۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
حکیم مولانا سلمان احمد اعلی اللہ مقامہ

حوزہ/ مولانا علی ارشاد صاحب اعلی اللہ مقامہ نے لکھا ہے کہ آپ بہت ذکی، ذہین اور سنجیدہ مزاج تھے اور والد مرحوم کی خصوصی توجہ اور تربیت نے چار چاند لگادیۓ تھے، محض ١٢ سال کی عمر میں ١٣٦٦ھ مطابق ١٩٤٧ء میں جد معظم مولانا علی سجاد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ اور والدۂ مرحومہ کے ساتھ حج بیت اللہ سے مشرف ہوۓ۔

تحریر: احسان عباس قمی مبارکپوری

حوزہ نیوز ایجنسی | حجۃ الاسلام الحاج علامہ علی ارشاد النجفی اعلی اللہ مقامہ کے برادر خورد عالیجناب الحاج حکیم مولانا سلمان احمد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ رجب ١٣٥٤ھ مطابق ١١ دسمبر ١٩٣٥ کو محلہ شاہ محمد پور، مبارکپور، اعظمگڈھ میں پیدا ہوئے، آپکے والد عالیجناب حکیم مولانا علی حماد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ مبارکپور کے جید علماء میں تھے۔

مولانا علی ارشاد صاحب اعلی اللہ مقامہ نے لکھا ہے کہ آپ بہت ذکی، ذہین اور سنجیدہ مزاج تھے اور والد مرحوم کی خصوصی توجہ اور تربیت نے چار چاند لگادیۓ تھے، محض ١٢ سال کی عمر میں ١٣٦٦ھ مطابق ١٩٤٧ء میں جد معظم مولانا علی سجاد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ اور والدۂ مرحومہ کے ساتھ حج بیت اللہ سے مشرف ہوۓ۔

جامعۂ جوادیہ بنارس میں تعلیم حاصل کی اور غالباً ١٩٥٩ء میں وہاں سے فارغ ہوکر "فخر الافاضل" کی سند لی اور "فاضل طب" کے امتحان میں کامیاب ہوکر کچھ دنوں بنارس کے ایک خاص حکیم کے ساتھ طبابت کی مشق کی پھر جد معظم کی زیر نگرانی گھر کے مطب میں مشق کرنے لگے اور ماشاءاللہ جلد ہی مستقل طور سے مطب کرنے لگے، خدا نے دست شفاء دے رکھی تھی، جد معظم کے انتقال کے بعد مطب بند کردیا۔

غالباً ١٩٧٣/٧٤ء میں مدرسہ باب العلم مبارکپور میں پرنسپلی کا عہدہ سنبھالا اور کارہائے نمایاں انجام دیے۔ فروری ١٩٧٩ء میں مدرسہ باب العلم سے علیحدگی اختیار کرلی اور پھر ادارۂ تنظیم المکاتب لکھنؤ سے بحیثیت انسپکٹر وابستہ ہوگۓ۔

تقریباً ڈیڑھ سال بحیثیت انسپکٹر کام کیا اسکے بعد کشمیر کے علاقہ موضع گوسائیں میں بحیثیت معلم کام کرنے لگے اور کشمیر کے مکاتب کے انسپکٹر بھی رہے۔

٢٧ مارچ ١٩٨٣ء مطابق ١١ جمادی الثانی ١٤٠٣ھ شام کو بعد نمازِ مغربین سینہ میں درد اٹھا جو دم بدم بڑھتا ہی چلا گیا، کوئی علاج بھی کارگر نہیں ہوا بالآخر صرف آدھے گھنٹے کی علالت میں رات ساڑھے سات بجے انتقال ہوگیا ۔

وہاں کے مومنین نے دوسرے دن غسل و کفن و نماز جنازہ کے بعد میت کو دو مولوی صاحبان کی نگرانی میں بذریعۂ ایمبولینس پوری حفاظت کے ساتھ مبارکپور پہنچوایا، ٣٠/٣/٨٣ کو شام ٤ بجے جونہی یہ خبر پھیلی مومنین جمع ہونے لگے، اک کہرام برپا تھا۔

٣٠/٣/٨٣ کو بعد نمازِ مغربین جنازہ اٹھایا گیا اور کچھ دیر امامباڑہ رمضان علی شاہ میں رکھا گیا اسکے بعد ٩ بجے شب میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور رات ١٠ بجے میت کو شیعہ عیدگاہ مبارکپور میں دفن کردیا گیا ، مومنین کے مطابق پہلی بار نماز جنازہ میں اتنا بڑا مجمع دیکھا گیا۔

مرحوم ایک بہترین شاعر بھی تھے آپنے بے شمار نوحے اور قصیدے لکھے، آپکے نوحے مختلف انجمنیں خاص طور سے انجمن انصار حسینی رجسٹرڈ مبارکپور پڑھتی رہیں اور آج بھی پڑھتی ہیں۔

خدا مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور

آسماں انکی لحد پہ شبنم افشانی کرے

تبصرہ ارسال

You are replying to: .