۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مولانا علی سجاد

حوزہ/ مولانا علی سجاد صبر و شکر کے عظیم درجے پر فائز تھے، مشیت ایزدی سے آپکے تین فرزندوں نے آنکھوں کے سامنے دم توڑدیا مگر آپ نے نہایت ہی صبر وضبط کے ساتھ مشیت ایزدی کے سامنے سر کو جھکا لیا۔ مبارکپور میں آپنے بہت سے دینی و مذہبی کام انجام دیۓ۔

تحریر: مولانا احسان عباس قمی مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی | حکیم الحاج مولانا علی سجاد صاحب بن حکیم مولانا میانصاحب یار علی بن حکیم مولانا میانصاحب عبدالواحد بن مورث اعلیٰ مولانا میانصاحب جان محمد اعلی اللہ مقامہم ١٣٠٥ھ محلہ شاہ محمد پو، مبارکپور، اعظمگڈھ میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد مولانا میانصاحب یار علی ایک بڑے عالم تھے۔

آپکے بارے میں دیوبندی مسلک کے ایک عظیم محقق جناب مولانا قاضی اطہر صاحب مبارکپوری نے اپنی کتاب میں تحریر فرمایا ہے کہ " مولانا حکیم علی سجاد بن میانصاحب یار علی محلہ شاہ محمد پور کے رہنے والے تھے، یہاں کے علماء شیعہ میں خصوصی مقام کے مالک تھے، انکے والد میانصاحب یار علی فارسی کے اچھے عالموں میں تھے، مولانا علی سجاد کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ انھوں نے کہاں کہاں تعلیم حاصل کی اور کس مدرسہ سے سند فراغ پائی، صاحب فہم و فراست اور بڑی سوجھ بوجھ کے آدمی تھے۔ انمیں اور مولانا شکراللہ صاحب (دیوبندی عالم) میں بڑا یارانہ تھا۔ وہ (مولانا علی سجاد صاحب) مدرسہ احیاء العلوم میں اکثر آیا کرتے تھے اور قصبہ کے امور و معاملات میں دونوں حضرات مشورے کیا کرتے تھے اس لیۓ بعض لوگ مولانا علی سجاد صاحب کو دیوبندی شیعہ کہتے تھے‌۔ قد ابھرتا ہوا، رنگ سانولا، بڑے پائنچے کا پاجامہ، کرتا اور دوپلی ٹوپی انکا عام لباس تھا، شیروانی بھی پہنا کرتے تھے، ١٣۸۶ھ میں انتقال کیا ۔ انکے اور علماء شیعہ کے اکثر نام اور حالات مولانا فیاض حسین مبارکپوری کے بیان کردہ ہیں"۔

مولانا علی ارشاد نجفی آپکے پوتے مولانا علی ارشاد نجفی اعلی اللہ مقامہ نے تحریر فرمایا ہے کہ "آپ ایک پایہ کے حکیم تھے، آپکا طبی تجربہ بہت بڑھا ہوا تھا، مریض کے صحتیاب ہونے نہ ہونے کا اندازہ بہت پہلے ہوجاتا تھا، قانون دانی میں بے مثل تھے، ہماری پرانی زمینوں پر کچھ زمیندار قبضہ کرنا چاہتے تھے یہ آپ ہی کی کاوش کا نتیجہ تھا کہ پھر ساری زمین اپنے قبضہ میں آگئی۔ آپ اکتوبر ١٩٦٥ء میں باغ کی کچھ زمین مدرسہ باب العلم مبارکپور پہ وقف کرکے زیارت عتبات عالیات کے لئے تشریف لےگۓ ۔ آپ ١٣٦٦ھ مطابق ١٩٤٧ء میں فریضۂ حج سے بھی مشرف ہوۓ ۔

آپ صبر و شکر کے عظیم درجے پر فائز تھے، مشیت ایزدی سے آپکے تین فرزندوں نے آنکھوں کے سامنے دم توڑدیا مگر آپ نے نہایت ہی صبر وضبط کے ساتھ مشیت ایزدی کے سامنے سر کو جھکا لیا۔ مبارکپور میں آپنے بہت سے دینی و مذہبی کام انجام دیۓ۔

آپنے دین و مذہب کی تبلیغ و ترویج کرتے ہوۓ یکم ذیقعدہ ١٣٨٦ھ مطابق ١١ فروری ١٩٦٧ء کو انتقال فرمایا اور مدرسہ باب العلم مبارکپور کے پچھم جانب جو باغ تھا وہاں دفن کیے گۓ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .