۳۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 20, 2024
مولانا علی حسین (قیصرؔ) مبارکپوری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا شیخ علی حسین قیصر مبارکپوری ابن شیخ عبدالمجیدبتاریخ8؍مارچ سن 1908 عیسوی میں سرزمین مبارکپور ضلع اعظم گڑھ صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق مبارکپور کے علمی خانوادہ سے تھا۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اس کے بعد بنارس کا رخ کیا اور مدرسہ جوادیہ میں رہ کر جید اساتذہ سے کسب فیض کیا یہاں تک کہ فخرالافاضل کی سند حاصل کی ۔ پھر لکھنؤ کا رخ کیا اور سلطان المدارس میں جید اساتذہ کی خدمت میں زانوۓ ادب تہہ کیے جن میں سے:باقرالعلوم سید محمد باقر، آیت اللہ ابوالحسن نقوی، آیت اللہ سیدسبط حسن، مولانا سید محمد رضا فلسفی، مولانا عالم حسین ادیب، مولانا سید محمد ہادی اور حکیم سید مظفر حسین کے نام سر فہرست ہیں ۔

سلطان المدارس سے صدرالافاضل کی سند اور مدرسۃ الواعظین سے واعظ کی سند دریافت کی آپ نے روایتی کورس اپنی علمی صلاحیت کی بنا پر وقت سے پہلے مکمل کر لیا تھا ۔ مولانا علی حسین کو الواعظ مجلہ کا مدیر منتخب کیا گیا جس کو آپ نے اپنی حکمت عملی سے بام عروج پر پہنچا دیا۔

تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا علی حسین نے ممبئی کا رخ کیا اوروہاں خدمت خلق میں مصروف ہوگئے ،موصوف رات کی تاریکی میں لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوکر غریب لوگوں کو ضروریات زندگی مہیاکرتے تھے جس کے سبب غریب لوگ آپ کو ناصر کے نام سے یاد کرتے تھے ۔

مولانا فن مناظرہ میں مہارت رکھتے تھےمبارکپور میں متعدد بار اور لکھنؤ میں ایک یادگار مناظرہ میں آپ کو فتح نصیب ہوئی اسی وجہ سے آپ کو رئیس المناظرین کے لقب سے سرفراز کیا گیا۔آپ لوگوں کے محبوب نظر تھے۔ خدمت خلق کے پیش نظر امرتسر کے لوگوں کی دعوت پر امرتسر میں بھی تبلیغ کے فرائض انجام دئے۔

مولانا علی حسین کو مبارکپور کے مؤمنین نے حوزہ علمیہ باب العلم میں تدریس کی دعوت دی تو آپ نے مؤمنین کی دعوت کو قبول کیا اور باب العلم میں تدریسی فریضہ بہ حسن و خوبی انجام دیا ۔ مولانا کی علمی صلاحیت اور مدرسہ کے تئیں والہانہ محبت کو دیکھتے ہوئے آپ کو پرنسپل کے عہدے سے سرفراز کیا گیا ۔ مولانا نے باب العلم کی ترقی کے لئے انتھک کوششیں کیں اور انتظامی امور، درس وتدریس، ہاسٹل، لائبریری اور دیگر شعبوں میں نمایا ں کام انجام دئے۔

مولانا علی حسین اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود اپنا اکثروقت تاریخ، تفسیر، فلسفہ، کلام، اور سیرت جیسی کتب کے مطالعہ میں گزارتے تھے۔ کثرت مطالعہ کا نتیجہ تھا کہ آپ ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو فرماتے تھے۔ آپ کی گفتگو میں اتنی تاثیر ہوتی تھی کہ جس کو ایک بار سمجھادیا وہ آپ کے سامنے سرتسلیم خم کردیتا تھا ۔

محلہ پورہ خضر مبارکپورمیں سب سے پہلے مکتب "خادمان اسلام"کے بانی مولانا علی حسین ہی تھے ۔ یہ مکتب ابتداء میں مولانا موصوف کے مکان پر شروع ہوا جس میں مولانا علی حسین خود تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے ۔اس مکتب کی ترقی کے پیش نظر مولانا علی حسین نے مبارکپور کےسات مقامات پر ادارہ خادمان اسلام کے شعبہ تشکیل دیے جن میں سے: امام بارگاہ حسینہ ، امام بارگاہ قصر حسینی ، امام بارگاہ وفادار حسینی ، امام بارگارہ دربار حسینی اور امام بارگاہ علمدار حسینی وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔ جس میں تقریباً 800 طلبہ و طالبات زیر تعلیم تھے ۔ ادارہ خادمان اسلام کی ترویج وترقی کے لیے مولانا علی حسین اور مولانا محمد عسکری مبارکپوری نے اس ادارے کے لیے اسی محلہ پورہ خضر میں ایک مکان خریدا جس میں درس و تدریس کا سلسلہ باقاعدہ طور پر شروع کیا۔اس کے علاوہ طالبات کو خود کفیل بنانے کے پیش نظر ادارہ خادمان اسلام میں سلائی مشین خرید کر لائی گئیں اور وہیں ماہر لیڈیز ٹیلر کے ذریعہ طالبات کو سلائی کا کام سیکھا یا گیا ۔

آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ نے کبھی کسی منصب کے لئے کوشش نہیں کی اور نہ ہی کسی اختلاف کی نذر ہوئے۔ موصوف نے اپنی شخصیت کے احساس کو مفاد پرستوں کی سولی پرنہیں چڑھنے دیا بلکہ ہمیشہ معاشرہ کی اصلاح سے سروکار رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ لوگ آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں۔

مولانا علی حسین نے تمام تر مصروفیات کے باوجود قلم ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اپنی آئندہ نسل کے لئے بہت سی کتابیں ورثہ کے طور پر چھوڑیں جن میںسے: مناقب الحسنین، مسیحی مناظرہ، اصول مدرس، مناظرہ حسینیہ، درس مفصل، مخزن علم، فن تدریس، تاریخ مدرسہ باب العلم، حسینی شاعری اور وفات قادیانی وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔

موصوف ایک کامیاب مبلغ بھی تھے لہذا سن 1958عیسوی سے 1990 عیسوی تک افریقہ کے مختلف ممالک مثلاًتنزانیہ، یوگنڈا، مڈاگاسکر اور کینیا وغیرہ میں خدمت خلق انجام دی اور ان ممالک کے علاوہ ماریشس میں مسلسل 10 برس مقیم رہکرلوگوں کو زیور اخلاق محمدی سے مزین کیا۔

مولانا علی حسین ایک اچھے عالم و ذاکر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین شاعر بھی تھے،آپ نے فن شاعری میں بڑے جوہر دکھائے ابتدامیں اپنا تخلص حسینیؔ رکھا مگر اپنے استاد کے حکم سے تبدیل کرکے قیصر تخلص کر لیا اور تا حیات میدان شاعری میں اسی تخلص سے پہچانے گئے نمونہ کے طور پر چند اشعارپیش خدمت ہیں:

(1) ¬قصہ ابلیس و آدم اور جنت کی زمیں جس جگہ شیطاں نظر آتا تھا مار آستیں

(2) ¬¬یہ اثر عابد میں تیری تربیت کا ہے حسین ¬کہہ گیا دشمن بھی آخر انت زین العابدیں

آخر کار یہ علم و ادب کا چمکتا آفتاب 6/ نومبر سن 1995 عیسوی پیر کی شب میں سر زمین مبارکپور ضلع آعظم گڑھ پرغروب ہوگیا چاہنے والوں کا مجمع آپ کے دولت کدہ پر امنڈ پڑا اور غسل و کفن کے بعد علماء، دانشوران اور مؤمنین کی موجودگی میں مبارکپورکے ‘‘بندری باغ’’ نامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند – سایز دائرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص370، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/X7wklKzA7vk?si=5OupYH7VvLrx02Ji

تبصرہ ارسال

You are replying to: .