۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مولانا قنبر علی طاب ثراہ مبارکپوری

حوزہ/ عزاداری امام حسینؑ میں پر جوش انداز میں شرکت کرتے تھے ۔مرثیہ خوانی اور مجالس اور جلوس عزا میں جذبہ حسینی کے ساتھ نوجوانوں کو ترغیب اور حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔انہوں نے مبارکپور میں متعدد کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔

تحریر: مولانا محمد رضا ایلیا مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا قنبرعلی طاب ثراہ 14؍مئی 1951 کو محلہ پورہ دلہن ، مبارکپور ، ضلع اعظم گڑھ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام جناب علی حسن مرحوم تھا ۔محترم والد مباکپور کی جانی مانی ہستی تھے ۔ عزاداری امام حسینؑ میں پر جوش انداز میں شرکت کرتے تھے ۔مرثیہ خوانی اور مجالس اور جلوس عزا میں جذبہ حسینی کے ساتھ نوجوانوں کو ترغیب اور حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔انہوں نے مبارکپور میں متعدد کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔

مولانا قنبر علی طاب ثراہ مبارکپوری نے ابتدائی تعلیم مدرسہ ’’باب العلم ‘‘مبارکپورسے حاصل کی ۔ اعلیٰ تعلیم کے لیےمبارکہ مشارع الشرائع المعروف جامعہ ناظمیہ،لکھنو تشریف لے گئے ۔جہاں آپ کا شما ر جا معہ ناظمیہ کے ہونہار طلاب میں ہوتا تھا ۔جامعہ ناظمیہ کے امتحانات میں امتیازی نمبرات حاصل کیے آپ نہایت شریف النفس ، سادہ زندگی بسر کرنے والے اور سادہ مزاج اور اخلاق حسنہ کے حامل تھے ۔ ہر ایک سے ہلکی سی مسکان سےساتھ ملنا ان کا خاصہ رہا ۔

مولانا قنبر علی طاب ثراہ مبارکپوری کے سینئر استاد محترم مولانا مجتبیٰ حسین گھوسی ،مولانا ناظم علی خیر آبادی وغیرہ تھے۔ مولانا موصوف کے کلاس ساتھی استاد محترم مولانا محمد حسنین ریجیٹوی ، مولانا شمیم حیدر ، مولانا شبیہ الحسن و غیرہ تھے ۔ مولانا درالحسن مئو( مقیم افریقہ) آپ کے برادر نسبتی تھے اور مولانا محمد ظہور کے داماد تھے ۔

مولانا قنبر علی طاب ثراہ مبارکپوری جامعہ ناظمیہ،لکھنؤ سے تقریباً 1975میں فارغ ہوئے ۔ مبارکپور، اعظم گڑھ میں عالیجناب الحاج نسیم رضا طاب ثراہ کےبچپن کے ساتھیوں سے تھے ۔مبارکپور سےجانےکے بعد بھی آپ نے اپنے جگری دوست سےمسلسل خط و کتابت کے ذریعہ سے خیریت دریافت کرتے رہتے تھے ۔ اپنے وطن مالوف مبارکپور اتنی محبت تھی کہ عشرہ محرم میں آپ جہاں بھی ہوتے تھے ان کو توجہ مبارکپور کی طرف رہتی تھی پہلی محرم سے روز عاشورہ اپنے رشتہ دارو ں اور دوستوں کو فون کر کے پو چھتے تھے کہ کہاں مجلس ہو رہی ہے ،عزاداری کیسی ہو رہی ہے ۔نیا نو حہ کون سا پڑھا گیا، جب نوحہ پڑھا جانے لگے تو مجھے ضرور سنانا۔

مولانا قنبر علی طاب ثراہ مبارکپوری خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ اور مولانا سید کرار حسین طاب ثراہ اور محقق وم دبر بزرگ عالم دین عالیجناب مولانا ناظم علی صاحب قبلہ خیر آبادی کے ساتھ اس وقت جڑے کہ جب تنظیم المکاتب،لکھنؤ کی سنگ بنیاد رکھی جا رہی تھی ۔ مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ مولانا موصوف کو جب تبلیغ و ترویج علوم آل محمد ؐافریقہ جانے کے لیے کہا تو آپ نے کہاکہ اگر میں افریقہ چلا جاؤں تو میری ’’ مائی ‘‘(والدہ )اکیلی رہ جائیں گی، ان کی دیکھ بھال کون کرے گا ۔ یہ لائق و فائق فرزند کی علامت ہے ۔آپ نے تنظیم المکاتب ، لکھنؤک ے قائم ہونے کے بعد 17؍برس تک بحیثیت انسپکٹرمتعدد اضلاع کے دورہ کیا جہاں تعلیمی شعبوں میں اور درس و تدریس میں فعال کر دار انجام دیا۔17 ؍برس تک اسی تعلیمی سیشن میں سر گرم عمل رہے ۔

مولانا قنبر علی طاب ثراہ مبارکپوری نے عصری تعلیم میں جامعہ علی گڑھ سے ادیب ماہر، ادیب کامل، آلہ آبادمدرسہ بورڈسے منشی ، مولوی ، عالم ، فاضل فقہ ، فاضل ادب ، فاضل معقولات کے علا وہ ایم .اے.(اردو) کی سند حاصل کی ۔مولانا حکیم امت کلب صادق طاب ثراہ نے آپ کو فقہ جیسے زیور علم سے آراستہ کیا۔خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہر طاب ثراہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اس کے علاوہ مولانا مرزا محمد اشفاق طاب ثراہ کی شاگردی اختیار کی ۔ ان دونوں عالم دین کی آپ پر نظر خاص اور نظر کرم ہمیشہ رہی اس لیے ان کے خاص شاگردوں میں آپ شمار کیے جاتے ہیں۔

لکھنؤ یونیورسٹی،لکھنؤ سے فارسی زبان میں پی ایچ .ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ جہاں نے قبلہ مو صوف اپنے ڈپارٹمنٹ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے اور تعلیمی سفر میں اپنے پیچ میں ہونہار طلبہ سہرا اپنے سرلیا ۔

خدائے سخن میر انیس پہ پی ایچ.ڈی کی ۔ہمیشہ اردو نظم میں اور میر انیس نے جو مرثیہ میں کر بلا کے مناظر پیش کیا ہے اس کو تا عمر اپنی مجالس ، جمعہ کے خطبے اور اپنے لیکچر ہمیشہ میں نمایاںجگہ دی۔

17؍اگست 1977میں ’’وصی نقوی ‘‘نیشنل انٹر کا لج، رائے بریلی کے شعبہ اردومیں لیکچرر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ کی محنت شاقہ اور تعلیم اور درس و تدریس کے شعبے میںانتھک کو شش کے نتیجہ میں اسی نیشنل انٹر کالج، رائے بریلی میں جولائی 2002 سے جولائی 2009 تک پرنسپل کے عہد ے پر تعینات ہوئےاور جون 2013 میں اسی عہدے سے سبکدوش ( ریٹائر) ہوئے۔ مولانا موصوف نے شعبہ اردو کو مزید مستحکم بنایا اور اردوادب وثقافت کی آخر ی وقت تک قابل قدر خدمات انجام دیں۔مولانا موصوف کے شاگردان دنیا کے گوشے گوشےآج بھی اپنا میں نام روشن کر رہے ہیں ۔

مولانا قنبر علی طاب ثراہ مبارکپوری 1977 سےآخری عمر تک17؍مارچ 2019 (بیالیس برس 11؍مہینے )تک شیعہ جامع مسجد، رائے بریلی میں امام جمعہ و جما عت کے فرائض انجام دیئے ۔جہاں انہوں نے تعلیمات آل محمدؐ اورمذہبی امور میں انتھک سعی و کوشش کی ۔اسی دوران جمعہ و جماعت ہر طرح سے قوم کی سر پر ستی کرتے ہوئے بے لوث اور والہانہ جذبہ عشق الٰہی اور تعلیمات آل محمدؐکی خدمات انجام دیں۔

آپ ہی نے دوران امامت شیعہ جامع مسجد ، گلاب روڈ کی تعمیر کرائی۔اس کے علاوہ محلہ پورہ دلہن ،مبارکپور ، اعظم گڑھ میں ’’ بیت الحزن ‘‘ امام باڑہ کی تعمیر و تکمیل آپ کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

رائے بریلی کے جلوس عزا اور دیگر اہم جلوسوں کی معلومات فراہم کرانے کے لیے ایل آئی یوافسران ہمیشہ مولانا و علامہ قنبر علی طاب ثراہ مبارکپوری کےگھر( رائے بریلی میں) تشریف لاتے اور آپ سے تبادلہ خیال کر تے تھے اس کے علاوہ بورڈ کے امتحانات کے لیے سلسلہ میں امتحانات کے افسرا ن بھی آپ ہی مشورہ کر تے تھے ۔’’ جامع گلش رضا حبیبہ‘‘ ، رائے بریلی اور’’ خدمت خلق سو سائٹی درگاہ ‘‘ رائے بریلی کے بزرگان ہمیشہ آپ سے مفید مشورےلیتے تھے اور متعدد بار آپ کو ان دونوں جگہوں سے اعزاز سے نواز بھی گیا ۔

مولانا قنبر علی طاب ثراہ مبارکپوری کو1977 میں نجفی ہاؤس ، ممبئی نے اپنا نمائندہ مقرر کیا ۔ نمائندگی حاصل ہونے کے بعد آپ نے رائے بریلی اور دیگر اطراف کے علاقوں میں اپنی نمائندگی کے توسط سے مستحق عوام کو امدادی رقم دستیاب کرائی جاتی تھی ۔حالات سے ابتر غریب اور پسماندہ طبقوں تک ان کے حقوق پہنچانے کی ذمہ داری آپ نےاپنے کاندھوں اٹھا رکھی تھی۔

آخر کار علم و عمل اور ادب کا یہ روشن آفتاب 16؍مارچ 2019کو شب میں رائے بریلی میں مختصر علالت کے بعد 67برس میں عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔مرحوم کی نماز جنازہ مولانا قنبر رضوی رائے بریلوی نے پڑھائی ۔جسد خاکی کو’’ قومی قبرستان‘‘ ڈبل پھاٹک نزد ریلوے اسٹیشن رائے بریلی میں سپرد خاک کیا گیا ۔

مولانا قنبر علی طاب ثراہ مبارکپوری کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار لڑکے ، ایک لڑکی ہیں ۔ ان کے بھائی جناب نواب علی صاحب مبارکپوری اور بھتیجے جناب ماسٹر عقیل علی صاحب ہیں ۔

................

تبصرہ ارسال

You are replying to: .