا ہے؟ تو کہنے لگی تم کو نہیں معلوم تمھارے ابو صبح نماز کے بعد جب مسجد سے جانے لگتے ہیں تو اپنی عبا میں چھپا کر لاتے ہیں اور ہمارے گھر دے جاتے ہیں ۔

مولانا سلمان احمد طاب ثراہ مبارکپوری نے ایک مرتبہ مدرسہ میں ناپ لینے درزی کو بلایا، اس نے سارے طلبہ و طالبات کا ناپ لیا لیکن درزی نے آپ کی بیٹی کا ناپ نہیں لیا گھر جا کر بیٹی نے آپ سے پوچھا تمام طلبہ کے لیے کپڑے بنوا لے لیکن اپنی بیٹی کا ایک سوٹ نہیں بنوایا تو آپ نے کہا یہ تمھارا حق نہیں ہے ۔ یہ غریب یتیم بچوں کا حق ہے ۔ بیٹی نے کہا ابو ہم بھی تو غریب میں آپ نے فوراً کہا یہ خمس کا پیسہ ہے جو یتیم بچوں کیلئے ہے تمھارا باپ ابھی زندہ ہے۔1995میں آپ نے منصبیہ عربی کالج میں در س و تدریس کے فرائض کو انجام دیا ۔

آپ مہمان نوازی بھی بخوبی انجام دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ جب آپ سخت علیل ہوئے اور انتقال سے تقریباً آدھ گھنٹہ پہلے کچھ مہمان عیادت کے لیے تشریف لائے فوراً ان کو کھانا کھلانے کے لیے کہا مگر مہمانوں نے انکار کیا تو برجستہ آپ نے کہا اگر میں آپ کے دروازے پر آؤں تو کیا کھانا نہیں کھلائیں گے یہ اچھی بات نہیں ہے کھانا کھاکر جایئے گا بہر کیف مہمان کے جانے کے تقریباًآدھا گھنٹہ کے بعدآپ اس انتقال ہو گیا۔ (إِنَّا لِلٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)

آپ کے اندر عبادت کا بہت شوق تھا ۔ صبح کی نماز کے بعد تعقیبات میں مصروف رہتے تھے ۔دعائے کمیل پڑھتے وقت بہت زیا دہ گریہ فرماتے تھے ۔ اس کے بعد سب سے پہلے قبرستان جایا کرتے تھے ۔اپنے گھر والوں اور دوستوں سے فرمایا کرتے تھے ’’ قبرستان ضرور جانا چاہیے کیونکہ وہی تو ہمار ا اصل گھر ہے اور گھر کو کبھی ویران نہیں چھوڑنا چاہئے ۔‘‘ آپ کو تین چیزوں کو بہت شوق تھا۔ عبادت کرنا، دعائیں پڑھنا اور کتابوں کا مطالعہ کرنا۔

مولانا سلمان احمد طاب ثراہ مبارکپوری بہترین حکیم بھی تھے۔حکمت کی اچھی خاصی معلومات تھی ۔ دوائیں خود اپنے ہاتھ سے بناتے تھے ۔ مبارکپور کے باشندوں کا علاج کیا ۔ جن سے کئی اہم نام ہیں مگر یہاں ان ناموں کا درج کرنا مناسب نہیں ہے ۔اس کے علا وہ جہاں جہاں تبلیغی امور کے لیے تشریف لے گئے وہاں اپنی حکمت سے لوگوں کا علاج کیا آج بھی ان کے قلمی نسخے موجود ہیں ۔ جس کو ترتیب دیکر کتابی شکل دینے کی اہم ضرورت ہے ۔ آپ روحانی عالم بھی تھے ۔ ہر قسم کے روحانی عملیات سے بھی واقفیت رکھتے تھے ۔ دعاؤں سے بھی علاج کرتے تھے ۔مبارکپور کے اور دیگر علاقوں کے بہت سے ایسے افراد ہیں جو اس بات کے شاہد ہیں۔ کون سی دعا کس مرض میں کے لیے ائمہ ؑ نے بتائی اس سے بھی بخوبی واقفیت تھی اگر کوئی دعاؤں کے بار ے میں معلومات حاصل کرتا تو برجستہ یہ فرماتے تھے کہ فلاں دعا پڑھ لیجئے یہ بہت مجرب اور ائمہؑنے اس کی تاکید بھی فرمائی ہے۔

محقق دوران ،بزرگ عالم دین مولانا ناظم علی صاحب قبلہ عمید جامعہ حیدریہ مدینۃ العلوم، خیرآباد، مئو اور شاعر اہل بیتؑ، استاذالاساتذہ اور استاد معظم و مکرم مولانا ارشاد حسین صاحب قبلہ سابق استاد مدرسہ ’’ باب العلم ‘‘ مبارکپور، اعظم گڑھ سطان المدارس،لکھنؤ میں آپ کے کلاس ساتھی رہے ۔مولانا مسرور حسن مجیدی طاب ثراہ اور جناب الحاج سکندر حسین کربلائی مرثیہ خواں مبارکپوری آپ کے مخلص دوستوں میں تھے۔ الحاج مختار حسین مبارکپوری آپ سے مراسم حسنہ رکھتے تھے اور اکثر رسمی ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں ۔ جب مولانا مسرور حسن مجیدی صاحب کی طبیعت علیل ہوئی تو آپ نے ان کو خواب میں دیکھا کہ مولانا مسرور حسن مجیدی صاحب کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے مولانا مسرور حسن مجیدی صاحب سے سوال کیا کیا اللہ کی بارگاہ میں جانے کے لیے آپ تیار ہیں؟تو مولانا موصوف نے جواب دیا بیشک ۔ جب مولانا مسرور حسن مجیدی صاحب کا انتقال ہو گیا تو آپ نے بر جستہ کہا انا للہ و انا الیہ راجعون اب ہمارا بھی نمبر آگیا ہے ۔ مولانا مسرور حسن مجیدی صاحب کا انتقال کے سات ماہ کے بعدمولانا مو صوف کا انتقال ہوگیا۔ إِنَّا لِلٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔

جب 1999ء میں مبارکپور میں دوفرقہ درمیان فساد ہو ا تو مولانا سلمان احمد طاب ثراہ نے شیعہ قوم کی حفاظت میں پیش پیش رہے ۔ آپ نے بحیثیت قائد مبارکپور کے شیعہ قوم کی پورے جوش و خروش اور نہایت دلیری کے ساتھ رہنمائی کی اور جی جان سے ان کی مدد و نصرت بھی کی۔ مبارکپور کی شیعہ قوم کی تاراجی کے بعد ان کی ہمت افزائی ، دلجوئی اور شکستہ قلوب کی تسکین کا سبب بنیں۔ان کی اسی جانفشانی اور جانثاری کے تئیں آپ کو مبارکپور کی شیعہ قوم نے ’’ مجاہد اکبر‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا۔ روزہ عاشورہ 10؍محرم الحرام کو جب سماج دشمن عناصر نے جناب علی اکبر صاحب کو شہید کردیا تو آپ نے بذات خود غسل و کفن کے اہتمام و انتظام میں کارہائے نمایاں انجام دیا اور نماز جنازہ بھی پڑھائی اس کے علا وہ شہید جناب علی اکبر مرحوم کی سوم اور چہلم اور پہلی بر سی کی مجالس کو آپ ہی نے خطاب کیا۔

عالیجناب مولانا سلمان احمد طاب ثراہ مبارکپوری 2004ء اور 2005ء تک جعفریہ، نوگاواں سادات میں پرنسپل کی حیثیت سے اپنی انمول خدمات انجام دیں۔آپ 1993 سے آخری وقت تک فرید آباد میں تبلیغی امور انجام دیتے رہے اور وہیں پر اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف 10؍اگست 2010 کوکو چ کر گئے۔ إِنَّا لِلٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ مرحوم کی تدفین بگھرہ، ضلع مظفر نگر، یوپی، انڈیا میں ہوئی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .