۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مولانا محمد علی طاب ثراہ مبارکپوری

حوزہ/ آپ کی خطاب میں مصائب کا منفرد انداز تھا ۔اسی لیے آپ ’’ مولوی شام غریباں ‘‘ کے نام سے مشہور تھے ۔آپ اخلاق حسنہ کے حامل تھےاور نہایت نیک سیرت انسان تھے سب سے خوش روئی و خوش اخلاقی سےملاقات کرتے۔

تحریر: مولانا محمد رضا ایلیا مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا و علامہ محمد علی طاب ثراہ مبارکپوری 18؍رمارچ 1912 مبارکپور کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد عالیجناب معزز شہر ، مصلح قوم ، مکھیائے مبارکپور ، ’’بابائے قوم‘‘عالیجناب علی حسن طاب ثراہ تھا ۔

مولانا محمد علی طاب ثرا ہ مبارکپوری ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی نا ظرہ قرآن مجید اپنے والد سے مکمل کیا پھر مدرسہ باب العلم مبارکپور میں تعلیم حا صل کی ۔اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ ناظمیہ لکھنؤ تشریف لے گئے جہاں سے آپ نے ممتاز الافاضل کی سند حاصل کی۔ اس جامعہ ناظمیہ میں ہمیشہ اپنے کلاس میں ممتاز آتے تھے ۔ اپنے نیچے درجہ والوں کو امتحان کے دوران پڑھاتے تھے جس سے ان کی علمی صلاحیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔

مولانا محمد علی طاب ثراہ مبارکپوری دین اور علوم محمدؐ و آل محمدؐ کی ترویج اپنی ذاکری کے ذریعہ کی۔ اپنے دولت خانہ پر سال بھر میں کئی بار مجلسیں منعقد کرتے تھے اور خود ہی ذاکری فرماتے تھے۔ محلہ پرانی بستی (بکھری) کے امام بارہ گاہ میں شام غریباں کی مجلس خاص طور سے آپ ہی پڑھتےتھے۔ اس مجلس شام غریباں کے لیے سبھی انتظار کرتے تھے ۔ اس مجلس کو اہلیان مبارکپور اور گرد و نواح کے لوگ مجلس سننے کے لیے ضرور آیا کرتے تھے ۔ خاص طور پر جب مجلس میں جب مصائب پڑھتے تو عزاداروں میں گہرام بر پا ہو جا تھا ۔ آپ کی خطاب میں مصائب کا منفرد انداز تھا ۔اسی لیے آپ ’’ مولوی شام غریباں ‘‘ کے نام سے مشہور تھے ۔آپ اخلاق حسنہ کے حامل تھےاور نہایت نیک سیرت انسان تھے سب سے خوش روئی و خوش اخلاقی سےملاقات کرتے۔

ایک مرتبہ بہت سے مومنین کرام ساتھ میں شب برات کے موقع پردریائے ٹونس ’گوجر پار‘‘ عریض ڈالنے گئے تھے اسی دوران کچھ شر پسند عناصر افراد نے مومنین مبارکپور پر حملہ کر دیا جس میں آپ کافی زخمی ہو گئے تھے اور شفایاب نہ ہو سکے۔

آخر کار23؍جنوری 1987 کو راہی جنت ہوئے وفات بعد آپ کا جسد خا کی بڑی ارجنٹی’’ بنرہی باغ ‘‘ کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .